السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم حضرت محمد رسول اللہ کے لیےﷺ ،حضرت موسی عیسی یا کسی دوسرے پیغمبر کےلیے علیہ السلام، حضرت ابو بکر صدیق ، خلفائے راشدین یا صحابہ کرام میں سے کسی کےلیے رضی اللہ عنہم، حضرت علی بن ابی طالب کے لیے کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں اس طرح تشہد اول میں کہتے ہیں السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین ۔ سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا شخصیتوں کے ناموں کے ساتھ مذکورہ دعائیہ کلمات کے التزام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ کیاکسی نیک مسلمان کےلیے بھی رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں یا نہیں اورکیوں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبیﷺ کے لیے صلوۃ و سلام کے حکم آیا ہے ، اس لیے اس حکم کی اطاعت کے لیے ضروری ہے آپ کے اسم گرامی کے سا تھ ہم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں، دیگر تمام رسولوں کے لیے بھی ان الفا ظ کا استعما ل جا ئز ہے ’ دیگر رسولوں کے لیے اگر صرف سلام ہی بر اکتفا ء کرلیا جا ئے تو یہ بھی جا ئز ہے ’ ملا ئکہ اور انسانوں کے لیے بھی ﷺ کے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں کیونکہ نبیﷺ فرمایا تھا :
«اللهم صل علی آل ابی اوفی » صحیح البخاری ، الزکاة ،باب صلاة الامام ودعائة لصاحب الصدقة۔الخ ، ح: 1497 وصحیح مسلم ، الزکاة ، باب الدعاء لمن ابی بصدقة ، ح : 1078)
لیکن اسے عا دت نہ بنا یا جا ے ۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اللہ تعالی نے فرمایا ہے﴿ لَقَد رَضِىَ اللَّهُ عَنِ المُؤمِنينَ...﴿١٨﴾... سورةالفتح"لہذا ہم بھی اس طرح کہین کے جیسا کہ اللہ تعا لی نے یہ الفا ظ استعمال فرمائے ہیں ’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علا وہ دیگر نیک لوگوں مثلا ائمہ کرام وغیرہ کے لیے بھی ان کا استعمال جائز ہے یہ سب دعا ئیہ کلمات ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بطور خاص کرم اللہ وجھہ کے الفاظ کے استعمال کی کوئی دلیل نہیں ہے ، ان الفاظ کو صرف رافضہ استعمال کرتے تھےلیکن اسعبارت کو درسروں کے حق میں استعمال کرنا بھی جائز ہے، جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح رضی اللہ عنہ کے الفاظ استعمال کرنا ہی افضل ہے رضی اللہ عنہم۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب