السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم مطلق تھایامطلق علم ؟نیزآپ کاعلم حضوری تھایاحصولی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال اول میں گزرچکاہے ۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس طرح سے علم نہیں ۔کہ خدانے آپ کی طبیعت ہرشئے کے لیے شیشہ بنادی۔ اورجیسے خدا پرشئے روشن ہے اسی طرح آپ پربھی روشن ہو۔ بلکہ آپ کاعلم بذریعہ وحی ہے ۔جب وحی ہوتی ہے توآپ کوعلم ہوتاہے اگروحی نہ ہوتوعلم نہیں ہوتا۔مثلاً قیامت کاآپ کوعلم نہیں کہ کب ہوگی ۔اس طرح اورکئی باتوں کاعلم نہیں ۔چنانچہ نمبراول میں بیان ہوچکاہے۔ پس آپ کومطلع علم ہے ۔یعنی اشیاء کاعلم ہے نہ علم مطلق یعنی علم کلی ۔
اگرمنطق طریق سے سمجھنا چاہیں تویوں سمجھئےکہ کلی کے تین مرتبے ہیں ۔1۔بشرط شئی 2۔بشرط لاشئی 3۔لابشرط شئی ۔پہلامرتبہ خصوص کاہے ۔ دوسرا عموم کاتیسراجامع بین الخصوص والعموم ہے ۔پہلے کی مثال حیوان بشرط ناطق دوسرے کی مثال حیوان بشرط لاناطق تیسرے کی مثال مطلق حیوان۔ جس کے ساتھ ان دونوں شرطوں سے کوئی نہیں ۔اس تیسرے پرخصوص کے احکام بھی جاری ہوتے ہیں اورعموم کے بھی مثلاً زیدمرجائے توکہہ سکتے ہیں کہ حیوان مرگیا۔اگرحیوان کےتمام افراد انسان وغیرہ مرجائیں توبھی کہہ سکتے ہیں کہ حیوان مرگیا۔یہی وجہ ہے کہ یہ مرتبہ موہم اجتماع نقیضین کوہے ۔مثلاکہہ سکتے ہیں کہ حیوان زندہ بھی ہے اورنہیں بھی زندہ۔ اس لیے کہ زید زندہ ہے اورنہیں اس لیے کہ عمرومرگیاہے۔ کیونکہ جب خصوص عموم دونوں کے احکام اس میں جاری ہوتے ہیں ۔توایک فردکاایک حکم اوردوسرے کادوسراحکم دونوں اس پر جاری ہوں گے ۔ اوریہی وجہ ہے کہ جہاں محض عموم کامحل ہوتاہے بہت علماء وہاں اس کا اعتبارنہیں کرتے۔ بلکہ شرط لاشئی کولیتے ہیں ۔مثلاً جب کسی شئے کی تعریف یا تقسیم کرنی ہو تو معرف کا یا مقسم کوکس مرتبہ میں اعتبارکریں گے ؟ میرزاہدوغیرہ کہتے ہیں کہ بشرط لا(دوسری مرتبہ) معتبر ہوگا۔ اور قاضی مبارک وغیرہ کہتے ہیں بشرط لاتجردکامرتبہ ہے جوقضیہ طبیعہ کا موضوع ہے اورقضیہ طبیعہ میں حکم افرادکی طرف منتقل نہیں ہوتا۔ اس لیے تقسیم وغیرہ کے موقع پربشرط لامعتبرنہیں ۔بلکہ یہی تیسرامرتبہ لابشرط شئی معتبرہوگااورموضوع علم جس کے عوارض ذاتیہ سے علم میں بحث ہوتی ہے اس میں بھی یہی نزاع ہے ۔بلکہ عموم کے محل میں یہی جھگڑاہے ۔میری تحقیق اس میں کچھ اورہے ۔تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں خلاصہ اس کایہ ہے کہ فریقین کی نزاع لفظی ہے جیسے کلی کے حصے فرد،شخص میں فرق کرتے ہیں کہ فردمیں قیدتقییددونوں داخل ہوتی ہیں۔جیسے مطلق مقیداورحصہ میں صرف تقییدداخل ہوتی ہے ۔جیسے ضرب زیداورشخص میں دونوں خارج ہوتی ہیں۔جیسے زیداس طرح بشرط لاہیں اگرقیدعنوان میں داخل ہواورمعنوں سے خارج ہوتواس صورت میں عموم کے موقع پربشرط لامعتبرہوناچاہیے ۔کیونکہ عموم کے مقعہ پرخصوصی احکام سے کوئی تعلق نہیں کہ لابشرط شئے کی ضرورت ہو۔بلکہ صرف عمومی احکام کے افرادکی طرف منتقل ہونے کی ضرورت ہے۔ سویہ اس صورت میں حاصل ہے اگرلابشرط شئے کااعتبارکریں تواس میں دلالت تضمنی کاشبہ ہوتاہے ۔کیونکہ لابشرط شئی خصوصی احکام کابھی محتمل ہےجوعموم کے موقعہ پرمعتبرنہیں اوراگربشرط لامیں قیدعنوان معنوں دونوں میں داخل ہوتویہ تجردکامرتبہ ہے تواس صورت میں عموم کے موقعہ پر لابشرط شئی معتبرہوناچاہیے ۔کیونکہ اس وقت بشرط لاکے احکام افرادکی طرف منتقل نہیں ہوں گے ۔جیسے
’’ الحیوان جنس والانسان نوع،،
وغیرہ ۔خیرفریقین کی نزاع کاذکرتویہاں بالتبع تھا۔ہمارااصلی مقصدکلی کے تین مراتب کی توضیح ہے سو اس تفصیل سے کافی ہوچکی ہے ۔اب علم کولیجئے۔یہ بھی ایک کلی ہے ۔اس کے لیے بھی یہی تین مرتبے ہیں ۔بشرط شئی توایک معین شئے کاعلم ہے ۔جیسے قیامت کا علم یاکسی کی موت کاعلم وغیرہ اورلابشرط شئی نفس علم جس میں احتمال ہے کہ بعض کاعلم ہویاکلی کا ہوگویا قضیہ مہملہ کاموضوع ہے جوجزئیہ کی قوت میں ہے ۔کیونکہ بعض ہرصورت میں ضروری ہیں ۔اگربعض ہوئے توظاہرہے اگرکل ہوئے تواس کے ضمن میں بعض آگئے یہی مطلق الشئی ہے اوربشرط لاشئی کل اشیاء کاعلم ہے ۔جوقضیہ کلیہ کاموضوع ہے اوپرکی تفصیل سے معلوم ہوچکاہے کہ :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبعض اشیاء کاعلم ہے نہ کل کا۔پس آپ کاعلم مطلق العلم تھا نہ العلم المطلق ہاں یہاں یہ شبہ ہوتاہے کہ ہماراعلم بھی مطلق العلم ہے ۔ توپھرآپ میں اورہم میں کیافرق ہوا؟اس کاجواب یہ ہے ۔چونکہ مطلق العلم میں چونکہ علم بالوحی بھی داخل ہے ۔اس لیے آپ اور ہم میں فرق ہوگیا۔چنانچہ ارشادہے ۔
﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ﴾--سورة الكهف110
ترجمہ :۔’’آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں۔ (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے۔‘‘
اس آیت سے حضوری اورحصولی کاسوال بھی حل ہوگیا۔کیونکہ جب آپ ہماری طرح بشرہیں اورہماراعلم اپنے نفس اوراس کےصفات سے حضوری ہے اور دیگراشیاء سے حصولی ہے توآپ کابھی اسی طرح ہوگا۔صرف اتنی سی بات ہے کہ باطن کی زیادہ صفائی ہونے کی وجہ سے آپ کوبذریعہ وحی بھی علم ہوتاتھا۔ہمیں نہیں ہوتا۔مگرزیادہ صفائی انسان کوبشریت سے خارج نہیں کرتی ۔چنانچہ آیت مذکورہ اس کی شاہدعدل ہے ۔اورعقلاً بھی یہی بات صحیح ہے ۔کیونکہ زیادہ صفائی کے صرف یہ معنی ہیں کہ قوائے نفسانیہ پرقوت عقلیہ کاپوراتسلط ہو۔اگرکسی وقت خواہش نفسانیہ سراٹھائے تواس کو دباسکے۔ پھراس کے مختلف مراتب ہیں اورانبیاء علیہ السلام اس کے اعلی ٰ مرتبہ پرہوتے ہیں ۔پھرانبیاء علیہم السلام میں بھی تفاوت ہے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سب سے فوق ہیں ۔ہاں اگرزیادتی صفائی کایہ معنی ہوتاکہ خواہشات نفسانیہ کا وجودہی نہ ہونہ دیگرلوازم بشریہ ہوں جیسے فرشتوں کا حال ہے توپھربشریت کی نفی ممکن تھی۔مگریہ آیت مذکورہ کےخلاف ہے اورواقعات کےبھی خلاف ہے مثلاً آپ میں بھول چوک تھی۔ آب کھاتے پیتے بھی تھے ۔آپ نے شادیاں بھی کیں ،آدم کی اولادتھے ۔آپ کےماں باپ بھی تھے اوربدستوربشریت پیداہوئے۔اولادبھی جنی جونسلاً بعدنسل بدستوربشریت پڑھی ۔جواس وقت ہمارے سامنے پوری بشریت کے موجودہے ۔اورہمارے ان کے آپس میں پوری بشریت کے تعلقات ہیں ۔بایں ہمہ اگرکوئی بھی کہتاجائے کہ وہ بشرنہیں تواس کی مثال اس کوئے کی ہے کہ جوکہتاجائے کہ میں کالانہیں ۔سچ ہے
پھرےزمانہ پھرے آسماں ،ہواپھرجائے بتوں سےہم نہ پھریں ہم سے گوخداپھرجائے
نوٹ :۔علم حضوری اسے کہتے ہیں کہ جس شئے کاعلم ہووہ خودقوت مدرکہ کےسامنے ہواورحصولی اسے کہتے ہیں کہ جس کاعلم ہے وہ خودسامنے نہیں ۔ بلکہ اس کی صورت یا اس کاعکس قوت مدرکہ میں حاصل ہوجیسے شیشہ میں زیدکاعکس ہوتاہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب