سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(01) نماز جمعہ گاؤں میں ہوسکتی ہے یا نہیں؟

  • 4434
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 12568

سوال

(01) نماز جمعہ گاؤں میں ہوسکتی ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مندرجہ ذیل مسائل میں

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ نماز جمعہ گاؤں میں ہوسکتی ہے یا نہیں؟ ہمارے ہاں بعض لوگ گاؤں میں ناجائز کہتے ہیں۔ اگر یہ غلط ہے تو کیوں؟ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ جمعہ شہر اور دیہات میں جہاں ادا کرنا ممکن ہو فرض ہے۔ قرآن عزیز میں ارشاد ہے:

{ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ } [جمعہ:۹]

’’ عام اہل ایمان کو مخاطب فرمایا گیا ہے کہ جمعہ کے دن جب اذان ہو تو کاروبار (تجارت و زراعت) چھوڑ کر نماز کے لیے توجہ اور پوری کوشش سے آؤ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر ہو تم جانتے۔‘‘

اس اذان سے مراد وہی اذان ہے جو جمعہ کے دن بوقتِ خطبہ دی جاتی ہے۔

حافظ ابن العربی فرماتے ہیں:

قَالَ بَعْضُ الْعُلْلَمائِ کُوْنُ صَلٰوۃِ الْجُمْعَۃِ ھٰھُنَا مَعْلُوْمٌ بِالْاِجْمَاعِ لَامِنْ نَفْسِ اللَّفَظِ وَعِنْدِیْ اَنَّہٗ مَعْلُوْمٌ مِنْ نَفْسِ اللَّفْظِ بِنُکْتَۃٍ وَھِیَ قُوْلُہٗ مِنْ یَوْمِ الْجُمْعۃِ وَذالِکَ یُفِیْدُہٗ لِاَنَّ النِّدَآئَ الَّذِیْ یُخْتَصُّ بِذالِکَ الیوم ھوندائُ تَلْکَ الصلوٰۃ فَاَمَّا غَیْرُھَا فَھُوَ عَامٌ فِی سَائِرِ الْاَیَّامِ وَلَوْ لَمْ یَکُنِ المرادبہ نِدَائُ الْجُمْعۃ لِمَا کَانَ لِتخصیصہ بِھا وَاِضَافَتِہٖ اِلیھْاَ معنیً وَلَا فَائِدَۃً اَحْکَامُ الْقُرْآن لِابْنِ العَرَبِیْ ۔ (ص ۲۵۶،جلد۲)

بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں سے نماز جمعہ مراد لینا الفاظ کا مفاد نہیں بلکہ اجماع سے ثابت ہے۔ ابن عربی فرماتے ہیں کہ الفاظ آیت کا مفاد یہی ہے کیوں کہ اذان کے ساتھ یوم الجمعہ کی تخصیص کا مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد وہ اذان ہے جس کا تعلق نماز جمعہ سے ہے باقی اذانیں سب دنوں میں عموماً ہوتی رہتی ہیں۔ اگر نماز جمعہ مراد نہ ہوتی تو اس تخصیص اور تعین کا کوئی فائدہ نہیں، اسی طرح بیع کا تذکرہ بھی ایک ضروری اور اہم شغل کے طور پر کیا گیا۔ اگر جمعہ کی اذان کے وقت کھیتی باڑی یا کوئی دوسرا کام کر رہا ہو اسے بھی ترک کرنا ضروری ہے۔ ابن العربی نے بعض ائمہ کے اختلاف کا ذکر فرمایا ہے کہ نکاح، ہبہ، صدقہ وغیرہ امور اذان جمعہ کے وقت فسخ نہیں ہوتے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:

وَالصَّحِیْحُ فَسْخُ الْجَمِیْع لاَنَّ البَیعْ اِنَّمَا مَنَعَ لِلْاشْتغالِ فَکل اَمْرٍ یَشتغِلُ مِنَ الجُمْعۃِ مِنَ العُقُوْدِ کُلِّھَا فَھُوَ حَرَامٌ شَرْعًا اھا احکام القرآن۔

(صفحہ ۲۵۷، جلد۲)

صحیح یہ ہے کہ جس قدر امور عقود وغیرہ جمعہ سے مشغول اور غافل کریں وہ شرعاً حرام ہیں۔

قَالَ عَطَائٌ تحرمُ الصَّنَاعَاتُ کُلُّھَا۔ (صفحہ ۱۷۵)

صحیح بخاری مع قسطلانی جلد ۲ قسطلانی فرماتے ہیں:

یَحْرمُ الْبَیْعُ وَنَحْوہٗ مِنَ العُقُوْدِ مِمَّا فِیْہٖ تَشَاغُلٌ عَنِ السَّعْیِ

(صفحہ ۱۷۴،۲)

غرض جہاں بھی جمعہ فرض ہوگا بیع و شراء عقود زراعت وغیرہ جملہ مشاغل ممنوع ہوں گے، بیع سے خرید و فروخت بلحاظ شغل مقصود ہے شہر یا دیہات اور قصبات میں جو مشاغل اداء جمعہ سے مانع ہوں وہ امر فَاسْعَوْا کے منافی ہیں دَزَرُوا الْبَیْعَ سے ان کا ترک مقصود ہے مناظرات کے دور کی یہ نکتہ نوازی ہے کہ بیع سے مراد صرف خرید و فروخت بلکہ دیہات کے رہنے والوں کو مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔ اس لیے کہ دیہات میں خرید و فروخت نہیں ہوتی۔ آنحضرت نے جمعہ کے متعلق احادیث میں تاکید فرمائی ہے اس میں بھی شہر اور دیہات میں امتیاز نہیں فرمایا:

عَنْ اَبِیْ ھُریرۃ وابنِ عُمَر قَالَا سَمِعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ علی اعواد مِنْبَرِہٖ لَیَنْتَھِیْنَّ اَقْوامٌ عَنْ وَدْعِھِمُ الجُمُعَاتِ اَوْ لَیَخْتِمنَّ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ ثُمَّ لَیَکُوْنَنَّ مِنَ الْغَافِلِیْن۔ (مسلم)

آنحضرت نے منبر پر فرمایا لوگ جمعہ کا ترک چھوڑ دیں ورنہ ان کے دلوں پر مہر کی جائے گی اور انہیں غافلوں میں شمار کیا جائے گا۔

عَن ابی جعفر الضمری قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ تَرَکَ تَلاثَ جُمَعٍ تَھَاوُنًا بِھَا طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قَلْبِہٖ۔

(ابوداؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، منتقیٰ ص۷۳،۲)

جو آدمی متواتر تین جمعے سستی سے چھوڑ دے اس کے دل پر مہر کردی جاتی ہے۔

عَنْ عَبْد اللّٰہ بن عمرو عن النبی ﷺ الجمعۃ علی من سمع النداء

’’جو جمعہ کی اذان سنے اس پر جمعہ فرض ہے۔‘‘ (ابوداؤد)

عن طارق بن شھاب قَالَ قَالَ رَسُوْلِ اللّٰہ ﷺ الجمعۃ حَق وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلمٍ فِی جَمَاعۃٍ الاَّ علی اربعۃٍ عبدٍ مملوکٍ اوامرَٔۃٍ اوصبیٍ اَوْ مریضٍ ۔ (ابوداؤد، منتقیٰ، ص۸۱،۲)

جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے غلام عورت بچے اور بیمار پر فرض نہیں۔ اعذار کے لحاظ سے بعض لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا ہے لیکن ظرف و مکان کے لحاظ سے کوئی استثناء نہیں فرمایا۔ حالانکہ اس قسم کے استثناء کے لیے یہ مناسب موقعہ تھا۔

عَنْ جَابر اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہ والیوم الْاٰخِر فَعَلَیہ الجمعۃُ یَوْم الجمعۃ اِلاَّ مَرِیضٌ اَوْ مُسَافِرٌ اَوْ امرٔۃ او صبی او مَمْلُوکٌ فَمَنِ اسْتَغْنٰی بِلَھْوٍ اَوْ تِجَارَۃٍ اسْتَغْنَی اللّٰہُ عَنْہُ واللّٰہُ غنیٌ حَمِیْدٌ۔ (دارقطنی)

’’ جس کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان ہے جمعہ کے دن اس پر جمعہ فرض ہے، بیمار، مسافر، عورت، بچے اور غلام اس سے مستثنیٰ ہیں، جو آدمی غفلت یا کاروبار کی وجہ سے استغنا کرے، اللہ تعالیٰ اس سے مستغنی ہے۔‘‘ 

حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے جمعہ سے پچھڑنے والوں کے گھروں کو جلا ڈالنے کا قصد فرمایا۔  (مسلم منتقیٰ، ص ۶، ج۲)

ابن عباس رضی اللہ عنہ  آنحضرتﷺ سے روایت فرماتے ہیں جو بلا عذر جمعہ ترک کرے اس کا نام منافقوں کی کتاب میں درج کیا جاتا ہے پھر اسے مٹایا نہیں جاتا۔  (شافعی)

ایک مناظرہ ذہن کے لیے بحث کی گنجائش ہے کہ ان احادیث میں دیہات کا تذکرہ صراحتہً نہیں، لیکن احادیث کے مقاصد پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت جمعہ کی نماز اور اس میں وعظ و تذکیر کو زیادہ سے زیادہ عام فرمانا چاہتے ہیں اور اس سے اغماض کرنے والوں سے نفرت فرماتے ہیں۔

عَنْ ابی ھریرۃ عن النبی ﷺ قَالَ ھَل عَسٰی ان یتخذا اَحَدُکُمْ الضبۃ من الغنم علی راس میل او میلین فیتعذر علیہ الکلاء فیرتفع وتجئی الجمعۃ فَلَا یشھدھا وتجئی الجمعۃ فلا یشھدھا وجئی الجمعۃ فلا یشھدھا حتی یطبع علی قلبہ۔

’’ ابن ماجہ تم سے کوئی میل دور اپنی بکریوں کا ریوڑ لے جائے پھر گھاس نہ ملنے کی وجہ سے وہ اوپر چلا جائے اور تین جمعے غیر حاضر رہے ایسا نہیں ہونا چاہیے، ایسے آدمی کے دل پر مہر کردی جائے گی۔‘‘

ان حادیث میں صحیح، ضعیف روایات موجود ہیں مفہوم کے لحاظ سے ایک دوسرے کی موہدہیں ان میں ہر آدمی کے لیے جسے جمعہ ادا کرنا ممکن ہو حاضر ہونا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہی ان حادیث کی روح ہے۔

دیہات اور فقہاء حنفیہ

مذاہب ائمہ کی تصریحات سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف فقہاء حنفیہ رحمہم اللہ اہل دیہات کو جمعہ کی حاضری سے مستثنیٰ فرماتے ہیں، بلکہ سختی سے روکتے ہیں ۔ غلام مریض اور مسافر کے متعلق خود فقہاء رحمہم اللہ کی تصریح موجود ہے کہ اگر یہ لوگ جمعہ میں حاضر ہو جائیں تو ظہران سے ساقط ہو جائے گی۔ مگر دیہات کو جمعہ سے محروم رکھنے پر معلوم نہیں کیوں اصرار ہے۔ ۱۹۴۷ء کی ہجرت کے بعد مولوی الیاس صاحب کے معتقدین جہاں اقامت پذیر ہوئے ہیں ان کا وطیرہ ہے کہ وہ جمعہ کو روکنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں اگر اہل دیہات کو مسافر وغیرہ کی طرح اجازت دے دی جائے کہ وہ دیہات میں جمعہ ادا کرلیں تو ان سے ظہر ساقط ہو جائے گی۔ تو شرعی احکام سے قطع نظر اس میں تھوڑی سی معقولیت ہوتی، لیکن بعض دیہات میں تو ان تبلیغی حضرات نے ہنگامہ برپا کردیا، پارٹیاں بن گئیں، حالانکہ اہلِ دیہات کی جمعہ کی فرضیت کے متعلق قرآن و حدیث میں کافی ذخیرہ موجود ہے اور جمعہ سے روکنے کے لیے تو کچھ بھی نہیں۔

امام بخاری صحیح میں فرماتے ہیں:

باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن عن ابن عباس ان اول جمعۃ جمعت بعد جمعۃ فی مسجد رسول اللّٰہ ﷺ فی مسجد عبدالقیس بجواثی من البحرین۔

یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ قبیلہ عبدالقیس کے مقام جواثیٰ پر پڑھا گیا جو علاقہ بحرین کا ایک گاؤں ہے۔

وکیع فرماتے ہیں :

قریۃ من قری البحرین۔ (صحیح بخاری مع الفتح ۲۵۹، ج۲)

حافظ فرماتے ہیں:

اشارۃ الی خلاف من خص الجمعۃ بالمدن دون القریٰ وھو مروی عن الحنفیۃ واسندہ ابن ابی شیبۃ … عن حذیفۃ عن علی اھ حوالہ  سابق۔

امام بخاری نے ان حضرات سے اختلاف فرمایا ہے۔ جو صرف شہروں میں جمعہ جائز سمجھتے ہیں دیہات میں درست نہیں سمجھتے ابن ابی شیبہ نے حضرت حذیفہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے بھی یہی مسلک نقل فرمایا ہے اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ  کا اثر ذکر فرمایا ہے:

انہ کتب الی اھل البحرین ان جمعوا حثیما کنتم ۔

’’بحرین والوں کو فرمایا جہاں ہو جمعہ ضرور پڑھو۔‘‘  (ابن ابی شیبہ و صححہ ابن خزیمۃ)

بیہقی نے لیث بن سعد سے نقل فرمایا ہے:

کل مدینۃ او قریۃ فیھا جماعۃ امروا بالجمعۃ فان اھل مصر وسوا حلھا کانوا یجمعون الجمعۃ علی عھد عمر و عثمان بامرھما وفیھما رجال من الصحابۃ وعند عبدالرزاق باسناد صحیح عن ابن عمر انہ کان یری اھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون فلا یعیب علیھم۔

(فتح الباری ص۲۵۹،ج۲)

لیث بن سعد فرماتے ہیں ہر بستی اور شہر میں جہاں مسلمانوں کی جماعت ہو وہاں جمعہ ادا کرنا چاہیے۔

اس کے بعد امام نے یہ حدیث ذکر فرمائی ہے:

کلکم راعٍ وکلکم مسئول عن رعیتہ الخ

’’تم سب اپنے حلقہ اقتدار میں ہو اور تمہیں تمہاری رعیہ کے متعلق باز پر ہوگی۔ ‘‘

ابن منیر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ جمعہ کے لیے نہ امیر شرط ہے نہ شہر بلکہ دیہات میں جمع کی اجازت ظاہر ہوتی ہے۔

اسی طرح اسعد بن زرارہ کی روایت سے ظاہر ہے وہ نقیع الخفات میں جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ یہ بستی مدینہ منورہ سے قریباً ایک میل ہے۔ ان آثار کا تذکرہ حافظ شوکانی نے نیل الاوطار میں اور حضرت مولانا شمس الحق نے عون المعبود میں بھی فرمایا ہے۔ امام بیہقی نے ان آثار کا تذکرہ سنن کبریٰ میں ج ۳ صفحہ ۱۷۹۔ ۱۷۸ میں اپنی سند سے فرمایا ہے ان آثار سے ظاہر ہوتا ہے اس وقت عام دیہات بلکہ ڈیروں میں بھی جمعہ بلا نکیر ہوتا تھا۔ صحابہ میں گو حضرت علی وغیرہ اس کے خلاف تھے لیکن وہ روکنے کی کوشش نہیںکرتے تھے۔ غالباً یہ سنت حضرات دیوبند سے شروع ہوئی ہے جس کا احیاء جا بجا مولوی الیاس کی تبلیغی جماعت کر رہی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

حافظ خطابی معالم السنن صفحہ ۱۰ جلد ۲ میں اسعد بن زرارہ کی حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

وفی الحدیث من الفقہ ان الجمعۃ جوازھا فی القریٰ کجوازھا فی المدن والاثار لان حرۃ بنی بیاضۃ یقال قریۃ علی میلٍ من المدینۃ۔

اس حدیث کی فقہ میں سے یہ ہے کہ دیہات میں جمعہ اس طرح جائز ہے جس طرح چھوٹے اور بڑے شہروں میں، کیوں کہ حرہ بنی بیاضہ مدینہ سے ایک میل پر ایک گاؤں ہے جہاں اسعد بن زرارہ آنحضرتﷺ کی تشریف آوری سے پہلے جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ حافظ ابن القیم نے تہذیب السنن میں اس کی صراحت فرمائی ہے صفحہ ۱۰ جلد ۲ حرہ بنی بیاضہ کا تذکرہ شروع حدیث سبل السلام فتح العلام عون المعبود وغیرہ میں مرقوم ہے۔ یہ واقعی چھوٹی سی بستی ہے اور یہ خیال کہ یہ امر آنحضرت سے مخفی رہا ناممکن ہے۔ اسعد بن زرارہ نے آنحضرت کی ہجرت سے چند روز پہلے جمعہ پڑھایا تھا اس کے بعد آنحضرت تشریف لے آئے۔ مشکل ہے اتنی جلدی کا واقعہ آنحضرت کے سمع گرامی تک نہ پہنچا ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ وہ چھوٹی چھوٹی دین کی باتیں آنحضرتﷺ سے ضرور ذکر فرماتے تھے۔ اتنا اہم واقعہ آنحضرتﷺ تک نہ پہنچا ہو ناممکن ہے۔

اسعد بن زرارہ کی حدیث کے متعلق ابن حزم فرماتے ہیں:

اما الشافعی فانہ احتج بخبر صحیح رویناہ من طریق الزھری محلٰی ص۴۷ جلد۵۔

صحیح احادیث سے صراحۃً اور قرآن عزیز اور اقوال صحابہ سے دیہات میں جمعہ کا ثبوت ملتا ہے اور بعض اہل علم تک یہ اطلاع نہیں پہنچی یا وہ اسے اس طرح نہیں سمجھ سکے جس طرح باقی آئمہ نے سمجھا ہے تو ان کے مقلدین کو دیہات میں جمعات روکنے کا حق نہیں وہ خود بپابندی تقلید نہیں پڑھنا چاہتے تو وہ مختار ہیں۔

مذاہب آئمہ:

ابن حزم فرماتے ہیں:

یصلیھا المسجونون والمخفتون رکعتین فی جماعۃ بخطبۃٍ کسائر الناس وتصلی فی کل قریۃ صغرت ام کبرت اھ محلی جلد ۵ صفحہ ۴۹۔

قیدی مفرور لوگ دو رکعت خطبہ کے ساتھ ادا کریں اور بستی چھوٹی ہو یا بڑی اس میں جمعہ درست ہے۔

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: قال بعض الحنفین لوکان ذلک لکان النقل بہ متصلا اھ اگر جمعہ دیہات میں جائز ہوتا تو تواتر اور تعامل سے اس کا ثبوت ملتا۔ ابن حزم اس کے جواب میں فرماتے ہیں :

فیقال لہ نعم قد کان ذٰلک حتی قطعہ المقلدون بضلالھم عن الحق وقد شاھدنا جزیرۃ میورقہ یجمعون فی قرئھا حتی قطع ذٰلک بعض المقلدین لما لک وباء باثم النھی عن صلوٰۃ الجمعۃ وروینا ان ابن عمر کان یَمُرُّ علی المیاہ وھم یجمعون فلا ینھا ھم عن ذلک عن عمر بن عبدالعزیز انہ کان یامز اھل المیاہ ان یجمعوا ویأمر اھل کل قریۃ لا ینتقلون بان یؤمر علیھم امیر یجمع بھم محلی جلد ۵ ص۵۲۔

ان حضرات سے کہنا چاہیے کہ واقعی جمعہ تمام دیہات میں ہوتا تھا اور اس کا تعامل موجود تھا۔ یہاں تک کہ بعض غلط کار مقلدین نے اسے بند کرا دیا۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ جزیرہ میورقہ کے تمام دیہات میں جمعہ ہوتا تھا۔ امام مالک رحمہ اللہ کے مقلدین نے اسے بند کرا دیا اور جمعہ سے روکنے کی معصیۃ اپنے ذمہ لے لی۔ ابن عمر پانیوں اور ڈیروں پر لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تھے اور منع نہیں فرماتے تھے، عمر بن عبدالعزیز نے اہل میاہ کو جمعہ ادا کرنے کا حکم دیا اور ہر بستی کو جس کی اقامۃ مستقل ہو حکم دیا کہ ان کا امیر جمعہ پڑھائے۔

 

پھر صفحہ ۵۴ جلد ۵ میں فرماتے ہیں:

ومن اعظم البرھان علیھم ان رسول اللہ ﷺ آتٰی الی المدینۃ وانما ھی قری صغار مفرقۃ بنو مالک بن الخبار فی قریتھم موالی دورھم اموالھم وبنو عدے بن النجار فی دارھم کذلک وبنو مازن بن النجار کذالک وبنو سالم کذالک وبنو ساعدۃ کذالک وبنو الحارث بن الخزرج کذالک وبنو عمر وبن عوف کذالک وبنو عبد الا شھد کذالک سائر یطون الانصار کذاک فبنی مسجدہ فی مالک بن النجار فجمع فیہ فی قریۃ لیست بالکبیرۃ ولا مصر ھنالک فبطل قول من ادعٰی ان لاجمعۃ الا فی مصرو ھذا امر لا یجھلہ احد لامومن ولا کافر بل ھو نقل الکوان من شرق الارض الی غربھا وبا اللّٰہ تعالٰی التوفیق اھ محلی جلد ۵ ص ۵۴ ۔

دیہات میں جمعہ سے روکنے والوں کے خلاف بڑی عظیم الشان دلیل ہے کہ جب آنحضرت مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو یہ خود چھوٹی چھوٹی بستیوں کی صورت میں تھی بنو مالک بن نجار کا مال اور کھجوروں کے باغ الگ تھے، بنو عدی بن نجار اور بنو مازن کے اموال اور زمینوں کا بھی یہی حال تھا بنو سالم بنو ساعدہ بنو حارث بن خزرج اور بنو عمرو بن عوف اور بنو اشہل بھی اسی طرح الگ الگ دیہاتی زندگی بسر کرتے تھے انصار کے تمام قبائل اسی طرح قبائلی زندگی گزارتے تھے، آنحضرت نے مسجد کی بنیاد بنو مالک بن نجار میں رکھی اور جمعہ قائم فرمایا یہ چھوٹی سی آبادی تھی، یہاں کوئی شہر آباد نہ تھا۔ یہ صورت حال ہر مسلمان اور کافر پر ظاہر ہے بلکہ مشرق و مغرب کے مورخین نے اس نقل کیا ہے۔

ہجرۃ کی طویل حدیث سے جسے ابن سعد ابن کثیر ابو القاسم سہیلی وغیرہ نے تفصیلاً نقل فرمایا ہے، ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت کی ناقہ جب قبیلہ کے میدان کے سامنے سے گزری تو ہر ہر قبیلہ نے آنحضرت کو اپنے ہاں قیام کی دعوت دی آنحضرت نے فرمایا ذروھا فانھا مامورۃ اسے چھوڑ دو یہ حسب الحکم جا رہی ہے چنانچہ ناقہ پہلے بنو مالک کی بستی میں پھر سہل اور سہیل کے دو یتیم بچوں کے مربع کے سامنے بیٹھ گئی انہوں نے پالان اٹھا کر رکھ لیا پھر ابو ایوب انصاری کے صحن کے سامنے بیٹھ گئے اور آنحضرت یہیں بطور مہمان فروکش ہوئے (ابن سعد، البدایہ والنہایہ) ، ارض الانف سہیلی ، ابن ہشام۔

اس سے ظاہر ہے کہ مدینہ خود مصر جامع نہیں تھا اور حضرت علی کے اثر کے مطابق تو برسوں اس پر مصر جامع کی تعریف صادق نہ آسکی وکل مدینۃ جامعۃ فھی الفسطاط ومنہ قبل المدینۃ مصر التی بناھا عمر وبن العاص الفسطاط ھ (فرائد اللغۃ ص ۲۸۱) مدینہ جامعہ مصر ایسے شہر کو کہا جاتا ہے جس کی بنا عمرو بن عاص نے رکھی ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ جو تمام اہل توحید میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، جمعہ کے اجتماعیہ اور فی الجملہ مدینۃ کا تذکرہ فرمانے کے بعد لکھتے ہیں: اقول وذالک لانہ لما کان حقیقۃ الجمعۃ اشاعۃ الدین فی البلد وجب ان ینظر الٰی تمدن وجماعۃ والاصح عندی انہ یکفی اقل مایقال فیہ قریۃ لماروی من طرق شتٰی یقوی بعضھا بعضا خمسۃ لاجمعۃ علیھم وعد منھم اھل البادیۃ قال ﷺ الجمعۃ واجبۃ علی کل قریۃ الخ (حجۃ اللہ البالغہ ص ۳، جلد۲) جمعہ کا مقصد شہر آبادیوں میں دین کی اشاعت ہے اس لیے جماعۃ اور مدینہ کا لحاظ رکھنا ضروری ہوا میرے نزدیک کم ا ز کم جسے قریہ کہا جائے جمعہ کے لیے کافی ہے آنحضرت نے باختلاف طرق مروی ہے (جو ایک دوسرے کے موید ہیں) پانچ قسم کے لوگوں پر جمعہ فرض نہیں، ان میں خانہ بدوش، بادیہ نشینوں کو شمار فرمایا۔ آنحضرت نے فرمایا پچاس آدمیوں پر جمعہ فرض ہے شاہ صاحب فرماتے ہیں اسی تعداد پر قریہ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ آنحضرت کا ارشاد ہے ہر بستی پر جمعہ واجب ہے۔

ایک تلخ حوالہ بھی سن لیجئے۔ ’’ ازینجا معلوم شد کہ اشتراط شی زاید برنماز ہائے فرض برائے دین نماز مثل امام اعظم و مصر جامع و عدد مخصوص و نحوآں مستند صحیح ندارد دلیلے براستحبابش نیست چہ جائے وجوب تابشرطیت چہ رسد۔‘‘ (الدلیل الطالب الی ارجح المطالب ص ۲۶۳) جمعہ کے لیے امیر مصر جامع اور عدد معین کے لیے کوئی دلیل ثابت نہیں ہوئی وجوب یا شرط تو بڑی بات ہے ان کے استحباب کی بھی کوئی دلیل نہیں ملتی۔

جمعہ سے روکنا اور اس قسم کی دھاندلی کی جرأت فرقہ وارانہ دھڑے بندیوں ہی سے ہوسکتی ہے اس لیے مناسب ہے کہ بعض دوسرے فقہا مذاہب کی آراء پر بھی غور کرلیا جائے۔ مغنی ابن قدامہ کے شارح فرماتے ہیں:

واھل القریۃ لا یخلون من حالین اما ان یکون بینھم وبین المصر اکثر من فرسخ لم یجب علیھم السعی الی الجمعۃ وحالھم معتبر بانفسھم فان کانوا اربعین اجتمعت فیھم الشرائط فعلیھم اقامۃ الجمعۃ ولھم السعی الی مصرو الافضل اقامتھا فی قریتھم لانہ متی سعی بعضھم اختل علی الباقین اقامۃ الجمعۃ واذا اقاموا حضروھا جمیعا۔ الخ الشرح الکبیر لمغنی ابن قدامہ ۱۴۸،ص۲

اسی کے قریب قریب ابن قدامہ نے مغنی میں ذکر فرمایا ہے۔ (صفحہ ۱۷۱ جلد ۲)

اگر بستی اور شہر میں ایک فرسنگ کا فرق ہو تو ان کے لیے شہر جانا ضروری نہیں۔ بلکہ ان کے ذاتی حالات کی بنا پر فیصلہ ہوگا، اگر وہ چالیس ہوں تو ان میں جمعہ کی شرائط پائی جائے گی۔ ان پر جمعہ فرض ہوگا۔ اگر پسند کریں تو شہر میں پڑھیں، افضل یہ ہے کہ وہ گاؤں میں پڑھیں کیوں کہ اگر شہر چلے جائیں تو باقی لوگوں کے جمعہ میں خلل واقع ہوگا۔ اگر گاؤں میں پڑھیں تو سب لوگ جمع ہو جائیں گے۔

ابن رشد مالکی شروطِ جمعہ کے ذکر میں فرماتے ہیں ’’ طبری کا خیال ہے کہ ایک امام اور ایک مقتدی ہو تو ان پر جمعہ فرض ہے بعض نے فرمایا ہے امام کے علاوہ دو آدمی ہوں تو جمعہ فرض ہوگا۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام کے علاوہ تین ہوں تو جمعہ فرض ہوگا۔ امام احمد و شافعی فرماتے ہیں چالیس ہوں تو جمعہ فرض ہوگا۔ بعض نے تیس کا تعین فرمایا ہے اس کے بعد فرماتے ہیں: ومنھم من لم یشترط عددًا ولکن رأیھم انہ تجوز بما دون الاربعین ولا یجوز بالثلاثۃ والاربعۃ وھو مذھب مالک وحدھم بانھم الذین تتقری بھم قریۃ اھ (بدایۃ المجتھد ص۱۲۴،ج۱) بعض نے کوئی عدد متعین نہیں فرمایا لیکن ان کا خیال ہے کہ چالیس آدمی ضروری نہیں لیکن تین اور چار افراد سے جمعہ نہیں ہوگا۔ امام مالک رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور یہ تحدید اس لیے ہے کہ اس مقدار سے قریہ کا مطلب پورا ہو جاتا ہے۔

باجی مؤطا کی شرح میں استیطان کی تفصیل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں واما موضع الاستیطان فانما یغنی بہ المصر والقریۃ اھ یاجی ص۱۹۶ جلد ایضاً بحوالہ مذکور اما القریۃ فان مالکا رحمہ اللہ جعلھا فی ذٰلک بمنزلۃ المصر اھامام مالک رحمہ اللہ شہر اور دیہات کو جمعہ کے معاملہ میں مساوی سمجھتے ہیں۔

امام شافعی کتاب الام میں فرماتے ہیں: سمعت عدداً من اصحابنا یقولون تجب الجمعۃ علی اھل دار مقام اذا کانوا اربعین رجلا وکانوا اھل قریۃ فقلنا بہ (الی ان قال) وروی انہ کتب الی اھل قری عرینۃ ان یصلوا الجمعۃ والعیدین الخ (کتاب الام ص۱۶۹ جلد۱) ہمارے رفقاء کا یہ خیال ہے کہ جس بستی میں ۴۰ آدمی اقامت پذیر ہوں اس گاؤں والوں پر جمعہ فرض ہے مجھے اس کے خلاف کوئی حدیث نہ ملی۔ اس لیے میں نے یہی قول پسند کیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

تجب الجمعۃ علی من اقام فی غیر بناء کالخیام وبیوت الشعر و نحوھا وھو اخذ من قول الشافعی وحکی الاذجی روایۃ عن احمد لیس علی اھل الباریۃ جمعۃ لانھم یتقلون فاسقطھا عنھم وعلل بانھم غیر مستوطنین قال ابو العباس فی موضع اخر یشترط مع اقامتھم فی الخیام ان یکونوا یزرعون اھل القریۃ اھ (اختیارات العلمیۃ ص۴۷)

اہل خیال اگر خیموں وغیرہ میں اقامت اختیار کرلیں تو ان پر جمعہ واجب ہوگا۔ یہ امام شافعی ہی کے قول سے ماخوذ ہے۔ اذجی نے امام احمد سے روایت فرمایا ہے۔ اہل بادیہ پر جمعہ فرض نہیں، کیوں کہ وہ مختلف مقام میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ابو العباس فرماتے ہیں اگر وہ زراعت کا کام شروع کرلیں تو وہ مقیم تصور ہوں گے۔

میں نے ائمہ اجتہاد اور ان کے بعض متبعین کے اقوال دو مقاصد کے لیے نقل کیے ہیں۔ اول یہ کہ اس اختلاف میں ائمہ کا موقف اور ان کے دلائل معلوم ہوجائیں۔ دوم ایسے اختلافات میں جہاں ہر امام یا عالم کے پیش نظر کچھ دلائل اور نظریات ہوں وہاں ایک مقلد یہ تو کرسکتا ہے کہ اپنی کم علمی کی وجہ سے اپنے مسلک کی پابندی کرے، لیکن دوسرے کو روکنا دھاندلی کرنا نہ شرعاً درست ہے نہ عرفاً جیسے کہ دیہات میں بعض مقامات پر ہو رہا ہے۔ نیز ایک امام کے اتباع اگر جبراً اپنا مسلک منوانے کی کوشش کریں تو دوسرا بھی یہی روش اختیار کرے تو ملک کا امن تباہ ہوگا۔ باہمی آویزش بڑھے گی اور یہ ہنگامے کسی امام کے نزدیک بھی درست نہیں۔

فقہاء حنفیہ کے نزدیک جب چار آدمی جمعہ پڑھ سکتے ہیں تو شہر پر زور دنیا اور اس کے لیے ہنگامہ برپا کرنا غیر معقول معلوم ہوتا ہے۔ شہر کی شرط کا حاضری پر کچھ اثر ہونا چاہیے۔ چار آدمی تو چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں بھی جمع ہوسکتے ہیں۔ فقہاء حنفیہ رحمہ اللہ کے مسلک کے مطابق ان دونوں باتوں میں تو تعلق معلوم نہیں ہوتا۔

جمعہ کب فرض ہوا

عموماً فقہا حنفیہ اور شوافع رحمہم اللہ نے فرضیت پر سورہ جمعہ کی آیت { یَا اَیَّھُا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصلوٰۃِ من یوم الجمعۃِ … الخ} سے استدلال فرمایا۔ سورۃ جمعہ جمہور ائمہ اسلام کے نزدیک مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ جیسے زرکشی اور سیوطی اور مصنف البنانی نے مقدمہ تفسیر میں ذکر فرمایا۔ اس لیے بعض علماء کا خیال ہے کہ جمعہ مدینہ منورہ میں فرض ہوا۔ حرہ بنی بیاضہ میں آنحضرت کی آمد سے قبل اسعد بن زراہ نے جمعہ پڑھایا آنحضرت نے عمرو بن سالم کی بستی میں جمعہ پڑھایا ہے۔ بنو مالک بن نجار کے ڈیرہ پر مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی۔ اس وقت حسب ارشاد ائمہ تاریخ و سیر مدینہ خود ایک گاؤں تھا اس کے بعد جواثی میں جمعہ ہوا، جو بحرین کا ایک گاؤں ہے۔ بظاہر اس وقت یہ جمعے سب دیہات ہی میں پڑھے گئے۔ ان اثار سے بظاہر یہی ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ کی فرضیت کہیں ہو لیکن مکہ میں اس کی اقامت کا موقعہ نہ مل سکا۔ اسعد بن زراہ نے ہجرت کے بعد حرہ بنو بیاضہ میں نماز جمعہ ادا فرمائی اور اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ یہ مقام شہر ہے یا گاؤں اسعد بن زرارہ نے کعب بن لوی کی عادت کے مطابق پڑھا ہو یا آں حضرت کے ارشاد کے مطابق، بہرحال حرہ بنی بیاضہ شہر نہیں۔

قریہ، مدینہ، مصر

علامہ قسطلانی ارشادی الساری میں فرماتے ہیں: القریۃ واحد القریٰ کل مکان اقصلت فیہ الابنیۃ واتخذ فرادًا ویقع علی المدن وغیرھا والامصار المدن الکبار واحدھا مصر والکفور القریٰ الخارجۃ عن المصر واحد کفر بفتح الکاف (ص۱۶۶ج۲) قریٰ قریہ کی جمع ہے یہ اسی جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں مکان باہم ملے ہوئے ہوں، لوگ وہاں قرار پذیر ہوں، کبھی قریہ کا لفظ قصبہ وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے اور مصر بڑے شہر کو کہا جاتا ہے۔ شہر سے باہر کی بستیوں کو کفر کہتے ہیں۔

فرائد اللغت میں اماکن اور ان کے امتیازات کی زیادہ وضاحت کی ہے: القریۃ کل مکان اتصلت فیہ الابنیۃ واتخذ فراداً ویقع ذلک علی المدن وغیرھا والامصار المدن الکبار واحدھا مصر والمدرۃ القریۃ والمدینۃ یقال فلان سید مدرۃ۔ والکفور القریٰ الخارجۃ عن المصر (الی) والقصبۃ المدینۃ اومعظم المدن والقریۃ والبلد کلاھما اسم لما ھود اخل الربض وکل مدینۃ جامعۃ فھو فسطاط الخ (ص۲۸۱)۔ ان عبارات سے ظاہر ہے کہ یہ نام الگ ہیں ایسے اضافی ناموں کے متعلق لغت میں کوئی قطعی حد نہیں، اس لیے کسی وقت بعض ناموں کا استعمال دوسرے ناموں کی جگہ ہو جاتا ہے لیکن یہ اطلاق حقیقی نہیں ہوگا۔ بلکہ تسامح کے طور پر ہوگا۔ بحث کو طول دینا مطلوب ہو تو علماء کے لیے چنداں مشکل نہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ قریہ کا لفظ مدینہ سے چھوٹی بستی پر بولا جاتا ہے۔ مدینہ عموماً قصبہ کے مترادف ہے۔ خصوصاً جب قریہ کا لفظ مدینہ کے بالمقابل بولا جائے، تو اس سے مراد یقینا گاؤں ہی ہوگا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر لاجمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع (عبدالرزاق) کے مطابق جس سے یہ اختلاف شروع ہوا ہے جمعہ نہ دیہات میں ہوسکتا ہے نہ قصبات میں نہ چھوٹے شہروں میں، اس کے لیے تو مصر جامع یعنی فسطاط کے سوا کوئی چارہ معلوم نہیں ہوتا۔ احناف  رحمہم اللہ نے اس میں لچک کہاں سے پیدا فرمائی۔ لغت کے لحاظ سے تو مصر جامع بغداد لاہور، دہلی ایسے شہروں پر بولا جانا چاہیے۔ حضرت علی کے اثر کا مفاد تو اس چھوٹے شہروں میں پورا نہیں ہوسکتا۔

احناف کرام کا موجودہ طرز عمل نہ قرآن عزیز کے مطابق ہے نہ احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے اس اثر سے یہ مطلب حاصل ہوتا ہے۔ یہ بظاہر کچھ وقتی مصالح پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ حضرات علماء نے جس طرف چاہا مسئلہ کا رخ پھیر دیا۔ اثر حضرت علی رضی اللہ عنہ  صرف بحث و نظر کے لیے ہے عمل کے لیے نہیں، یہی حال حضرات احناف کا خطبہ جمعہ کے متعلق ہے وہ عربی کے سوا خطبہ درست نہیں سمجھتے لیکن جب وقت کی مصالح نے مجبور کیا تو دو کی بجائے تین خطبے وضع فرمالیے، دو عربی میں تیسرا خطبہ وقتی مصالح کی نذر کردیا گیا۔ اس بدعت کے لیے اسی طرح گنجائش ہوگی۔ جس طرح اثر حضرت علی میں توسیع سے پیدا کرلی گئی۔

مصر کیا ہے

اس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ مصر جامع کی تعریف کیا ہے۔ فقہاء حنیفہ رحمہم اللہ کے ہاں اب تک اس کا مفہوم متعین نہیں ہوسکا۔

والمصر عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ کل بلدۃ فیھا ملک واسواق ولھا دساتیق ووال لرفع الظلم وعالم یرجع الیہ فی الحوادث وعند ابی یوسف رحمہ اللہ کل موضع لہ امیر وقاض ینفد الاحکام وھو مختار الکرخی وایضا ان یبلغ سکانہ عشرۃ الاف اھ (ارشاد الساری ص۱۶۷،۲) المصر ھوما لایسعھم اکبر مساجد اھلہ المکلفین بھا۔ ایضاً وظاھر المذھب انہ کل موضع لہ امیر وقاض یقدر علی اقامۃ الحدود (درالمختار ص۸۳۵،ج۱) شامی پہلی تعریف کے متعلق فرماتے ہیں ھذا یصدق علی کثیر من القریٰ۔ (ص۸۳۵،۱)

علامہ کاسانی فرماتے ہیں:

اما المصر الجامع فقد اختلفت الاقاویل فی تحدیدھا ذکر الکرخی ان المصر الجامع ما اقیمت فیہ الحدود ونفذت فیہ الاحکام وعن ابی یوسف روایات ذکر فی الاملاء کل مصر فیہ امیر و قاض ینفذ الاحکام ویقیم الحدود فھو مصر الجامع تجب علی اھلہ الجمعۃ وفی روایۃ قال اذا اجتمع فی قریۃ من لایسعھم مسجد واحد بنی لھم الامام جامعاً ونصب لھم من یصلی بھم الجمعۃ وفی روایۃ لوکان فی القریۃ عشرۃ الاف او کثر امرتھم باقامۃ الجمعۃ فیھا وقال بعض اصحابنا المصر الجامع مایتعیش فیہ کل محترف بحرفتہ من سنۃ الی سنۃ من غیر ان یحتاج الی الانتقال الی حرفۃ اخریٰ وعن ابی عبداللہ البلخی احسن ماقیل فیہ اذا کانوا بحال لو اجتمعوا فی اکبر مساجد ھم لم یسعھم ذٰلک حتی احتاجوا الی بناء مسجد الجمعۃ فھذا مصر تقام فیہ الجمعۃ قال سفیان التوری المصر الجامع ما یعدہ الناس مصرًا عند ذکر الامصار المطلقۃ قال ابو القاسم الصغار عن حد المصر الذی تجوزفیہ الجمعۃ فقال ان تکون لھم منعۃ لوجاء ھم عد وقدروا علی دفعہ (الی ان قال) وروی عن ابی حنیفۃ انہ بلدۃ کبیرۃ فیھا سک واسواق ولھا دسایتق وفیھا وال یقدر علی انصاف المظلوم من الظالم بحشمہ وعلمہ او علم غیرہ اھ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع للکاسانی ص۲۵۹،ج۱)

مصر جامع کی تعریفیں مختلف ہیں۔ کرخی فرماتے ہیں جس میں حدیں جاری ہوں اور احکام نافذ ہوں۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے کئی روایات ہیں۔ جس میں منبر ہو اور قاضی ہو اور حدیں نافذ ہوں۔ جس کی مسجد میں وہاں کے لوگ نہ سما سکیں۔ جس کی آبادی دس ہزار کی ہو یا اس سے بھی زیادہ، بعض اصحاب نے فرمایا جس میں صنعت کار یا کاریگر اپنی صنعت پر پورا سال گزر اوقات کرسکے جس میں وہاں کی بڑی مسجد میں وہاں کے رہنے والے نہ سما سکیں۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں جس کا ذکر مطلقاً شہروں کے تذکرہ میں آجائے ابو القاسم صغار فرماتے ہیں جہاں دشمن کے دفاع کے لیے سامان موجود ہو۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس میں بازار کوچے اور محلے ہوں اور بادشاہ ہو جو ظالم اور مظلوم میں داد رسی کرسکے۔

اس اختلاف سے ظاہر ہے نہ شارع نے یہ شرط لگائی ہے نہ مصر کی کوئی جامع تعریف فرمائی۔ نہ ہی اس کی ضرورت تھی۔ علماء نے اپنے ماحول کے لحاظ سے یہ تعریفات کی ہیں اس لیے یہ اختلاف اور دھاندلی بالکل قدرتی ہے اس میں اہل علم پر کوئی الزام نہیں۔ خرص و تخمین کا ہمیشہ یہی حال ہوتا ہے۔ پانی نکالنے والے ڈول کا بھی قریباً یہی حال ہے۔

گزارش اس قدر ہے جب ایک چیز کی حقیقت متعین ہی نہیں اس کے متعلق یہ تشدد کیوں ہو ان تعریفات میں بعض ایسی ہیں جو آج کل بڑے بڑے شہروں پر صادق نہیں آتیں۔ اور بعض چھوٹے سے چھوٹے گاؤں پر صادق آتی ہیں۔ گویا شہر کو گاؤں بنانا یا گاؤں کو شہر بنانا ان تعریفات کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔

خطبہ کا مقصد

احادیث میں آیا ہے کہ آں حضرت خطبہ میں وعظ اور نصیحت فرماتے تھے کہ جمعہ کے اجتماع سے یہ فائدہ حاصل کرنا خطبہ جمعہ کا اہم مقصد ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے۔ اشتد غضبہ وَعَلاصوتہ خطبہ میں آں حضرت کی آواز بلند ہو جاتی۔ اور چہرہ مبارک پر ناراضگی کے آثار نمایاں ہو جاتے، گویا آپ کسی لشکر کو آنے والے خطرات سے ڈرا رہے ہیں۔ اگر یہ مقصد درست ہے تو معلوم نہیں، عورتوں اور اہل دیہات کو اس فیضان سے محروم رکھنے کی کیوں کوشش فرمائی جاتی ہے کسی زمانہ میں مسلمان بادشاہ پر زور تھا پھر عورتوں کو روکنے پر زور تھا۔ اب یہ دونوں چیزیں مدہم پڑ گئی ہیں۔

حضرات دیوبند جو فقہ حنفی پر عمل کے زیادہ مدعی ہیں ان کے ہاں بھی بعض جگہ جمعات میں عورتیں آنے لگی ہیں اور عام مجالس میں تو اب کوئی پابندی نہیں! تعجب ہے دیہات کی آبادی سے دونوں حضرات ناراض ہیں۔ تبلیغی مجالس میں دیہاتی شریک ہوتے ہیں لیکن جمعہ کے لیے ان پر پابندی بدستور ہے۔

حضرت الامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا علم و فضل، زہد و تقویٰ، وقتِ نظر، وسعتِ ادراک، اسلام اور اس کی مصالح کے متعلق ان کے گہرے احساسات تاریخ اور علم رجال کی ایک مسلمہ حقیقت ہے، لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ جمعہ کے مسئلہ میں دیہات پر یہ سختی کیوں ضروری سمجھی گئی۔ دیہاتیوں کے کاروبار کا یہی تقاضا ہے کہ ان کو اگر انتظام ہوسکے تو وہاں جمعہ پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ وہ اگر شہر میں آئیں تو انہیں میلوں کا سفر طے کرکے آنا ہوگا۔ اہل شہر کے لیے کاروبار کے معاملہ میں یہ ترجیح سمجھ میں نہیں آئی۔ معلوم ہے کہ اہل شہر کی مالی حالت اچھی ہوتی ہے وہ اگر دن کا کچھ حصہ عبادت میں صرف کریں۔ اس کے لیے سفر کرکے دوسری جگہ چلے جائیں، تو اس میں معقولیت اور سنجیدگی معلوم ہوتی ہے، دیہاتی بچارے میلوں شہر کی طرف بھاگیں عقلاً اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ اب ان کے لیے حنفی کی رو سے دوہی راہیں ہیں یا وعظ و نصیحت سے ہمیشہ کے لیے محروم رہیں پورے ماہ میں چار دفعہ بھی کلمہ حق نہ سن سکیں، یا پھر کاروبار کا نقصان برداشت کریں اور میلوں کا سفر کریں جانوروں کو بھوکے ماریں۔

معلوم ہوتا ہے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ کرام نے یہ حکم بعض مصالح کی بنا پر دیا ہوگا۔ جس طرح حضرت علیرضی اللہ عنہ   کی عمر کا آخری حصہ دورِ فسادات اور ہنگاموں کا دور تھا ممکن ہے عراق کی دیہاتی آبادی کے لیے یہ حکم اس لیے دیا گیا ہو کہ وہ مفسدانہ اجتماعات سے بچے رہیں۔ اموی مبلغین کی آتش بیانیاں دیہاتی ذہن کو ماؤف نہ کرسکیں۔ ان حالات میں لاجمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع وقتی مصالح کے مطابق ہوسکتا ہے لیکن فقہا کرام کا اسے دائمی اور شرعی حکم قرار دینا قطعی سمجھ میں نہیں آتا۔ عفا اللہ عنا وعنھم۔ البتہ وقتی حکم ہو تو سمجھ میں آتا ہے حضرت امام  رحمہ اللہ کا زمانہ بھی اموی حکومت کے وداع اور عباسی حکومت کی آمد ہے۔ ایسے اوقات میں دیہاتی آبادی کے لیے مناسب ہے کہ اس میں ہنگامے نہ ہوں۔

حاصل کلام یہ کہ حضرت امام علیہ الرحمۃ کے اتباع کو یہ تو حق ہے کہ وہ جمعہ نہ پڑھیں، لیکن جو لوگ پڑھنا چاہیں انہیں روکنا کسی طرح مناسب نہیں، خصوصاً جب کہ قرآن عزیز کی صراحت میں کوئی استثناء نہیں سنت مرفوعہ صحیحہ میں اس تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ ائمہ ثلثہ بلکہ تمام ائمہ اہل دیہات پر جمعہ فرض سمجھتے ہیں۔ فقط فقہاء حنفیہ سے بھی عوام اور متاخرین ہی اس قسم کی بے دلیل باتوں پر زور دیتے ہیں۔ حضرت امام علیہ الرحمۃ اور ان اصحاب سے بھی اس تشدد کی کوئی سند نہیں ملتی۔

شبہات

مناسب ہے ان شبہات کا بھی مختصر تذکرہ آجائے جن کی بنا پر متاخرین کو اس نامناسب تشدد کی جرات ہوئی۔ انہوں نے دیہات کے اہل اسلام کو قرآن و سنت کے فیوض سے محروم رکھنے کی جرات مندانہ کوششیں کیوں کی؟

قباء میں جمعہ

سیوطی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

ومن امثلتہ ایضًا آیۃ الجمعۃ فانھا مدنیۃ والجمعۃ فرضت بمکۃ

(اتقان ص۳۸،۱)

جن آیات کا حکم پہلے تھا سورۃ جمعہ کی آیت اس کے بعد نازل ہوئی۔ یہ سورۃ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اور جمعہ مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکا تھا۔ فقہاء حنفیہ کا خیال ہے کہ جمعہ جب مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکا تھا۔ تو آپ نے ہجرت کے بعد قبا میں خود جمعہ کیوں نہ پڑھا اور اہل قبا کو کیوں جمعہ کا حکم نہ فرمایا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ قبا گاؤں تھا۔ وہاں جمعہ فرض ہی نہ تھا۔

جواباً گزارش ہے کہ آپ کی ارشاد فرمودہ تعریفات کے پیش نظر تو اس وقت مدینہ منورہ بھی دیہات ہی تھا اسے شہر کہنا مشکل ہے۔ آں حضرت کے منبر کے تذکرہ میں صراحتہً آیا ہے کہ جب آں حضرت کو منبر کی ضرورت محسوس ہوئی اس وقت مدینہ منورہ میں ایک ہی بڑھئی تھا عمارہ بن غزیہ فرماتے ہیں۔

کان رسول اللّٰہ ﷺ یخطب الی خشبۃ فلما اکثر الناس قیل لہ لوجعلت منبراً قال دکان بالمدینۃ نجارٌ واحد یقال لہ میمون۔

(فتح الباری ص۲۷۰،۲)

ان دنوں مدینہ میں لکڑی کا کام کرنے والا ایک ہی آدمی تھا۔ یہ واقعہ ہجرت کے بعد کا ہے اس وقت بھی اس گاؤں میں ایک ہی نجار تھا۔ اس سے اندازہ فرمائیے یہ کتنا بڑا شہر ہوگا۔ اس لیے قباء اور مدینہ منورہ کے متعلق قریہ یا شہر کی بحث قبا میں جمعہ نہ پڑھنے کی علت قرویتہ کو قرار دینا اس میں کوئی استدلالی اہمیت معلوم نہیں ہوتی۔ البتہ بحث کو لمبا کیا جاسکتا ہے۔

اس سے قبل ابن حزم نے وہاں کی قبائلی زندگی کا تفصیلی تجزیہ فرمایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مدینہ چند قبائلی ڈیروں کے مجموعہ کا نام تھا جو الگ الگ اپنی اپنی زمینوں پر آباد تھے۔ یہ آبادی کا انداز پہاڑی علاقوں میں خاص دیہاتی قسم کا ہے۔ آج بھی آزاد کشمیر میں ایسے دیہات موجود ہیں جو میلوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور وہ حقیقتاً گاؤں ہی کہلاتے ہیں۔

قبا میں قیام

آں حضرت کے سفر ہجرت میں قیام قباء کے متعلق مختلف روایات آئی ہیں۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں بضع عشرۃ (دس سے اوپر) حضرت انس کی روایت میں چودہ دن مرقوم ہے۔ کلبی اور ابن حبان کی روایت میں جزماً چار دن فرمایا ہے، بعض روایات میں تین دن بھی آیا ہے۔ بنی عمرو بن عوف کے بعض بزرگ بائیس دن قیام کا تذکرہ فرماتے ہیں۔ امام زہری سے تین دن کا قیام منقول ہے ابن اسحاق پانچ دن فرماتے ہیں۔  (فتح الباری ج ۳، ص ۴۷۵، ۴۷۶)

ابن فیم فرماتے ہیں:

ثم قدم رسول اللہ ﷺ المدینۃ فاقام بقباء فی بنی عمرو بن عوف کما قالہ ابن اسحاق یوم الاثنین ویوم الثلاثاء ویوم الاربعاء ویوم الخمیس اسس مسجدھم ثم خرج یوم الجمعۃ فادرکتہ الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلاھا فی المسجد الذی فی بطن الوادی وکانت اوّل جمعۃ صلاھا فی المدینۃ وذلک قبل تاسیس مسجدہ۔

(زاد المعاد ص۹۹،ج۱)

آں حضرت مدینہ منورہ میں حسب روایت ابن اسحاق بنو عمرو بن عوف کی بستی میں سوموار سے خمیس تک رہے اور مسجد قباء کا سنگ بنیاد رکھا۔ جمعہ کے دن وہاں سے رخصت ہوئے اور سب سے پہلا جمعہ بنو سالم بن عوف میں پڑھا ، یہ مسجد نبوی کی تعمیر سے پہلا جمعہ تھا۔

ابن سعد فرماتے ہیں:

قالوا اقام رسول اللّٰہ ﷺ بین عمرو بن عوف یوم الاثنین والثلاثاء والاربعاء والخمیس وخرج یوم الجمعۃ فجمع فی بنی سالم ویقال اقام فی بنی عمرو بن عوف اربع عشرۃ لیلۃ۔ (طبقات ابن سعد،ص۲۳۶، جلد۱)

مطبوعہ بیروت جدید آں حضرت بنو عمرو بن عوف میں سوموار سے خمیس تک رہے۔ جمعہ کے دن نکلے، جمعہ بنو سالم میں پڑھا اور کہا گیا ہے کہ بنو عمرو بن عوف میں چودہ دن قیام فرمایا۔

حافظ ابن کثیر نے بھی یہ تمام روایات ذکر فرمائی ہیں۔ (البدایہ والنہایہ ص ۱۹۸، ج۳، ایضاً ص ۲۱۲، جلد ۳، ابن کثیر نے جہاں آپ نے بنو سالم میں جمعہ ادا فرمایا تھا اس مقام کا نام وادی رانوناء لکھا ہے۔

مسعودی ۳۴۶ھ فرماتے ہیں :

وکان مقامہ بقباء یوم الاثنین والثلاثاء والاربعاء والخمیس وسار یوم الجمعۃ ارتفاع النھار (الی ان قال) حتی ادرکتہ الصلوٰۃ فی بنی سالم فصلی بھم یوم الجمعۃ (مروج الذھب ص۲۸۶،۲)

مسعودی نے باقی روایات کا ذکر ہی نہیں فرمایا، ابو القاسم سہیلی نے بھی قریباً سابقہ روایات کا ذکر فرمایا اور خلافِ عادت ان روایات میں تطبیق کی کوشش نہیں فرمائی۔ (روض الانف ، جلد ۲، ص۱۰،۱۱)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان تواریخ کو مرتب کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ لیکن تطبیق دینے کی طرف توجہ نہیں دی۔ انہوں نے واقعات اس طرح مرتب فرمائے ہیں۔ آنحضرت کا مکہ مکرمہ سے نکلنا ۲۳؍ صفر ، غار ثور سے نکلنا یکم ربیع الاوّل، قبا میں پہنچا ۸؍ ربیع الاوّل، قباء میں قیام ۱۴ دن، مدینہ منورہ میں داخلہ ۲۲؍ ربیع الاول، حسب روایات کلبی مدینہ ۱۳؍ ربیع الاوّل ۔  (فتح الباری، جلد۳)

اخباری نقطہ نظر سے کلبی کی روایت وزنی معلوم ہوتی ہے، آں حضرت جن مقاصد کے لیے مکہ مکرمہ سے نکلے تھے ان کی اہمیت کے پیش نظر بنو عمرو بن عوف میں دو ہفتے قیام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دو چار دن سستانے کے بعد ممکن عجلت کے ساتھ حضرت کو منزلِ مقصود پر پہنچ کر کام شروع کرنا چاہیے، اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنی تبلیغی مساعی کو تیز تر کردینا چاہیے۔ یہ مقصد ابن سعد کی روایت سے بہت حد تک مطابقت رکھتا ہے۔ اس روایت کے مطابق کوئی جمعہ ضائع نہیں ہوتا اور پہلا جمعہ پانچویں دن بنو سالم میں آیا۔ جو قریباً ایک سو صحابہ کی معیت میں ادا ہوا۔

محدثانہ نقطہ نظر سے صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح ہونی چاہیے۔ رہا جمعہ کا سوال تو ظاہر ہے کہ آں حضرت مسافر تھے۔ عرب کی قبائلی آبادی ان کی تعداد، جنگی قوت، جرأت اور حوصلہ مندی کا جائزہ لینا ضروری تھا، روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر قبیلہ خواہشمند تھا کہ آں حضرت ان کے محلہ میں قیام فرمائیں، اس لیے یہ سوچنا بھی ضروری تھا کہ حضرت کا قیام کہیں قبائلی رقابت کو بیدار نہ کردے۔ یہی رقابت باہمی عداوت کی آگ کے لیے ہوا کا کام نہ دینے لگے۔ یہ سوچنا از بس ضروری تھا کہ غلط مقام، غلط رفقاء کا انتخاب ساری عمر کے لیے مصیبت نہ بن جائے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ یہ ایام آں حضرت نے بطور مسافر تذبذب میں گزارے۔ جب اقامت ہی یقینی نہ ہو جمعہ کیسے فرض ہوا اور اس کی ادائیگی کیوں کر ضروری ہو مشہور قول کے مطابق جمعہ مکہ میں فرض ہوا۔ لیکن ناہموار حالات کی وجہ سے ادا کرنے کی نوبت نہ آئی۔ اہل قباء کو ممکن ہے ابھی فرضیت کا علم ہی نہ ہو، اس لیے یہ خیال کہ دیہی آبادی کی وجہ سے جمعہ نہیں پڑھا گیا۔ بالکل بے معنی سی بات معلوم ہوتی ہے جبکہ اسعد بن زراہ کے جمعہ کے متعلق اہل علم کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ جمعہ فرضیت کی بنا پر نہیں پڑھا۔ بلکہ یہ کعب بن لوی کی سنت کے طور پر تھا جو عروبہ کے نام سے ہر ہفتہ میں ایک بار اجتماع قرار پاتا تھا۔

اس لیے اہل قباء یا آنحضرت اگر نہ پڑھیں تو اس کی وجہ سفر یا لا علمی تو ہوسکتا ہے لیکن قرویت نہیں۔ اگر جمعہ کی فرضیت مدینہ منورہ میں ہو تو مسئلہ اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔

ان روایات میں اخباری نقطہ نظر ہو یا محدثین کا نقطہ نظر احناف کے مسلک کی تائید کے لیے اس میں کوئی گنجائش معلوم نہیں ہوتی۔

یہ بالکل ایسا ہے جیسے عرفات اور منیٰ میں جمعہ نہیں پڑھا جاتا۔ نہ آں حضرت نے پڑھا نہ آپ کے رفقاء نے اس لیے کہ حاجی مسافر ہوتے ہیں۔ ان مقامات میں سفر کے لیے جمع تقدیم کی بھی اجازت ہے۔ اور جمع تاخیر کی بھی بعض حضرات نے عرفات اور منیٰ کو دیہات سمجھ کر عموم آیت {یاایھا الذین امنوا اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ۔ الایۃ} کے لیے مخصص قرار دیا ہے، اب تو عرفات اور منیٰ میں آبادی ہے۔ حجۃ الوداع میں ترک جمعہ کی وجہ یا تو جنگل ہوگا یا سفر، دیہات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

غرض یہ ہے کہ آپ بنی عمرو بن عوف کے دعوے ۲۲ دن قیام کو قبول فرمائیں یا ابن سعد کی روایت کو، احناف کے مسلک کو اس سے کچھ فائدہ نہیں۔

علامہ سمہووی ۱۰۱۱ھ نے وفاء الوفا باخبار المصطفیٰ جلد اوّل کے کئی اوراق میں ان اجتہادی اور محدثانہ روایات کو پھیلا دیا ہے جس سے اس مقدس سفر کے کئی گوشے جستجو کی دعوت دیتے ہیں آں حضرت کی دور اندیشی، معاملہ فہمی، علم تاویل الاحادیث میں اس کامل بشر علیہ الف تحیۃ، وسلام کی مہارت تامہ معلوم ہوتی ہے۔ اور علوم نبوت کے عملی آثار و عواقب کا پتہ چلتا ہے۔ جس طرح مکہ مکرمہ سے ہجرت کا مرحلہ کئی سال کی سوچ و بچار کے بعد عمل میں آیا تھا۔ پوری عمر اقامت کے لیے جو مقام اختیار کیا جانے والا تھا اس کے نشیب و فراز پر غور بھی اسی طرح اور اسی قدر ضروری تھا وَقُلْ رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍکی ابدی صداقت کے لیے جس قدر قدرتی ذرائع مہیا کیے جاسکتے تھے۔ آنحضرت فداہ ابی و امی نے اپنی خداداد صلاحیت کو اس کے لیے صرف فرما دیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّی وَسَلّمْ عَلَیْہ مَا اَظَلَّتِ الْخَفْرائُ وَمَا اِغْبَّرتِ الْغَبْرَائُ ۔ سمہووی نے زیادہ تر حافظ ابن حجر وغیرہ کا تتبع فرمایا ہے۔ کچھ نئے معلومات بھی فراہم کیے ہیں، ان سے ان مشکلات کا پتہ چلتا ہے کہ جن کے عبور میں اتنا وقت صرف ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔

سمہووی بحوالہ تاریخ صغیر بخاری حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں: حتی اقبل ھوو صاحبہ فکمنا فی بعض جوانب المدینۃ وبعثا رجلا من اھل البادیۃ یوذن بھما۔ دوسری روایت میں ہے فَکِمَنَا فی حرب المدینۃ (وفاء الوفا جلد ۱ ص۱۸۲) یعنی آنحضرت مدینہ منورہ پہنچ کر مدینہ کے بعض ویرانوں میں چھپ کر بیٹھ گئے اور ایک بدوی کو بھیجا کہ انصار کو آنحضرت کے آنے کی اطلاع دیدے (انصار نے تمام خطرات پر بقدرِ ضرورت قابو پالیا تھا اس لیے) قریباً پانچ سو آدمی آنحضرت کے استقبال کے لیے آگئے۔ اس کے باوجود آنحضرت نے مدینہ کی بجائے قباء میں بنو عمرو بن عوف کے پاس قیام فرمایا۔

سمہووی فرماتے ہیں جب آنحضرت کی ناقہ ابو ایوب کے مکان کے سامنے بیٹھ گئی (یہ مکان بالکل اسی جگہ کے سامنے تھا جہاں مسجد نبوی تعمیر ہوئی) تو جبار بن صخر خفیہ طور پر پاؤں سے ناقہ کو ٹھکور رہے تھے جنہیں حضرت ابو ایوب نے تاڑ لیا اور ترشی سے انہیں روک دیا اور فرمایا : یا جبار لولا الاسلام لضربتک بالسیف اور اگر اسلام کا احترام مانع نہ ہوتا تو میں تمہیں تلوار سے درست کردیتا۔ تم ناقہ کو اس لیے کھجلتے ہو کہ آگے چلی جائے۔

سمہووی نے ایک اور خطرہ کا بھی تذکرہ فرمایا ہے:

لما نزل رسول اللّٰہ ﷺ فی بن عمرو بن عوف وکان بین الاوس والخزرج ماکان من العناوۃ وکانت الخزرج تخاف ان تدخل دارالاوس کانت الاوس تخاف ان تدخل دارالخزج۔

(وفاء الوفاء ص۱۷۸،۱)

آنحضرت بنو عمرو بن عوف کے ہاں تشریف فرما تھے اوس اور خزرج میں باہم عداوت تھی۔ خزرج کو خطرہ تھا کہیں اوس کے ہاں نہ اُتر جائیں۔ اوس ڈرتے تھے کہیں خزرج کے ہاں نزول نہ ہو جائے۔ آنحضرت کی تو جہات سے ان کا دھڑا بھاری ہو جائے۔ ان قبائلی رقابتوں کے ہوتے ہوئے ظاہر ہے کہ آنیوالے مہمان کے لیے کس قدر دور اندیشی اور معاملہ فہمی کے علاوہ نفسیاتی رجحانات کے متعلق سوچنے کی ضرورت ہے۔

اسعد بن ذرارہ آنحضرت سے چند روز قبل مدینہ منورہ تشریف لائے تھے لیکن انہوں نے بعاث کے ہنگامہ میں نیتل بن حارث کو قتل کیا تھا۔ آنحضرت نے دریافت فرمایا کہ اسعد بن ذراہ کہاں ہے۔ سعد بن خثیمہ وغیرہ نے عرض کیا کہ حضرت اس نے ہمارا آدمی قتل کیا تھا حسب قاعدہ وہ ہمارا مفرور ہے۔ چنانچہ رات کے دھندلکے میں اسعد بن زرارہ تشریف لائے انہوں نے اپنا سر منہ لپیٹا ہوا تھا۔ حضرت نے فرمایا تم رات کو آئے ہو۔ حالاں کہ اپنے ہمسائے قبیلہ کے ساتھ تمہارے تعلقات کافی ناخوشگوار ہیں۔ اسعد نے فرمایا حضرت! جناب کی آمد کی خبر پا کر صورتِ حال کچھ بھی ہو، مجھے خدمت گرامی میں پہنچنا تھا۔ چنانچہ حضرت اسعد بن زرارہ وہیں شب باش ہوئے۔ اور صبح واپس چلے گئے۔ آنحضرت نے سعد بن خثیمہ رفاعہ اور مبشر ابنائے منذر سے فرمایا کہ اسعد بن زرارہ کو پناہ دے دو۔ انہوں نے ازراہِ کرامت فرمایا کہ آپ ان کی پناہ کا اعلان فرما دیں۔ ہماری طرف سے خود بخود پناہ ہو جائے گی۔ آنحضرت نے فرمایا آپ ہی لوگوں کو پناہ کا اعلان کرنا چاہیے۔ چنانچہ سعد بن خثیمہ نے پناہ کا اعلان کیا۔ اور صبح اسعد بن زرارہ کے گھر چلے گئے اور اُن کی کمر میں ہاتھ ڈالے ظہر کے وقت بنو عمرو بن عوف میں لے آئے۔ یہ دیکھ کر قبیلہ اوس نے ایک اجتماعی اعلان کیا قالوا یا رسول اللہ کلنا لہ جاری (ہم سب نے اسعد کو پناہ دے دی) ۔

اس صلح و سلام کے پیغامبر نے یہ پندرہ دن آئندہ کے لیے زمین ہموار کرنے میں صرف فرمائے فکان شغلہ ﷺ من عبادۃ فی عبادۃ۔ اتنے مقدس اور اہم التواء کو شہر اور گاؤں کی بحث بنانا ان مقدس خدمات کو کوڑیوں کے نرخ بیچنے کے مترادف ہوگا۔

اور ابھی تک چونکہ جمعہ کی فرضیت کا اعلان بھی خاص اہمیت سے نہیں ہوا تھا، اس لیے اہل قباء نے اگر جمعہ نہ پڑھا ہو تو اسے جرم کیا فروگذاشت بھی قرار نہیں دیا جاسکتا، گو سمہووی نے سرسری طور پر ایک روایت ذکر فرمائی ہے: قیل انہ کان یصلی الجمعۃ فی مسجد قباء فی اقامتہ ھناک واللّٰہُ اعلم ص۱۸۳،۱۔ آنحضرت جب تک قباء میں رہے مسجد قباء ہی میں جمعہ ادا فرماتے رہے۔

بعض حضرات نے قباء میں اقامت کو دیہات میں عدم فرضیت جمعہ کے متعلق بڑی مستند دستاویز سمجھ کر ذکر فرمایا ہے۔ حضرات! اس لیے مجھے کسی قدر تفصیل سے ان کے متعلق تدابیر کا ذکر کرنا پڑا، ورنہ قبائلی حالات کو دیکھئے۔ حضرات فقہاء عراق  رحمہم اللہ کا یہ استدلال چنداں پختہ معلوم نہیں ہوتا۔

حالات کی سازگاری

آنحضرت نے جب یہاں کے حالات کو ہموار فرما کر اصل منزل کی طرف کوچ فرمایا۔ اب چونکہ اقامت کا مسئلہ طے ہوچکا تھا کہ قباء کی بجائے مدینہ منورہ میں ہوگا۔ جمعہ کا وقت بنو سالم میں آیا، آنحضرت نے بلا توقف جمعہ ادا فرمایا۔ کیوں کہ اب یہ عظیم الشان مسافر اقامت کا فیصلہ فرما چکا تھا۔ (اللھم صل وسلم علیہ) بنو سالم سے چلنے کے بعد ناقہ نے بنی الحبلی کا رخ کیا۔ تو عبداللہ بن ابی نے بڑی ثقاہت سے کہا۔ اذھب الی الذین دعوک فانزل علیھم (وفاء ص۱۸۳،۱) ان کے ہاں اُترو، جن لوگوں نے تمہیں بلایا ہے۔ اس شریر النفس کے علاوہ زمین ہموار ہوچکی تھی۔ تمام قبائل نے اقامت کے لیے پیش کش فرمائی، ناقہ چلتی گئی، آنحضرت فرماتے رہے دعوھا فانھا مامررۃ۔ اسے چھوڑ دو، یہ حسب الحکم جا رہی ہے۔ چنانچہ موجودہ مسجد نبوی کے پاس حضرت ابو ایوب انصاری کے مکان کے بالمقابل ناقہ تھم گئی۔ آنحضرت اُتر گئے۔ ابو ایوب نے سامان اپنے مکان میں رکھ لیا… یہ دو منزلہ مکان بقول بعض مؤرخین تبع الاوّل نے آنحضرت ہی کے لیے بنایا تھا۔ آنحضرت نے فرمایا: الرجل مع رحلہ آدمی اپنے سامان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابو ایوب کے گھر چلے گئے۔ اور یہ فقرہ ایک ضرب المثل بن گیا۔

گزارش

فقہی اختلاف رہے ہیں، اور رہیں گے، افہام اور طبائع کے اختلاف کا یہ قدرتی نتیجہ ہے۔ ہر فریق کو حق ہے کہ اپنے مکتبِ فکر کے لیے حمایت حاصل کرے۔ لیکن اس کش مکش میں نبوت اور اس کے عالی قدر مقاصد کو اپنی پستیوں کے ساتھ ملانے کی سعی مناسب نہیں۔ قباء کی اقامت، اس کی مدت، مدینہ کے ماحول اور قبائلی زندگی ایسے مسائل ہیں جو آنحضرت کی نبوت کے ساتھ حکمت کا پتہ دیتے ہیں۔ جو کتاب کے ساتھ آنحضرت کو عطا فرمائی گئی تھی۔ اسے فقہی موشگافیوں کی نذر کرنا کسی طرح مناسب نہیں۔

لا جمعۃ ولا تشریق اور عدد کی تخصیص

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس اثر پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ احناف اور شوافع نے اس پر خوب خوب زور آزمائیاں فرمائی ہیں۔ احناف کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اور سنت کی عام اور صریح نصوص کا فیصلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کی روشنی میں کیا جائے۔ اس لیے کبھی وہ اسے حکماً مرفوع فرماتے ہیں کبھی قرآن و سنت کو مجمل قرار دے کر اثر علی کو بطور تفسیران پر مسلط فرمانا چاہتے ہیں۔ معلوم ہے یہ سب ہاتھ کی صفائی ہے یا زبان کی ساحری اور اصطلاحات کی ہیرا پھیر۔ شوافع کا اعتراض واقعی وزنی تھا کہ آپ حضرات قرآن کی تخصیص کے لیے خبر واحد صحیح کو بھی پسند نہیں فرماتے۔ ادھر اپنا کام آیا تو سارا کام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر سے لے لیا۔ اس الزام سے بچنے کے لیے یہ تمام حیل تراشے گئے۔ والحقیقۃ وراء ذالک کما ھی تنظر نادمۃ خزیاتہ۔

ادھر شوافع اسی اثر کو قطعاً خارج البلد کرنا چاہتے ہیں اور اسی معاملہ میں آئمہ حدیث سے بھی انہیں خاصی مدد ملی ہے۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ آثار سے تائید تو حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن مسائل کا ثبوت تو بہرکیف کتاب و سنت ہی کا مرہونِ منت ہونا چاہیے۔ اثر علی رضی اللہ عنہ بصورت ثبوت بھی اس کی حیثیت صحابہ کے بعض تفردات کی ہوگی، جیسے حضرت عبداللہ بن مسعود کی تشبیک یا فاتحہ اور معوذتین کے متعلق قرآن سے علیحدگی کا خیال، ابن عباس کے نزدیک متعۃ النکاح کا جواز، حضرت عمر کی متعۃ الحج سے رکاوٹ، حضرت عثمان کا اتمام صلوٰۃ فی السفر، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مبتدعین کو جلانا۔ ابو ذر کا اکتناز کے متعلق تشدد، ایسے تفردات کو اساس قرار دے کر ظواہر کتاب و سنت کی تاویل تحقیقی مشغلہ نہیں ہے۔ اس لیے شوافع حضرات یہاں تک تو حق بجانب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن بعینہٖ اسی قسم کی جمعہ کے متعلق چالیس کے عدد کی پابندی خود حضراتِ شوافع کے ہاں موجود ہے۔ جس کے متعلق وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں دونوں طرف بزرگ ہیں، اہل علم ہیں ہم کیا عرض کرسکتے ہیں۔ اثر کی حقیقت صرف اس قدر ہے الحدیث الاول عن النبی ﷺ قال لاجمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا اضحٰی الا فی مصر جامع قلت غریب مرفوعاً۔اس کے بعد اثر کی مختلف اسانید کا ذکر فرمانے کے بعد فرماتے ہیں وھذا انما یروی عن علی موقوفا فاما النبی ﷺ فانہ لا یروی عنہ فی ذالک شئیٌ (زیلعی۱۹۵،ص۱) ۔ حدیث لا جمعۃ ولا تشریق اثر علی رضی اللہ عنہ مرفوعاً آنحضرت سے ثابت نہیں۔ آنحضرت سے اس مفہوم کی کوئی روایت ثابت نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً یہ اثر ثابت ہے۔ حافظ عینی اور امام بیہقی اپنے اپنے مکاتب فکر کی تائید و حمایت میں جس قدر سرگرم ہیں وہ معلوم ہے، لیکن اس مسئلہ میں امام بیہقی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کی جو توجیہہ فرمائی ہے اس سے ان کی محدثانہ روش کا پتہ چلتا ہے۔ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کو باقی آثار کے ساتھ تطبیق دیتے وقت مصر جامع اور قریہ کے معنی میں توازن فرمانا چاہتے ہیں۔ قال الشیخ والاشبہ باقاویل السلف وافعالھم فی اقامۃ الجمعۃ فی القریٰ التی اھلھا اھل قرارٍ لیسوا باھل عمود ینتقلون ان ذالک مراد علی بن ابی طالب۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر مع سند نقل فرمایا ہے لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع (سنن بیہقی ص۱۷۹، ج۳) امام بیہقی فرماتے ہیں کہ جمعہ کے متعلق ائمہ اسلام کے قول و فعل سے یہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ اس قریہ میں ہونا چاہیے جہاں لوگ اقامت پذیر ہوں، خیموں کی طنابیں اکھیڑ کر جا بجا منتقل ہونے کے عادی نہ ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع میں مصر جامع سے اسی نوعیت کے قرے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقصد معلوم ہوتے ہیں۔ احناف رحمہم اللہ کے ملفوظات میں بھی تاحال نہ قریہ کی تعریف طے ہوسکی ہے نہ مصر جامع کی۔ اگر امام بیہقی کی تفسیر قبول کرلی جائے تو ممکن ہے کہ معاملہ ختم ہو جائے۔ میری ناقص رائے میں ائمہ اربعہ  رحمہم اللہ کا اصل مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ میں اجتماعیت قائم رہے۔ اسی لیے بعض نے مصر جامع کا ذکر فرمایا۔ بعض نے چالیس کے عدد پر زور دیا۔ بعض نے ضروری سمجھا کہ مکانات کی دیواریں باہم ملی جلی ہوں۔ نقطہ نظریہ ہے کہ اجتماع ہوسکے۔ اگر شرائط کا زور خطیب کی اہلیت اور طریق خطابت پر ہوتا تو یہ مقصد بہتر طور پر حاصل ہوتا۔ اچھا خطیب چھوٹی بستی میں اپنی جاذبیت سے اجتماع کی صورت بنالیتا ہے۔ کم فہم خطیب مصر جامع میں بھی انتشار بپا کرسکتا ہے ۔شرائط جمعہ میں خطیب کو بہت کم اہمیت دی گئی ہے۔ حالانکہ اچھا خطیب اجتماعیت کی روح ہوتا ہے۔

میں نے اثر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق گزارشات کو طول نہیں دیا۔ امام احمد سے ضعیف فرمائیں اور ابن حزم اسے صحیح فرمائیں۔ بہرحال وہ ایک صحابی کا فتویٰ ہے اس سے ہوگا کیا؟ خود احناف کے نزدیک بھی ایسے آثار مذہب کی بنیاد نہیں بن سکتے۔ خصوصاً جب باقی صحابہ سے اس کا خلاف بھی ثابت ہو۔ عموم قرآن اور سنت صحیحہ مرفوعہ سے بھی اس کی تائید نہ ہوتی ہو ایسے اثر کے متعلق طویل بحث سے کیا فائدہ؟

جمعہ کے دن عوالی سے آنا

عن عائشۃ زوج النبی ﷺ قالت کان الناس ینتابون الجمعۃ من منازلھم والعوالے فیاتون فی الغبار الخ۔ (صحیح البخاری ص۴۸۹،۱مع الفتح مطبوعہ ھند ابوداؤد مع عون ص۴۰۸،۱)

حضرت عائشہ فرماتی ہیں، لوگ جمعہ کے دن اپنے گھروں اور قریبی گاؤں سے پے بہ پے آتے۔ ان کے پاؤں پر غبار جم جاتا۔ الخ بعض حضرات کو شبہ ہوا ینتابوں کا معنی باری باری آنے کا ہوگا۔ اگر جمعہ دیہات پر فرض ہوتا تو سب آتے یا پھر سب وہاں جمعہ ادا فرماتے۔ بعض روایات میں یتنابون کا لفظ بھی آیا ہے۔ نوبت بنوبت آنے کا مطلب یہ ہوگا کہ جمعہ ان پر فرض نہیں۔ کوئی آیا کوئی نہ آیا۔ مسئلہ کو ایک طالب علم کی طرح سوچا جائے تو زیادہ مشکل نہیں۔ حدیث میں منازل اور عوالی بواسطہ عطف بتنابون کا ظرف ہیں۔ عوالی وہ بستیاں ہیں جو تین سے آٹھ میل تک مدینہ منورہ کے قرب و جوار میں تھیں۔ منازل سے مراد وہ مکان ہیں جو اہل مدینہ کے مہاجر اور انصار بطور مسکن استعمال فرماتے تھے۔ اگر تناوب کا مفہوم وہی لیا جائے جو علما احناف مراد لیتے ہیں تو جمعہ مدینہ میں بھی فرض نہ ہوگا۔ کیوں کہ اپنے گھروں سے بھی لوگ باری باری آتے ہوں گے اور یہ فرضیت کے منافی ہے۔

لغت کی رو سے انتیاب کا معنی ہے پے بہ پے آنا یعنی عجلت کے ساتھ ہر آدمی ایک دوسرے کے پیچھے علی التوالی چلا جائے۔ انتابت السباع المنھل رجعت الیہ مرۃ بعد اخریٰ۔ (مصباح المنیر) درندے گھاٹ پر یکے بعد دیگرے آتے جاتے رہے۔ انتابھم انتیابا اتاھم مرۃ بعد اخریٰ (اقرب الموارد ج۲) وہ ان کے پاس بار بار آیا۔

وانتابھم انتیابا اتاھم مرۃ بعد اخریٰ (قاموس المحیط ج۱) تناؤب میں تقسیم اور نوبتہ کا مفہوم غالب ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے وحدت ماخذ کی وجہ سے دونوں لفظ ایک دوسرے کے مفہوم میں مستعمل ہوں۔ لیکن اس حدیث میں دونوں کا معنی مرۃ بعد اخریٰ ہوگا۔ کیونکہ منازل سے آنے میں کسی کا نہ آنا سمجھ میں نہیں آسکتا۔

اس مفہوم کے مطابق یہ حدیث فرضیت جمعہ کی دلیل ہوگی۔ فرق محل کا ہوگا۔ عوالی اور قرے پر جمعہ فرض ہوگا۔ جو لوگ مدینہ منورہ پہنچیں جو ایسا نہ کرسکیں انہیں لازماً اپنی جگہ پر فرض کو ادا کرنا ہوگا۔ یہ بحث کہ عوالی میں غیر مستطیع حضرات نے جمعہ ادا فرمایا یا نہیں اس پر برائے بحث تو جھگڑا جاسکتا ہے لیکن معقولیت کا تقاضا نہیں بعض ائمہ نے قریب اور بعید عوالی میں بھی فرق فرمایا ہے یعنی قریب کے لوگ شہر پہنچنے کی کوشش کریں۔ دور کے لوگ اپنی اپنی جگہ جمعہ ادا فرمائیں۔ اس میں بھی معقولیت معلوم ہوتی ہے لیکن اہل قریٰ کو صرف قرویت کی وجہ سے محروم رکھنا اور فریضہ جمعہ میں انہیں نظر انداز کرنا کسی طرح بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ یقینا جو لوگ مدینہ منورہ میں نہیں آسکے وہ گاؤں میں جمعہ ادا کریں گے۔

مسئلہ جمعہ میں مدو جزر

ہمارے ملک میں ابتداء میں جمعہ سے اس لیے انکار کیا گیا کہ اس میں حاکم مسلمان نہیں۔ جب ملک میں جمعہ شروع ہوگیا تو یہ شرط بھی ڈھیلی کردگئی۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ آزاد علاقہ میں چوں کہ کوئی مستند حکومت نہ تھی۔ مرحوم ملا مفیدی صاحب کو اس لیے وہابی فرمایا گیا کہ وہ جمعہ پڑھتے تھے اور تشہد میں رفع مسجہ فرماتے تھے۔

پھر زور دیا گیا کہ خطبہ عربی میں ہونا چاہیے۔ ترجمہ کرنا درست نہیں، مگر کچھ لوگ خطبہ عربی زبان میں دیتے رہے اس لیے ایک نئی بدعت ایجاد فرمائی گئی۔ یعنی تین خطبے دیے جانے لگے۔ ایک اردو میں دو عربی میں لیکن اس مدو جزر میں عورتوں کے لیے جمعہ اور عید کی حاضری بدستور شجر ممنوعہ رہی۔ لیکن بعض لوگوں نے حسب ارشاد پیغمبرﷺ عورتوں کو اجازت دی۔ اب مجبوراً یہ شرط بھی استرخا کی نذر ہو رہی ہے۔ بعض مساجد میں عورتیں آتی ہیں۔ بریلوی مساجد میں چوں کہ وعظ میں موسیقی کی سی حالت پائی جاتی ہے اس لیے وہاں کثرت سے عورتیں شریک ہوتی ہیں۔

اب بحمد اللہ دیہات میں اکثر جمعہ ہو رہا ہے لیکن بحث کے لیے ابھی یہ موضوع شاید کچھ کار آمد ہو اس لیے بحرحال دیوبندی حلقوں میں اس کا خاصا چرچا ہے۔ ہندوستان میں سب سے قبل حضرت شیخ الکل امام المحدثین حضرت مولانا سید نذیر حسین صاحب نے فتویٰ دیا کہ دیہات میں جمعہ درست ہے۔ اس کے جواب میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے اوثق العریٰ لکھی اور حضرات ائمہ احناف رحمہم اللہ کے متعارف مسلک کی تائید فرمائی اس کے جواب میں کسر العری مولانا محمد سعید صاحب بنارسی نے لکھی اور مولانا ابوالمکارم مئوی نے ہدایت الوریٰ ارقام فرمائی۔ ان دونوں کے جواب میں حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی نے احسن القریٰ کافی گرم کتاب لکھی۔ اولہ سے زیادہ طعن و تشنیع پر زور دیا گیا۔ یہ مولانا کا جوانی کا شاہکار ہے۔ مالٹا سے واپسی کے بعد مولانا نے یہ مباحث بالکل ترک فرما دیے تھے۔ بلکہ حسب روایت حضرت مولانا عبدالقادر صاحب قصوری ان مساعی پر تاسف فرماتے تھے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃً، احسن القریٰ کا جواب مولانا عبدالرحمن صاحب بقا غازی پوری نے لکھا۔ اس کتاب کا نام ہے سرمن رای فی بحث الجمعۃ فی القریٰ۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ عموماً کتاب کے اندازِ تحریر میں متانت ہے۔ کہیں معمولی تیزی آگئی ہے۔ ورنہ خوب کتاب ہے۔ اس کے بعد خاموشی ہوگئی کوئی قابل اعتناء اور علمی کتاب نہیں لکھی گئی۔ جس سے علمی حلقوں میں کچھ حرکت پیدا ہو۔ اب ۱۹۴۷ء کی ہجرت کے بعد گوڑ گانواں اور علاقہ میوات کی تبلیغی جماعت کے مہاجر حضرات کہیں کہیں حرکت پیدا کردیتے ہیں۔ ورنہ جمعہ بتدریج اپنی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ لوگ اپنے حلقوں میں تبلیغ کا فرض ادا کر رہے ہیں۔

واللہ یھدی من یشائٌ الی صراط مستقیم۔

الاعتصام لاہور شمارہ ۲۹، ۳۰،۳۳ ، ۳۲ جلد ۱۱

حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب شیخ الحدیث گوجرانوالہ

المتوفی ۲۰؍ فروری ۱۹۶۸ء مطابق ۱۳۸۷ھ

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 22-47

محدث فتویٰ

تبصرے