سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(203) کمیو نزم کی طرف انتسا ب کا حکم

  • 8497
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2684

سوال

(203) کمیو نزم کی طرف انتسا ب کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کمیو نزم  کی طرف  انتسا ب


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فقہی کو نسل نے جن اہم  امو ر کا مطا لعہ کیا ان میں سے کمیو نزم  اور سوشلزم  کا مو ضو ع بھی ہے اور فکری  یو رش  کی وجہ سے وہ مشکلات بھی جن سے اس کا وقت   عا لم اسلام  دوچا ر ہے  حکمومتوں  کی سطح پر بھی  اور  افراد کی سطح پر بھی  اور پھر اس   خطر نا ک   فکری یو رش  کے خطرا ت  سے نا وا قفیت کی وجہ  سے حکو متوں  اور قو موں  کو جن  مشکلا ت  کا سا منا  ہے  کو نسل  نے انہیں  بھی پیش نظر  رکھا ہے ۔ فقہی کو نسل کی یہ رائے ہے  کہ اس وقت  عا لم اسلا م  کے اکثر  ممالک  افکار  و عقا ئد  کے خلا کا شکا ر ہیں اور  دوسر ی  طر ف  ان در آمد  شدہ افکا ر  و عقا  ئد   کو اس طرح  تیا ر  کیا گیا  ہے  کہ یہ  اسلا می   معا شروں  میں  پھیل  سکیں  مسلمانو ں  کے عقا ئد  میں خلل  پیدا  کر سکیں   اخلاق و کر دار میں  گر اوٹ پیدا  کر سکیں  انسا نی  اقدار  کو ملیا میٹ  کر سکیں  اور معا شرے  میں  خیر  و بھلا ئی  کی تما م   بنیا دوں  کو بیخ وبن سے اکھا ڑ پھینکیں ، اب یہ با ت با لکل  روز  روشن کی طرح واضح ہے  کہ دنیا  کے تما م بڑ ے مما لک  اپنے  نظا م اور  افکا ر  کے اختلا ف  کے باوجود   اس کی نکتہ  پر  سب متفق ہیں  کہ ہر اس ملک کا نظا م  درہم بر ہم  کر دیاجا ئے جس کی اسلا م  کی طرف نسبت ہے  اسلا م دشمنی   اس کی اشا عت  کے خو ف  اور مسلما نوں  کی بیدا ر ی  کے ڈرنے  ان سب کو اختلا ف  کے باو جو د  ایک  نکتہ  پر  متفق  و متحد  کر دیا  ہے اور وہ  یہ  کہ مسلما نو ں  کے عقائد  و اخلا ق  کو خرا ب  کر دیا  جا ئے ۔ : عقا ئد کے درمیا ن  میں یہ ممالک  ہر اس شخص کی  حو صلہ افزا ئی  کر تے ہیں  جو کمیو نزم  کو اختیا ر  کر لے  اور پھر کمیو نزم  کی تبلیغ  و اشا عت  کے لئے ان کے ریڈیو  ٹیلی  وژن  اخبا را ت   خو شمنا  پر و پیگنڈ ے  اور  اجر تی   مصنفین شب و روز  مصروف  ہیں   اور پھر بڑے خو شنما  لیبل لگا کر یہ اس  الحاد  کی اشا عت  میں مصروف  ہیں  کبھی اسے آزادی کا نا م دیتے ہیں  اور  کبھی  تر قی  کا  کبھی  اسے جمہوریت  کہتے ہیں  اور کبھی  کچھ  اور اس  کے خلا ف  تما م  اصلا حات  اخلاق  و کر دار کی حفا ظت  کی کو شش اور بلند  پا یہ  اسلا می   تعلیما ت  اور آدا ب  و اخلا ق  کو یہ  رجعیت  پسماندگی  اور دقیا نو سیت  وغیرہ  کے نا م  سے یا د  کر تے ہیں  اسی طرح  اخلاق  کے میدا ن میں یہ ابا حیت اور مر دو زن کے بے  محا با  اختلا ط  کے دا عی  ہیں  اور اسے  بھی یہ تر قی اور آزادی  کے نا م سے  مو سو م کر تے ہیں کیونکہ  انہیں  اس با ت کا  اچھی طرح علم ہے  کہ انہیں فکری ما دی اور سیا سی   طور پر  صرف  اسی صورت میں   غلبہ حاصل ہو سکتا ہے   کہ یہ دین اور اخلا ق کا جنا زہ   نکا ل دیں جب یہ دین   اور اخلا ق کا جنا زہ نکا ل دیں گے   تو پھر ان کے لئے   خیرو بھلا ئی کے  تمام سر چشموں    کو بند کر دینا آسا نی سے  ممکن ہو گا   اور پھر یہ جس طرح چا ہیں  تصرف کر سکیں  گے یعنی  اس  فکری عقا ئدی  اور سیا سی  کشمکش  میں یہ اپنے  دوستوں کی ما ل اسلحہ  اور پر و پیگنڈہ کے ذریعہ   خو ب مدد کر تے ہیں    تا کہ  انہیں  معا شر ے   میں نہ صرف  اثر  در سوخ  حا صل  ہو بلکہ  وہ اقتدا ر  پر بھی  قبضہ کر لیں   اور اقتدار پر قبضہ کر نے کے بعد   یہ لو گ جو قتل و غا رت  کا با زا ر  گر م  کر تے ہیں    مخا لفین  کو جلا وطن   کر تے  ۔ آزادیو ں  کو سلب  کر تے  اور  ہر اس شخص  کو جس  میں    دین  اور اخلا ق   کی  ادنی  سی  بھی   رمق  ہو  اسے  جس  طرح   جیل کی  کا ل  کو  ٹھٹریوں  میں پھینک  دیتے  ہیں  اس کے با ر ے  میں  مت پو چھئے  جن اسلا می   مما لک نے  اپنی  دینی  و  اخلاقی   قدروں  سے  اپنے تحفظ  کا اہتمام  نہ کیا  کمیو  نزم  کیاس  یلغا ر نے  انہیں  آسا نی  سے  اپنے جا ل   میں  پھنسا  لیا   اپنے   علمی   و دینی  اختصاص کی وجہ   سے فقہی  کو نسل  کا چا نکہ  یہ فر ض  ہے  وہ  اس فکری  عقا ئد ی  اور سیاسی  یو رش  کے خطرا ت  سے مسلما نوں  کو آگا ہ  کر ے  ۔  جو ابلا غ اور فوج کے اسباب  و وسا ئل  کے ذریعہ  پھیلائے   جا رہے   ہیں  اس لئے  اسلامی فقہی کو نسل  کے مکہ  مکر مہ  میں  منعقد  ہو نے وا لے اجلا س  میں یہ فیصلہ  کیا گیا  کہ : کو نسل  عا لم اسلا م  کے تما م   مما لک  اور اقوام  کی اس  جانب  تو جہ  مبذول کر وائے  کہ کمیو نزم  اسلا م  کے منا فی ہے ۔  کمیو نزم  کو اختیا ر کر نا  اس دین  کا  انکا ر  کر نا ہے جس  کو اللہ تعالیٰ  نے اپنے بندوں  کے لئے  پسند  فر مایا  ہے  یہ انسا نی  و اخلا قی قدروں کو ملیا میٹ کر نا  ہے انسانی  معا شروں کو کھو کھلا  کر نا ہے اور اس کے بر عکس اسلا می محمدی  شریعت   ہی   آ خر ی  آسما نی  دین ہے  جسے  اللہ  حکیم   و حمید    نے لو گو ں  کو  اندھروں  سے  نکا ل  کر نو  ر  کی طرف   لا نے   کے لئے  نا ز ل فر ما یا  ہے ۔  یہ دین سیا سی  معا شرتی  ثقا فتی  اور معا شی   اور  ہر اعتبا ر سے ایک  مکمل  نظام  حیا ت  ہے  ان تما م  خرا بیوں  سے نجا ت  کے لئے  جنہوں نے  مسلما نو ں کے شرا زہ کو  منتشر کر دیا  ہے  ان کی  وحدت کو  پا ر ہ پا رہ  کر رکھا ہے   اور ان کے اتفا ق   و اتحا د کو  انتشا ر  و خلفشار  سے  بد ل دیا ہے   یہ دین  ہی مفید  و مئوثر  اور  کا ر آمد   ثا بت  ہو  سکتا  ہے  ۔

خصو صا  وہ معا شر ے  جنہوں  نے اسلا م کو پہنچا نا   لیکن پھر اسے  پس  پشت  ڈا ل   دیا  ۔  ان میں تما م   تر خرا بی  کی جڑ  یہی  کمیو نزم ہے کمیو نز م   اور سوشلز م   کی اس سخت   معا ندا نہ  اور خطر نا ک  یلغا ر  کا سب سے بڑا ہدف  اسلا م   اس کے   مبا دی و تعلیما ت   اس کے  اخلا ق   و آدا ب  اور اس  کے دا من سے وا بستہ  مما لک تھے  اس لئے  کو نسل  اسلا می  ملکو ں   اور معا شروں کو نصیحت کر تی ہے    کہ وہ مختلف اسبا ب   و وسا ئل  کو برو ے کا ر لا کر اس  زبر دست  خطر ے کا مقا بلہ کر یں   جس کی  چند  حسب ذیل  صو ر تیں  بھی ممکن ہیں ۔

 (1)۔ انتہا ئی  سر عت  کے سا تھ اس  نصا ب  تعلیم اور طرز تعلیم  پر نظر ثانی  کی جا ئے جسے حا ل ہی میں اسلا می  ملکو ں میں را ئج کیا گیا ہے ۔  کیو نکہ یہ با ت پا یہ ثبو ت کو پہنچ  ہو چکی ہے  کہ نصا ب تعلیم  میں الحا دی  سو شلسٹ اور زہر آلودہ افکا ر  شا مل کئے جا چکے ہیں  جو اسلا می ملکو ں کے لئے  ایک طرح سے اعلا ن جنگ ہیں   اور یہ نصا ب کمیو نزم کے ما  ہر  اسا تذہ  و مصنفین  سے  تیا ر کر و ا یا گیا  ہے ۔

(2)۔اسلا می ملکوں کو چا ہیے  کہ وہ حد درجہ  کو شش  کر کے  اولین  فرصت  میں اپنے  اداروں  کے نظا م کا جا ئزہ لیں  خصوصا  ذرا یع ابلا غ  معاشیا ت  دا خلی  و خا ر جی  تجا رت  اور مقا می  اداروں  کے نظا م  کا از سر نو جا ئزہ  لیں  تا کہ ان  کی تہذیب  و  تطہیر کی جا سکے  اور انہیں اسلا م کی  صحیح بنیا دوں پر  ازسر نو  استوا ر  کیا جا سکے  کیو نکہ  یہ اسلامی  بنیا د یں  ہی مسلما ن ملکوں   اور قو مو ں کو تحفظ   فرا ہم  کر کے انہیں  حسد  و بغض کا شکا ر  ہو نے سے محفوظ  رکھ  سکتی ہیں   اور مسلما نوں میں  از سر نو  اخو ت با ہمی تعا ون  اور اخلا ص   کی روح  پھو نک  سکتی ہیں ۔

(3)۔ اسلا می ملکوں  اور قو مو ں  سے اپیل  کی جا تی ہے  کہ وہ تخصص کے ایسے  مدارس و مکا تب  قا ئم  کر یں   جن سے ایسے  مخلص  اور پر جو ش  دا عی  تیا ر  ہو ں   جو اس یلغا ر   کی تما م  صورتوں  کا مقا بلہ  کر نے  کی استعد اد رکھتے ہو ں  اور جو شخص  اجنبی یو رش کی حقیقت  اور اس  کے خطر نا ک  اغرا ض و مقا صد کو معلو م کر نا چا ہیے  یہ دا عی اپنے  گہرے   مطا لعہ اور ٹھوس  معلوما ت  کی بدولت اسے مطمئن کر سکیں   اور دوسر ی طرف انہیں اسلا م  اور اس کے قیمتی خزا نوں کے با رے  میں بھی بھر پو ر معلو ما ت  حاصل ہوں  ایسے مدارس  اور اس طرح کے دعا ۃ و مبلغین   جس ملک میں جس قدر زیا دہ ہو ں  گے  اسی قدر یہ امید  بھی زیا دہ ہو گی  کہ وہ ان مغربی  اور  ملحدا نہ  افکا ر و نظر یا ت کا آسانی سے خا تمہ کر سکیں گے اور  امید ہے  کہ اس طرح  علم و عمل  کے ہتھیا ر وں سے مسلح  واقعی    طور   پر  منظم ایک ایسی جما عت  ان تما م  تحریکوں  کے مقا بلہ  کے لئے   اٹھ کھڑی ہو گی  جو مسلما نوں کے دلوں میں اخلا ق و کر دار کی اس با قی  ماندہ دولت کو بچا نے کی کو شش  کر ے گی  جس کا یہ ملحدا نہ  تحر یکیں  خا تمہ  کر دینا  چاہتی  ہیں ۔  کو نسل تما م علما ء اسلام سے خوا ہ ان کا تعلق کسی بھی جگہ یا تنظیم  سے ہو  یہ اپیل کر تی ہے کہ وہ ان خطر نا ک  اور ملحدانہ  افکا ر  و نظریات  کے مقا بلہ  کے لئے  اٹھ  کھڑے ہو ں  جو مسلما نوں  کے دین  و شریعت  اور عقا ئد  و اخلا ق  کو بھی  نقصا ن پہنچا نا چا ہتے ہیں  اور ان کے ملکوں کو بھی  لہذا  علما ء کرا م پر بھی فرض ہے  کہ وہ لو گوں کے سا منے   اشتراکیت  اور  کمیو نزم  کی حقیقت  کو واضح  کر یں  اور بتا ئیں کہ  کہ یہ دونوں اسلا م کے خلاف جنگ ہیں ۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1 ص38

تبصرے