سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(639) مخفی عادت او رشادی کے وقت اس کے نقصانات

  • 11016
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1220

سوال

(639) مخفی عادت او رشادی کے وقت اس کے نقصانات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اس بری عادت میں مبتلا ہوں، جسے شیطان نے بہت سے نوجوانوں کے لیے مزین کر رکھاہے حالانکہ میں جانتاہوں کہ یہ عادت میرےجسم و عقل کے لیےبہت نقصان دہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس سلسلہ میں ہمارے دین کی کیا ہدایت ہے تاکہ اس کو روشنی میں میں اس سےباز آجاؤں یاد رے میں نماز پڑھتاہوں اورقرآن مجید کی تلاوت بھی کرتاہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بری عادت سےمراد شائد وہ ہے، جو لوگوںمیں مخفی عادت کے نام سے معروف ہے یعنی آلہ تناسل کے ساتھ  کھیل کر مادہ منویہ کو خارج کردینایا ایسے طریقے استعمال کرنا جو شہوت کے ہیجان اورمنی کے انزال کا سبب بنیں تو یہ عادت حرام ہے کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَالَّذينَ هُم لِفُر‌وجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥ إِلّا عَلىٰ أَزو‌ٰجِهِم أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُم فَإِنَّهُم غَيرُ‌ مَلومينَ ﴿٦ فَمَنِ ابتَغىٰ وَر‌اءَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ العادونَ ﴿٧﴾... سورة المؤمنون

’’اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے یا (کنیزوں سے) جو ان کا ملک ہوتی ہں کہ (ان سے مباشرت کرنے سے) انہیں ملامت نہیں اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں تو وہ (اللہ کی مقرر کی ہوئی) حدسے نکل جانے والے ہیں۔‘‘

اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے :

«يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَنْكِحْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَا فَلْيَصُمْ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ» (صحيح البخاري  ، النکاح ، باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم ، ح : 5066 وصحیح مسلم ، النکاح ، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسه الیه ۔۔۔الخ ، ح: 1400 واللفظ له )

’’اے گروہ جوانا ں ! تم میں سے جس کو استطاعت ہو تو وہ شادی کرلے کیونک یہ نظر کو خوب جھکانے والی اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والی ہے اور جسے استطاعت نہ ہو تو وہ روزہ رکھےروزہ  اس کی جنسی خواہش کو ختم کردے گا۔‘‘

اگر یہ عادت جائز ہوتی تو نبی اکرمﷺ اسےاختیار کرنے کی راہنمائی فرماتے کیونکہ یہ آسان ہے اور پھر اس میں کچھ لذت بھی ہے لیکن یہ چونکہ حرام تھی اس لیے آپ نے اسکا ذکر نہیں فرمایا ۔ اس کر حرمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ انسانی صحت و فکر کو نقصان پہنچا کر انسان کو ناکارہ بنادیتی ہے، نیز یہ اس جنسی مادہ کو بھی نقصان پہنچاتی ہے، جس کی انسان کو شادی کےبعد ضرورت ہوتی ہے۔ نوجوان بھائیوں کو میری یہ نصیحت ہےکہ وہ خود بھ صبر کریں اوردوسروں کو بھی صبر کرنے کی تلقین کریں اوراللہ تعالی سےاس کے فضل کو طلب کرتے رہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے اس کاحکم دیتے ہوئے فرمایاہے :

﴿وَليَستَعفِفِ الَّذينَ لا يَجِدونَ نِكاحًا حَتّىٰ يُغنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ... ﴿٣٣﴾... سورة النور

’’اورجن کو بیاہ کامقدور نہ ہو وہ پاکدامنی کو اختیار کیےرہیں یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سےغنی کردے۔‘‘

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص485

محدث فتویٰ

تبصرے