سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(100) نماز جمع کرنا

  • 11228
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1244

سوال

(100) نماز جمع کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب مقامی طور پر کسی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کیا جائے تو پہلے اور بعد کی مؤکدہ سنتوں کو پڑھا جائے یا چھوڑ دیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دونمازوں کو کسی معقول سبب کی بنا پر جمع کیا جاسکتا ہے جیسا کہ سفر وخوف 'بارش 'آندھی'بیماری'ونقاہت وغیرہ۔لیکن بلا وجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں، بلا سبب جمع کرنا کسی حدیث یا کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے عمل سے ثابت نہیں ہے۔بلکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بلاوجہ نمازوں کوجمع کرنا کبیرہ گناہوں میں شامل کیا ہے۔پھر سنن ونوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔لیکن مقیم ہونے کی صورت میں پہلی نماز کے بعد والی سنتیں نہیں پڑھنی چاہئیں، مثلا ظہر اورعصر کو جمع کیا ہے توظہر کی آخری سنتیں اور اگر مغرب وعشاء کو جمع کیا ہے تو مغرب کی دو سنتیں نہ پڑھی جائیں، البتہ عشاء کے بعد کی دو سنتیں اور وتر وغیرہ پڑھنے چاہئیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ انہوں نے بصرہ میں ظہر اور عصر جمع کرکے ادا کیں۔ اور ان کے درمیان کچھ نہ پڑھا ،پھر مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا، ان کے درمیان بھی کچھ نہ پڑھا،نیز آپ نے کسی مصروفیت کی بنا پر ایسا کیا، پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اکھٹی پڑھی تھیں،اور آپ نے درمیان میں کچھ نہ پڑھا تھا۔ (سنن نسائی ،کتاب المواقیت ،باب الجمع بین الصلوتین فی الحضر)

اس حدیث کے پیش نظر حضر میں دو نمازوں کو جمع کرتے وقت پہلی نماز کی بعد والی سنتیں چھوڑ دینے میں چنداں حرج نہیں ہے۔مغنی ابن قدامہ میں اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ ( مغنی ابن قدامہ: ج3 ص 127 تا 140)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:133

تبصرے