سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(65) دوران جماعت بعض آیات کا بلند آواز سے جواب دینا

  • 11194
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 1523

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ڈیرہ نواب سے عبدالعلی لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں عام طور پر دوران جماعت مقتدی حضرات بعض آیات کے اختتام پر باآواز بلند ان کا جواب دیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مختلف حضرات کی طرف سے ہمیں یہ سوال موصول ہواہے، مسئلہ کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ہم اسے ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ اس کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوران قراءت یہ معمول بیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  تسبیح پر مشتمل آیات تلاوت کرتے تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے اور جب کبھی سوال کی آیت سے گزرتے تو سوال کرتے ،اسی طرح جب کوئی تعوذ کی آیات پڑھتے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے۔(مسلم کتاب صلوۃ المسافرین)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول اگرچہ صلوۃ الیل سے متعلق ہے،تاہم محدثین کرام نے اسے عام رکھا ہے، یعنی جب بھی کوئی ایسی  بات کی تلاوت کرے جس میں اللہ کی تسبیح یا پناہ یا سوال کا ذکر ہوتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اس وقت اللہ کی تسبیح کرے، اللہ سے سوال کرے، نیز دینی اور دنیاوی ضرر رساں نقصان اور خسران سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔ دوران قراءت یہ ایک عام ہدایت ہے جس کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے، واضح رہے کہ یہ ہدایت صرف قاری یعنی پڑھنے والے کے لئے ہے۔کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع صرف اس معنی میں تمام افراد امت کے لئے عام ہے جب فرد کی حالت بھی وہی ہو جس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام سرانجام دیا ہے۔اس مختصر تمہید کے بعد ہم، جن آیات کا جواب دیاجاتا ہے، اس کی حیثیت بیان کرتے ہیں۔

1۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب(سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) پڑھتے تو (''سبحان ربی الاعلی)کہتے۔(سنن ابی داؤد )

 یہ تسبیح پر مشتمل آیت پڑھنے کے بعد تسبیح بیان کرنے کا عملی نمونہ ہے، اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

''اس حدیث کے بیان کرنے میں حضرت وکیع کی دوسرے طرق سے مخالفت کی گئی ہے ۔اس حدیث کو جب حضرت ابوکیع بن جراح اور حضرت شعبہ بیان کرتے ہیں تو اسے مرفوع کے بجائے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً بیان کرتے ہیں۔''

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ ر وایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے، اس کے علاوہ حضرت معمر نے بھی حضرت وکیع کی مخالفت کرتے ہوئے اسے موقوف بیان کیا ہے۔(مصنف عبد الرزاق :2/452)

لیکن حضرت وکیع بھی چونکہ ثقہ راوی ہیں،اس لئے ان کا مرفوع بیان کرنا ایک اضافہ ہے جسے محدثین کرام کے اصول کے مطابق قبول کیا جانا چاہیے، اس لئے یہ روایت مرفوع ہوگی۔

امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت اسی سند سے بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث شیخین بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔(مستدرک حاکم :1/267)

اما م ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے یونہی برقرار رکھا ہے۔(تلخیص المستدرک) اگر یہ روایت موقوف بھی ہو تو بھی اسے مرفوع کا حکم دیاجائے گا۔کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں اجتہاد کو کوئی دخل نہیں۔واضح رہے کہ آیات کا جواب دینے کا یہ عمل صرف قاری، یعنی پڑھنے والے کے لئے ہے،خواہ دوران نماز ہی کیوں نہ ہو، سامع کے لئے نہیں ہے۔چنانچہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر عمل ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت میں ہے کہ انہوں نے جمعہ کی نما ز میں (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) پڑھا تو (سبحان ربی الاعلی) کہا۔(سنن بیہقی :2/311)

اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی وضاحت ہے کہ انہوں نے نماز میں ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ) کے جواب میں (''سبحان ربی الاعلی) کہا۔(بیہقی :2/311)

ان احادیث وآثار کے پیش نظر اگر کوئی نماز میں (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) پڑھتا ہے تو اسے جواب میں ''سبحان ربی الاعلی'' کہنا چاہیے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نمونہ ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس نمونے کو اپنا یا ہےمگر اسے مقتدیوں کے لئے جواب دینے کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔

٭ حدیث میں ہے کہ اگر کوئی تم میں سے(وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ) پڑھے اور (أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ)''تک پہنچے تو اسے(بليٰ وانا  علي ذلك من الشاهدين) کہنا چاہیے۔(مسند امام احمد:2/249)

اس روایت کو بھی مقتدی حضرات کے لئے جواب دینے کی دلیل بنایا جاتا ہے لیکن یہ روایت بھی محدثین کرام کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتی کیوں کہ اس میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والا ایک راوی مجہول ہے جس کے حالات کا کوئی سراغ نہیں ملتا ،محدثین کی بیان کردہ شرائط کے مطابق جس روایت میں ''جہالت''پائی جائے وہ ضعیف اور ناقابل حجت ہوتی ہے۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

'' یہ روایت صرف اسی سند کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والے اعرابی کا نام مذکورہ نہیں ۔''(جامع ترمذی :حدیث نمبر 3347)

مصنف عبدا لرزاق میں یہ روایت اعرابی اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کے بغیر بیان ہوئی ہے لیکن یہ اس لئے ناقابل قبول ہے کہ اس کی سند سے دو  راوی ساقط کردیے گئے ہیں۔(مصنف عبدالرزاق :2/452)

٭ حدیث میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی (لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ) پڑھے تو اس کی آخری آیت کی تلاوت کے بعد اسے''بلیٰ''کہنا چاہیے۔(مسند امام احمد :2/249)

اس روایت میں بھی وہی سقم ہے جو اس سے پہلے والی میں بیان ہو چکا ہے۔ کیوں کہ یہ ایک ہی روایت ہے جسے ہم مسئلہ کی وضاحت کے پیش نظر الگ الگ بیان کررہے ہیں۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص اپنے مکان کی چھت پر نماز پڑھا کرتاتھا۔جب وہ سورۃ قیامۃ کی اس آخری آیت کوتلاوت کرتا تو اس کے بعد''سبحانک بلیٰ'' کہتا ، جب لوگوں نے اس سے پوچھا تو بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کہتے سنا ہے۔(بیہقی :2/310)

اول:تو اس روایت میں ایک راوی موسیٰ بن ابی عائشہ ہے جس کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے کسی صحابی سے یہ حدیث سنی ہو جس کا ذکر مذکورہ روایت میں ہے۔ اور اس روایت کو موسیٰ بن ابی عائشہ کے علاوہ دوسرا کوئی بیان کرنے والا بھی نہیں ہے۔

ثانیاً : یہ صرف قاری کےلئے ہے۔ مقتدی حضرات کےلئے جواب دینے کی دلیل یہ واقعہ نہیں بن سکتا۔

٭ حدیث میں ہے کہ تم میں سے اگر کوئی سورۃ مرسلات کی تلاوت کرے تو(فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ) پڑھنے کے بعد امنا باللہ  کہے۔ (بیہقی :2/310)

اس حد یث میں وہی سقم ہے جس کا تفصیلی ذکر پہلے ہوچکا  ہے کیوں کہ یہ بھی پہلی روایت کا ایک حصہ ہے۔

٭ حدیث میں ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے سامنے سورہ رحمٰن تلاوت فرمائی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمہ تن گوش ہوکر سنتے رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں نے یہ سورت جنوں کے سامنے پڑھی تھی تو وہ جواب دینے میں تم سے بڑھ کر تھے۔میں جب بھی (فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ)''پڑھتا تو وہ جواب میں '' لا بشي ء من نعمك ربنا نكذب فلك الحمد کہتے تھے۔(سنن ترمذی حدیث نمبر :3291)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نےامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے اس حدیث کے ضعیف ہونے کی  طرف اشارہ فرمایا ہے۔(جامع ترمذی :کتاب التفسیر)

لیکن علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔(مشکوۃ تحقیق البانی :1/273)

لیکن اس میں یہ صراحت نہیں ہے کہ جنوں کاجواب دینا  دوران نماز تھا بلکہ قرائن ایسے ملتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سور ت نماز کے علاوہ کسی اور وقت تلاوت کی تھی کیوں کہ صرف جنوں کی جماعت کرانا کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے۔

٭ ہمارے ہاں عام طور پر سورۃ غاشیہ کے اختتام پراللهم حاسبني حساباً يسيرا'' کے الفاظ بطور جواب امام اور مقتدی حضرات کی طرف سے با آواز بلند ادا کئے جاتے ہیں،حالانکہ کسی صحیح حدیث میں ایسا نہیں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الغاشیہ کے اختتام پر یہ کلمات کہے ہوں۔البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کا ایک بیان کتب حدیث میں بیان موجود ہے کہ آپ نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کسی نماز میں یہ کہتے ہوئے سنا:'' اللهم حاسبني حساباً يسيرا'' (مسند امام احمد:6/48)

لیکن اس دعا کا تعلق سورۃ غاشیہ کے اختتام سے نہیں ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات بطور جواب کہے ہوں بلکہ آپ ان کلمات کو بطور دعا پڑھتے تھے۔علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:'' کہ اس دعا کو  تشہد میں سلام سے پہلے پڑھا جاسکتا ہے۔'' انہوں نے اس دعا کو ان دعاؤں میں ذکر کیا ہےجو بوقت تشہد سلام سے پہلے پڑھی جاتی ہیں۔(صفۃ صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم :201 الدعا قبل السلام وانواعہ)

خلاصہ کلام حسب ذیل ہے:

٭(سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) کی تلاوت کے وقت صرف امام کو سبحان ربي الاعليٰ کہنے کی اجازت ہے۔کیونکہ یہ عمل متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے۔یعنی وہ جب اس کی تلاوت کرتے تو جواب کے طور پر سبحان ربي الاعليٰ  کہتے۔

٭باقی جوابات پر مشتمل روایات محدثین کرام کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں جن حضرات کے ہاں ضعیف روایت پر عمل کرنے کی گنجائش ہے وہ اگر انہیں عمل میں لانا چاہیں تو یہ قراءت کے وقت تو ہوسکتا ہے جبکہ وہ خودتلاوت کررہےہوں، مقتدی حضرات کےلئے جواب دینے کاجواز ان روایات سے ثابت نہیں ہوتا۔

٭(فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ) کاجواب خارج از نماز سننے کے لئے دیا جاسکتا ہے کیوں کہ دوران نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلاوت فرمانا اور جنوں کا جواب دینا اس کے لئے ثبوت کی ضرورت ہے جو تلاش بسیار کے باوجود ہمیں نہیں مل سکتا ہے۔سورہ غاشیہ کے اختتام پر '' اللهم حاسبني حساباً يسيرا'''' جیسے کلمات سے جواب دینا تو انتہائی محل نظر ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:107

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ