السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک ایسے تاجر کے پاس کام کرتا ہوں' جو رشوت کے بغیر کام کرتا ہی نہیں ۔ میں اس کا حساب کتاب کرات ہوں 'اس کے کام کی نگرانی کرتا اور اس کی تنخواہ لیتا ہوں تو کیا ایسے تاجر کے پاس کام کرنے کی وجہ سے گناہ ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اولاً: اس بات کو اچھی طرح جان لیجئے کہ وہ رشوت حرام ہے'جسے انسان کسی باطل کام کےلیے دے مثلاً قاضی کو رشوت دے تاکہ وہ اس کے حق میں ناجائز فیصلہ کردے یا کسی سرکاری ملازم کو رشوت دے تاکہ وہ اس کے کسی کام کو معاف کردے ' جو حکومت کے نزدیک ناقابل معافی ہو تو ان جیسے امور کے لیے رشوت دینا حرام ہے۔
جس رشوت کے ذریعے سے انسان اپنے حق کو حاصل کرنا چاہے کہ اس کے بغیر اس کے لیے اپنے حق کو حاصل کرنا ممکن نہ ہوتو اس صورت میں لینے والے کے لیے رشوت بلاشبہ حرام ہوگی مگر دینے والے کے لیے نہیں کیونکہ دینے والا تو اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے دے رہا ہے'البتہ لینے والا ضرور گناہ گار ہے کیونکہ وہ ناحق مال لے رہاہے۔
بہرحال اس مناسبت سے میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس گھٹیا اور شرعاً حرام کام سے اجتناب کرنا چاہیے 'جسے عقل بھی پسند نہیں کرتی ۔ بعض لوگ۔۔۔اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت بخشے۔۔لوگوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے معاملات کو آسان بنانے کے سلسلہ میں اس وقت تک اپنے فرائض ادا ہی نہیں کرتے' جب تک انہیں مال نہ دیاجائے حالانکہ یہ انکے لیے حرام ہے۔اس میں حکومت کی بھی خیانت ہےاور جو ان کے سپرد امانت ہے اس کی بھی 'نیز باطل طریقے سے مال کھانا اور اپنے بھائیوں پر ظلم کرنا بھی ہے'لہذا انہیں چاہیے کہ اللہ عزوجل سے ڈریں اور جس بار امانت کو انہوں نے اٹھایا ہوا ہے اس کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔
اس اصول کی بنیاد پر رشوت کامعاملہ کرنے والے اس تاجر شخص کے پاس کام کروانا حرام ہے کیونکہ حرام کام کرنے والے کے پاس کام کرنے میں اس کی اعانت ہے اور حرام کام میں اعانت کرنا حرام اوعر گناہ کےکام میں شرکت ہے لہذا آپ بغور جائزہ لیں کہ اگر یہ شخص اپنے حق کو حاصل کرنے کے لیے رشوت دیتا ہے تو پھر اس کے پاس کام کرنے میں آپ کو کوئی گناہ نہیں ہوگا بصورت دیگر گناہ اور اس کےپاس کام کرنا حرام ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب