السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین سوالات مندرجہ ذیل میں:
(۱)۔نحوست انسان بالخصوص عورت ازروئے شرع شریف ثابت ہے یا نہیں مثلاً کسی عورت کے کسی حصہ بدن بالخصوص پپشت پر بال وبونری ہو، جسے عوام جہلاء بتقلید مذہب ہنود ساپن کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور ایسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کو باعث ہلاکت زوج اعتقاد کرتے ہیں ثابت ہے یا نہیں؟
(۲)۔بصورت اخیر ایسا اعتقاد کرنا داخل شرک ہے یا معصیت کبیرہ یا صغیرہ؟
(۳)۔اگر شرک ہے تو کیا اس قسم کے شرک میں داخل ہے جس کے معتقد کا نکاح باطل ہو جاتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شوم ونحوست کے بارے میں حدیثیں مختلف آئی ہیں ان احادیث مختلفہ کی تطبیق وتوفیق کے متعلق شیخ عبدالحق محدث دہولی ترجمہ میں لکھتے ہیں :
بدانکہ احادیث واردہ درباب طیرہ مختلف آمدہ از بعضے نفی تاثیر طیرہ ونہی از اعتقاد واعتبار آن مطلق مفہوم گردد واین بسیار است واز بعضے ثبوتآن در مرأۃ و دالہ و دار بضیغہ جزم چنانکہ درحدیث بخاری ومسلم آمدہ انما الشوم فی ثلاث الفرس والمراۃ والدار و در روایتے وربع وکادم وفرس یا بلفظ شرط چنانکہ درین۔
’’سو اس کے نہیں نحوست تین چیزوں میں ہے ، گھوڑ، عورت، گھر میں اور ایک روایت میں گھر میں خادم میں اور عورت میں ۔‘‘
حدیث:یعنی حدیث ابی داؤد ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لا ہامۃ ولا عدوی ولا طیرۃ وان تکن الطیرۃ فی شئی ففی الدار والفرس والمراۃ وماننآن ملحدہ واز بعضے انکار ثبوت شوم واین امور مثل سائر امور چنا نکہ در حدیث ابن ابی ملیکہ ازابن عباس آمدہ، ودر بعضے احادیث آمدہ کہ اعتقاد شوم درین امور دراہل جاہلیت بود چناننکہ در حدیث عائشہرضی اللہ عنہا آمدہ وجہ تطبیق آنکہ تاثیر بالذات منفی۔ است واعتقادآں از امور جاہلیت است وموثر درکل ایشاء اللہ تعالیٰ است وہمہ بخلق وتقریر او ست واثبات آں دریں ایشاء بجریان عادۃ اللہ است کہ پیدا کردہ واینہار اسباب عادیہ ساختہ وحکمت در تخصیص آن اشیاء بخصائص واحوال موکول ومفوض بعلم شارع است پس نفی راجع بتاثیر ذاتی است واثبات بہ سبب عادی چنانکہ در عددی وجزام ومانند آن گفتہ اندو بعضے گفتہ اند کہ مراد آن است کہ تطیر در ہیچ چیز نیست واگر فرض کردہ شود ثبوت دے درین اشیاء مظنہ ومحل آن است دجائے آن د صلی اللہ علیہ وسلم لو کان شئی سابق القدر لسبقتہ العین چنانکہ گذشت و برین طریق است کلام قاضی کہ گفتہ بعقب قول دے لاطیرۃ باین شرط دلالت دار دکہ شوم وتطیر منفی است درآنہا یعنی اگر شوم راوجودے دثبوتے بودے کہ قابل تراندآن راولیکن وجود وثبوت نہیست در نیہا پس اصلاً وجود ندار وانہتی وبعضے گویند کہ شوم و رزن ناسازگاری او ست وآنکہ وآنکہ زائندہ نباشد واطاعت زوج تکندیا مکروہ ومستقبح باشد نزدوے ودوسرا وخانہ تنگی جاوبدی ہمسایہ وناخوشی ہو است و در اسپ حردتی واگرانی بہاوناموافق غرض ومصلحت ومثل این و در خادم نیز دیا شوم محمول بر کراہت وناخوشی است بحسب شرع یا طبع پس نفی شوم وتطیر برعموم وحقیقت محمول باشد۔۔۔انتہی کلام اشیخ
امام نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں :
’’داختلف العلماء فی ہذا الحدیث ای حدیث الشوم فی الدار والمرأة والفرس فقال مالك وطائفة هو علی ظاهرہ وان الدار قد یجعل اللہ تعالیٰ نسکنا ہا سببا للضر راوہ الهلاك وکذا اتخاذالمرأة المعینة او الفرس واخادم قد یحصل الہلاك عندہ بقضاء اللہ تعالی ومعناہ قد یحصل الشوم فی ہذہ الثلاثة کما صرح به فی روایة ان یکن الشوم فی شئی۔۔۔ الخ‘
حاصل وخلاصہ ان دونوں عبارتوں کا یہ ہے کہ بہت سی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی چیز میں شوم ونحوست نہیں ہے نہ کسی مرد میں اور نہ کسی عورت میں اور نہ کسی چیز میں اور بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت اور گھر اور گھوڑا ان تین چیزوں میں شوم ونحوست ہے امام مالک رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا قول انہیں بعض احادیث کے موافق ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس کی قضا سے یہ تینوں چیزیں باعث ضرر یا ہلاکت کا ہوتی ہیں یعنی یہ تینوں چیزیں بذاتہ موثر نہیں ہیں بلکہ موثر بالذات اللہ تعالیٰ ہے مگر اللہ تعالیٰ کا ہے ان چیزوں کو ضرر یا ہلاکت کا سبب بنا دیتا ہے اور یہ لوگ ان احادیث کثیرہ کو جن سے مطلقاً شوم ونحوست کی نفی ثابت ہوتی ہے تاثیر بالذات پر محمول کرتے ہیں اور ان لوگوں کے سوا باقی تمام اہل علم کا قول احادیث کثیرہ کے مطابق ہے یعنی ان کا یہ قول ہے کہ کسی چیز میں شوم ونحوست نہیں ہے نہ عورت میں اور نہ گھر اور نہ گھوڑے میں اور نہ کسی اور چیز میں اور یہ لوگ بعض احادیث کو ظاہر پر محمول نہیں کرتے بلکہ ان کی تاویل کرتے ہیں جب یہ سب باتیں معلوم کر چکے تو اب سوالات مذکورہ کا جواب لکھا جاتا ہے۔
جواب سوال دوم وسوم: شرع شریف سے کسی شے میں نحوست اس معنی سے ثابت نہیں ہے کہ وہ بذاتہ ضرر پہنچانے والی ہو نہ کسی مرد میں ثابت ہے۔اور نہ کسی عورت میں اور نہ کسی اور شے میں پس کسی عورت میں کوئی خاص علامت مثلاً پشت پر بال وبہونری دیکھ کر اس کو اس معنی سے منحوس سمجھنا اور ایسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کو باعث ہلاکت زوج اعتقاد کرنا جیسا کہ ہنودوکفار اعتقاد کرنے میں اور ان کی تقلید سے عوام وجہالا مسلمان بھی اعتقاد کرتا ہیں، بلاشبہ داخل شرک، ہاں امام مالک وغیرہ نے عورت اور گھر اور گھوڑے میں جس معنی سے نحوست وشام ثابت کیا ہے اس معنی سے ان تینوں چیزوں میں نحوست سمجھنا داخل شرک نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب! کتبہ محمد عبدالرحمن المبارکفوری
سید محمد نذیر حسین، فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص۲۲،۲۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب