السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
متعدد قارئین کی طرف سے یہ سوال موصول ہواہے کہ اگر کوئی عشاء کے بعد وتر پڑھ لے اور سوجائے تو رات کسی وقت بیدار ہوکر اسے تہجد پڑھنے کی اجازت ہے؟تہجد پڑھنے کی صورت میں وتروں کے متعلق کیا حکم ہے؟کیا ایک رکعت پڑھ کرپہلے ادا کردہ وتروں کو ختم کردے۔پھر آخر میں دوبارہ وتر پڑھے یا بیداری کے بعد حسب توفیق نوافل پڑھتا رہے اور اسے آخر میں وتر کی ضرورت نہیں بلکہ پہلے سے ادا کردہ وتر ہی کافی ہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں مفصل جواب دیا جائے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محدثین کی اصطلاح میں ایک رکعت پڑھ کر پہلے ادا کردہ وتروں کی تعداد کو جفت کرنا نقض وتر کہلاتاہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں نقض وتر کے متعلق اختلاف تھا، کچھ حضرات اس کے قائل تھے اور اکثریت اس کی قائل نہ تھی، چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کچھ تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم نقض وترکے قائل تھے۔وہ اس طرح کہ دوبارہ بیدار ہوکر ایک رکعت پڑھے اور اسے ادا کردہ وتروں سے ملا دیا جائے ،پھر جس قدر نوافل میسر ہوں پڑھ لئے جائیں، اس کے اختتام پر وترادا کرلیے جائیں کیوں کہ حدیث میں ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے۔اس کے برعکس کچھ اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم کا موقف ہے کہ اگر کوئی عشاء کے بعد وتر پڑھ کر سوجائے، پھررات کے کسی حصہ میں بیدار ہوتو حسب توفیق نفلی نماز پڑھتا رہے، اسے نقض وترکی ضرورت نہیں بلکہ اس کے پہلے ادا کردہ وتر ہی برقرار رہیں۔اسے دوبارہ وتر پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں۔پھر فرماتے ہیں کہ یہ آخری موقف زیادہ صحیح ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز وتر کے بعد نفل ادا کرنا ثابت ہے، پھر امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی وہ حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتروں کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔(جامع ترمذی، کتاب الصلوۃ، باب ا لوتران فی لیلۃ)
اس اختلاف کی بنیاد احادیث وآثار کا بظاہر تعارض ہے کیوں کہ حدیث میں ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے۔(ترمذی، وتر 470)
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے'' کہ تم اپنی رات کی نماز کے آخر میں وتر پڑھا کرو۔''(صحیح بخاری وتر 998)
ان احادیث کا تقاضا ہے کہ اگر رات کے پہلے حصہ میں وتر پڑھے ہیں، پھر وہ پچھلی رات اٹھ کر نفل پڑھنا چاہتا ہے تو اسے پہلے سے ادا کردہ وتر ختم کردینے چاہئیں، پھر حسب توفیق نوافل پڑھنے کے بعد آخر میں وتر پڑھے جائیں تاکہ تمام احادیث اپنے اپنے مقام پر صحیح رہیں۔ لیکن احادیث میں سیرت طیبہ کا یہ پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ آپ وتروں کے بعد دورکعت پڑھتے تھے۔(صحیح مسلم صلوۃ المسافرین 1724)
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتروں کے بعد دو ر کعت پڑھنے کی ترغیب بھی دی ہے۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' کہ رات کو بیدار ہونا بہت محنت طلب اور بھاری کام ہے۔ اس لئے وتروں کے بعد اگر دو رکعت پڑھ لی جائیں تو تہجد کے لئے یہی کافی ہیں۔''(سنن بیہقی :3/33)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور امت کو اس کی ترغیب کاتقاضا ہے کہ وتروں کے بعد نوافل پڑھے جاسکتے ہیں ۔ رات کی نماز کے آخر میں وتروں کا ہونا ضروری نہیں ،نیز نوافل پڑھنے کے لئے نقض وتر کی بھی ضرورت نہیں ہے، امام محمد بن نصر مروزی نے اس مسئلہ پر بڑی سیر حاصل گفتگو کی ہے، ہم اپنی گزارشات میں جستہ جستہ اس سے بھی استفادہ کریں گے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق احادیث میں ہے کہ وہ نماز وتر اول شب میں پڑھ لیتے، پھر جب آخر رات بیدار ہوتے تو ایک رکعت پڑھ کر نوافل شروع کرلیتے اور فرماتے کہ یہ اجنبی اونٹوں کی طرح ہیں جنھیں اصل اونٹوں سے ملا دیا جاتا ہے۔ حضرت سعید بن مالک رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی احادیث میں ہے، فرماتے ہیں :'' کہ رات کو وتر پڑھنے کے بعد دوبارہ اٹھ کر نفل پڑھنے کاارادہ کرتاہوں تو پہلے ایک رکعت پڑھتا ہوں، پھر دو رکعت ،پھر دو رکعت، اسی طرح نوافل ادا کرتا ہوں، آخر میں وتر ادا کرلیتاہوں۔''(مختصر قیام اللیل :219)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے وتر کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:'' کہ اگر میں سونے سے پہلے وتر پڑھ لوں، پھربیدار ہوکر نفل پڑھنا چاہوں تو اپنے پہلے ادا کردہ وتروں کو ایک رکعت پڑھ کرجفت کرلیتا ہوں۔پھر دو دو رکعات نماز ادا کرتا ہوں، آخر میں ایک رکعت پڑھتا ہوں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تمہاری رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے۔''(مسند امام احمد :2/135)
حضرت مسروق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نقض وتر کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:'' کہ میرے پاس اس سلسلہ میں کوئی روایت نہیں ہے بلکہ اپنے اجتہاد سے کام لے کر ایسا کرتا ہوں۔''حضرت مسروق کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھی اس عمل پر بہت تعجب کیا کرتے تھے۔(مختصر قیام اللیل :220)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جب نقض وتر کا ذکر ہوا توآپ نے فرمایا:'' کہ نقض وترکرنے والا وتروں سے کھیلتا ہے، نیز آپ نے فرمایا:'' اس طرح تو رات میں تین دفعہ وتر پڑھے جاتے ہیں۔حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو دودفعہ وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:''جو لوگ نقض وتر کرتے ہیں وہ گویا اپنی نماز کے ساتھ کھیلتے ہیں۔''(مختصر قیام اللیل :221)
اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر کسی نے رات کے پہلے حصہ میں وتر پڑھ لئے ہیں تو اگر اسے رات کے پچھلے حصے میں نفل پڑھنے کے لئے وقت میسر آجائے تو اسے نفل پڑھنے کی اجازت ہے، وہ نہ تو نقض وتر کرے اور نہ دوبارہ وتروں کو ادا کرے ،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کاعمل بھی یہی ہے کہ وہ رات کے پہلے حصے میں وتر پڑھ لیتے تھے۔اگر رات بیدار ہوجاتے تو وہ دو رکعت نفل ادا کرتے۔تاآنکہ اپنی نماز سے فارغ ہوجاتے۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' کہ میں سونے سے پہلے وتر پڑھ لیتا ہوں ۔اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد رات کا قیا م میرے مقدور میں لکھا ہوتا تو میں اٹھ کر دو دو رکعت صبح تک پڑھتا رہتا ہوں۔''حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' کہ میں نماز عشاء کے بعد پانچ وتر پڑھ کر سوجاتاہوں، اگرصبح بیدار ہوجاؤں تو دو دو رکعت پڑھتارہتا ہوں۔اور پہلے سے ادا کردہ وترو ں کوکافی سمجھتا ہوں۔'' حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے بھی یہی عمل مروی ہے، یہ تمام حضرات نقض وتر نہیں کرتے تھے بلکہ ایسا کرنے کو اچھا خیال نہیں کرتے تھے۔(مختصر قیام اللیل :221)
پہلے حدیث گز ر چکی ہے کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے، اس سلسلہ میں تفصیلی ر وایت ملاحظہ فرمائیں:
حضرت قیس بن طلق کہتے ہیں کہ طلق بن علی رضی اللہ عنہ ایک دن ہماری ملاقات کو آئے، انہوں نے ہمارے ہاں روزہ افطار کیا اور اس رات نمازتراویح وتر سمیت پڑھائی، پھر وہ اپنی مسجد میں تشریف لے گئے، وہاں جا کر اپنے مقتدی حضرات کو نماز پڑھائی، جب وتر رہ گئے تو ایک آدمی کو مصلیٰ پر آگے کردیا اور اسے کہا کہ اپنے ساتھیوں کووتر پڑھا دو کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ ایک رات میں دو وتر نہیں ہوتے۔''(ابو داؤد:الوتر 1439)
اس پر امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے نقض وتر کاباب قائم کیاہے۔یعنی نقض وتر کا کوئی جواز نہیں ہے۔اگراس کا ثبوت ہوتا توحضرت طلق رضی اللہ عنہ اپنی مسجد میں نماز تراویح پڑھانے سے قبل نقض وتر کرتے اور آخر میں اسے ادا کرتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔
حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے نقض وتر کے متعلق سوا ل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ نقض وترکی ضرورت نہیں۔جب تم نے پہلے وتر پڑھ لیے ہیں تو آخر شب میں وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ بیداری کے بعد جس قدر نوافل میسر ہوں پڑھ لئے جائیں۔''(صحیح بخاری :المغازی 4176)
اسماعیلی کی روایت ہے کہ جب تم نے آخری رات کے کسی حصے میں وتر پڑھنے ہیں تو اول شب پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔اس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ میں نے نقض وتر کے متعلق پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا تو انہوں نے حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ جیسا جواب دیا۔(فتح الباری:7/564)
حدیث میں ہے''کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔''(صحیح بخاری وتر 990)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے اس کی تفصیل پوچھی تو فرمایا:'' دو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیردیا جائے۔''(صحیح مسلم :1763)
اس حدیث کا بھی یہی تقاضا ہے کہ وتر کے بغیر ایک رکعت پڑھنا جائز نہیں۔چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں '' کہ وتروں کے علاوہ دو رکعت سے کم نفلی عبادت جائز نہیں۔''(فتح الباری :2/618)
ایک وتر پڑھ کر جو نقض وتر کیاجاتا ہےاس رکعت کی کیا حیثیت ہے؟ جبکہ پہلے وتر اور اس کی رکعت کے درمیان نیند گفتگو اور بے وضو ہونا سب کچھ حائل ہوا ہے۔اب یہ ایک رکعت ادا کردہ وتروں کے ساتھ مل کر ان کی تعداد کو کیسے جفت کرسکتی ہے۔بلکہ پہلے اسے ادا کردہ وتر اورحالیہ ایک رکعت دو الگ الگ نمازیں ہیں، جو ایسا کرتا ہے اس نے گویا دودفعہ وتر ادا کیے ہیں۔ پھر جب نقض وتر کے بعد نفل نماز پڑھے گا،پھر آخر میں وتر ادا کئے تواس نے رات میں تین دفعہ وتر ادا کرلیے جو کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ (تحفۃ الاحوذی :2/345)
علامہ عبد الرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ شارح ترمذی نے بھی اس پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
مختصر یہ ہے کہ رات کے پہلے حصہ میں وتر پڑھ کر پچھلی رات دوبارہ نفل پڑھے جاسکتے ہیں اور ایسا کرنا کسی حدیث کے مخالف نہیں ہے۔رات کی نماز کے آخر میں وتر پڑھنا یہ امر استحباب ہے امر وجوب نہیں ہے۔کیوں کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بعد نفل پڑھنا ثابت ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب