السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مظفر گڑھ سے محمد احمد لکھتے ہیں کہ گم شدہ بچوں اور دیگر چیزوں کے متعلق مسجد میں اعلان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جب کہ امتناعی حکم میں لفظ''ضالۃ'' آیا ہے۔جو گم شدہ حیوانات کے بارے میں ہے، لہذا اس کااطلاق بچوں وغیرہ پر نہیں ہوتا 'قرآن وحدیث کی روشنی میں فتویٰ درکار ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ گم شدہ چیز یا بچے یا جانور کامسجد میں اعلان کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔حدیث میں ہے اگر کوئی مسجد میں اپنی گم شدہ چیز کو تلاش کرتا ہے یا اس کا اعلان کرتا ہے تو اس کا جواب بایں الفاظ دیا جائے کہ:
''اللہ وہ چیز تجھے واپس نہ کرے کیوں کہ مساجد کی تعمیر اس کام کے لئے نہیں ہوئی ہے۔''(صحیح مسلم :المساجد 1260)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جو لوگوں سے اپنے گم شدہ سرخ اونٹ کے متعلق دریافت کررہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اللہ کرے تو اپنے اونٹ کو نہ پائے کیوں کہ مساجد جن مقاصد کے لئے تعمیر کی گئی ہیں انہی کے لئے ہیں۔''(صحیح مسلم :المساجد 1262)
ایک دوسری حدیث میں ان مقاصد کی وضاحت بھی کردی گئی ہے جن کے پیش نظر مساجد تعمیر کی جاتی ہیں۔
''یعنی مساجد تو اللہ کے ذکر نمازوں کی ادائیگی اور تلاوت قرآن پاک کے لئے بنائی جاتی ہیں۔''(صحیح مسلم :الطہارۃ 661)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر اس قسم کے اعلانات کے متعلق حکم امتناعی جاری کیا ہے۔ الفاظ یہ ہیں:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گمشدہ اشیاء (حیوانات وغیرہ) کو مساجد میں تلاش کرنے اور ان کے متعلق دریافت کرنے سے منع فرمایا۔''(ابن ماجہ :المساجد 766)
نیز ایسے شخص کے لئے اس کی گمشدہ چیز نہ ملنے کے متعلق بد دعا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔سوال میں لفظ ضالہ کے متعلق لکھا ہے کہ اس کااطلاق گم شدہ حیوان پر ہوتا ہے، اس سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کیوں کہ حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں کے لئے اس لفظ کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔چنانچہ کتب لغت میں ضالہ ہر گم شدہ چیز کوکہتے ہیں ،خواہ وہ محسوسات سے تعلق رکھتی ہو یا معقولات سے یا خاص طور پر حیوانات کے لئے بولا جاتا ہے۔(المعجم الوسیط :1/545)
حدیث میں ہے کہ دانائی کی بات مومن کے لئے ایک گم شدہ متا ع ہے جہاں سے ملتی ہے اسے وصول کرلیتا ہے۔اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ لفظ ''ضالۃ'' غیر حیوان کے لئے بھی مستعمل ہے جو گم شدہ ہو۔بلکہ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فعل انسانوں کی گمشدگی کے لئے مستعمل ہے ۔اللہ تعالیٰ نے کفار کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے:
''اور کہنے لگے کہ جب ہم(مرکر) زمین میں گم ہوجائیں گے تو کیا پھر ازسر نوپیدا ہوں گے۔''(32/السجدۃ 10)
''موت کے وقت اللہ کے فرشتے جب منکرین حق سے دریافت کریں گے کہ کہاں ہیں وہ جنھیں تم اللہ کے علاوہ پکارا کرتے تھے تو وہ جواب دیں گے کہ وہ ہم سے غائب ہیں۔''(7/الاعراف:37)
حدیث میں ہے کہ ''ایک شخص نے اپنے بچوں کو وصیت کی کہ مرنے کے بعد مجھے آگ میں جلا کر میری راکھ کو ہوا میں اڑا دینا یا پانی میں بہا دینا، وہ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے خود کہتا ہے کہ شاید میں(ایسا کرنے سے)اللہ کی نظر میں نہ آؤں اور اس سے اوجھل رہوں۔''(مسند احمد 3/5)
قرآن وحدیث کے مذکورہ استعمالات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ لفظ''ضالہ'' انسانی گمشدگی کےلئے بھی بولا جاتا ہے۔اگرچہ اس کا زیادہ استعمال ذہول یا راہ راست سے بھٹک جانے کے لئے ہے۔ اس بنا پر سوال میں جس لفظ کو بنیاد بنا کر گمشدہ بچوں کے متعلق مساجد میں اعلان کا جواز کشید کیاگیا ہے وہ سرے سے بے بنیاد ہے۔
بعض اہل علم نے یہ نکتہ اٹھایا ہےکہ بقائے نفس اور احترام آدمیت کے پیش نظر بچوں کے اعلان کو جائز ہونا چاہیے ،پھر ضروریات، ممنوع احکامات کو جائز قرار دے دیتی ہیں کہ تحت لانے کی کوشش کی گئی ہے۔یقیناً یہ ضابطہ اوراصول صحیح ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے جب اس کا کوئی متبادل انتظام نہ ہوسکتا ہو۔ صورت مسئولہ میں کوئی ایسی مجبوری نہیں جس کے پیش نظر ہم اس امتناعی حکم کو جائز قرار دیں کیوں کہ مسجد کے باہر اس کا معقول بندوبست ہوسکتا ہے۔ہاں اگر واقعی کوئی ایسی مجبوری ہو اور مسجد کے باہر اس کا انتظام کرنا ممکن ہو تو اس قسم کے اعلانات کے متعلق نرم گوشہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔
بعض حضرات مصالح مرسلہ کا سہارا لیتے ہوئے اس قسم کے اعلانات کےلئے جواز کی گنجائش پیدا کرتے ہیں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ دور حاضر کے جدید مسائل میں مصالح مرسلہ بڑی کار آمد چیز ہے۔ لیکن صریح نصوص کے مقابلے میں مصالح مرسلہ کا سہارا لینا ایک چور دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ جس کے ذریعے ہر قسم کے دنیوی تجارتی وغیر تجارتی اعلانات جائز قرار پائیں گے جیسا کہ آجکل ہم مساجد میں ایسے اعلانات کا مشاہدہ ہر روز کرتے ہیں جو مسجد کے تقدس اوراحترام کے بھی منافی ہوتے ہیں۔ہمارے نزدیک اس کا حل یہ ہے کہ اہل محلہ باہمی تعاون سے مسجد کے باہر اعلان کرنے کا بندوبست کریں جیسا کہ بعض دیہاتوں میں ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے۔ یہ کوئی ظاہر پرستی یا حرفیت پسندی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کا تقاضا ہے کہ انھیں جوں کا توں برقرار رکھا جائے۔ہاں اگر کوئی چیز مسجد یا بیرون مسجد سے ملتی ہے تو اس کے متعلق نمازیوں کواطلاع دینے میں ان شاء اللہ کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔اگرچہ بہتر یہی ہے کہ اس سے بھی اجتناب کیاجائے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ انہوں نے گم شدہ چیز پانے والے کو مسجد کے دروازے پر اعلان کرنے کاحکم دیا تھا۔(مغنی ابن قدامہ :5/696)
لہذا ہر قسم کی گمشدہ چیزوں اور بچوں کے اعلانات مساجد میں نہیں ہونے چاہئیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب