سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(76) موضوع علم حدیث کا کیاہے۔؟اور اس کی تعریف اور اس کی غایت کیاہے۔?

  • 3554
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2489

سوال

(76) موضوع علم حدیث کا کیاہے۔؟اور اس کی تعریف اور اس کی غایت کیاہے۔?

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے میں کہ موضوع علم حدیث کا کیاہے۔؟اور اس کی تعریف اور اس کی غایت کیاہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

موضوع علم حدیث کا رسول اللہﷺ کی ذات با برکات ہے اس حیثیت سے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔اور موضوع با عتبار شرعی احوال کے ہیں۔

موضوع علم الحديث هوذات رسول الله صلي الله عليه وسلم من حيث انه رسول الله من الاحوال الشرعية

اور علم حدیث ان قوانین کانام ہے۔جن سے احوال  سند اور متن کے اعتبار صحت اور ضعف اور علو اور نزول اور کیفیت تحمل اور اداء یعنی پڑھنے پڑھانے اور رجال یعنی راویوں کے حالات وغیرہ معلوم ہوں۔

ان کے دعویٰ کی تردید کے لئے علماء کا اجتماع کافی ہے۔کہ صحابہ میں آخری اصحابی ابو طفیل عامر بن واثلہ جہنی سن102 ہجری میں فوت ہوئے۔2۔اس پراتفاق ہے کہ تمام روئے زمین پر آخری صحابی جو فوت ہوئے۔وہ ابو الطفیل عامر بن واثلہ ہیں۔جو 102 ہجری مکہ میں فوت ہوئے۔اور اپنی موت سے  ایک ماہ پہلے ایک حدیث سنائی تھی۔کہ آج سے سو سال بعد روئے زمین پر آج کا کوئی انسان زندہ نہ رہے گا۔اس حدیث سے ساری بحث ہی ختم ہو گئی۔

اور سند متن کے  طریق سے خبر دینے کانام ہے۔اور متن وہ ہے کہ جس پرکلام ختم ہو۔سیوطی نے ان  تمام الداریہ میں ایسا ہی لکھا ہے۔

علم الحديث علم بقوانين يعرف  بها احوال السند من صحة و حسن وضعف وعلوونزول وكيفية التحمل والاداء وصفلات الرجال وغير ذلك والسند الاخبار عن طريق المتن والمتنماينتهي اليه غاية الكلامانتهي ملخا من انمام الدراية

اور حدیث کی غایۃ اورفائدہ سعادت دارین کی کامیابی ہے۔

واما غاية وفائدته فهي الفوز بسعادة الدارين (سید محمد نزیر حسین)

بدانکہ

حقیقت سحر ،،جود ان ثابت است باخلق ایزد  پروردیگار تبر دیک علمائے نامدار کے پیروان مستند سنت سنیہ سید مختار و خیر الابرار چنانکہ صاحب معالم التنزیل کہ یکے از مہرہ مفسرین زی اعتبار است گفتہ کہ

السحر لوجودة حقيقة عند اهل السنة و اكثر ا الامم انتهي كلامه-وقال السيد وملا علي قاري في شرح المشكواة ان للسحر حقيقة عند عامة العلماء خلافا للمعتزلة وابي جعفر الاستر ابادي انتهي كلامه

حی گویم ک از قصہ ہاروت ماروت وجود سحر و حقیقت صریح معلوم شد۔چہ او تعالیٰ خود برآن نص فرمودہ کہ

وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ

هو علم السحر ابتلاء للناس من تعلمه منها وعمل به كان كافرا ان كان فيه رد مالزم في شرط الايمان انتهي

و شیخ عبد الحق محدث دہلوی ورترجمہ مشکواۃ بیان کردہ ک تاثیر و سحر وقوع آن با خلق خداتعالیٰ صحیح است دو ارد گشتہ کہ السحر حق انتھیٰ۔

1۔علم حدیث کا موضوع آپﷺ کی ذات بحثیت شرعی ہے۔

2۔علم حدیث ایسے قوانین کا نام ہے۔جس سے سند کے حالات صحت حسن ضعف بلندی پستی اور  وہ قبول او ر آدمیوں کے حالات معلوم ہوتے ہیں۔اور سند طریق متن کی خبر کانام ہے۔اور متن وہ ہے جہاں کلام کی انتھیٰ ہو۔

3۔علم حدیث کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی دونوں جہانو ں میں کامیاب ہو۔

جادو کی حقیقت و وجود علمائے اہل سنت کے نزدیک ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔چنانچہ صاحب معالم النتزیل اور ملا علی قاری نے تصریح کی ہے کہ علمائے اہل سنت کے نزدیک جادو کی حقیقت ثابت ہے۔معتزلہ اور ابوجعفر استر آبادی اس کے قائل نہیں ہیں۔میں کہتا ہوں کہ ہاروت ماروت کے قصے سے اس کی حقیقت ثابت ہوتی ہے۔کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر نص فرمائی ہے۔

ماروت یہی جادو کا ہی علم ہے۔جسے لوگوں کی آزمائش کے لئے ہی نازل کیا گیا ہے۔اگر ایمان کی شرائط کی تردید کرے۔تو اس کا کرنے والا اور سیکھنے والا کافر ہے۔شیخ عبد الحق نے مشکواۃ میں کہا ہے کہ جادو کی تاثیر اور اس کا وقوع خد کی تخلیق سے حق اور ثابت ہے۔جادو کی بالاتفصیل معرفت لغوی اور اصطلاحی معانی سے کھلی جاتی ہے۔مبتدی اس سے کافی فائدہ اٹھائیں گے۔

لغت کے لہاظ سے سحر و جادو ہر وہ چیز ہے۔جس کا مآخذ لطیف ہو۔اسباب مخفی ہوں۔کہتے ہیں  کہ عالم آدمی جادوگر ہوتا ہے۔مطلب یہ کہ بڑی باریک باتیں عالم کو معلوم ہوتی ہیں۔شریعت کے لہاظ سے اس کی تعریف میں اختلاف ہے سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ سحر ایک ایسا علم ہے۔جس سے خرق عادت کی قوت  پیدا ہوتی ہے۔پھر اگر اس چیز کو جادو گر خدا کے سوا کسی اور کی طرف اس طرح نسبت کرے کہ وہ موثر بالذات ہے۔جیسے کہ ستاروں کو موثر بالذات سمجھ کر ان کی طرف کسی چیز کو منسوب کرے۔تو وہ کافر ہے۔اگر ان کی موثر بالذات نہ جانے اور فعل یا قول حرام سے جادو کرے۔تو وہ فاسق ہے۔اور اگرفعل یا قول حرام نہ ہو اور کسی چیز کو موثر بالذات نہ سمجھے تو وہ مومن ہے۔چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔ کہ بعض بیان جادو ہیں۔اور یہ سحر حلال ہے۔کہ اس سے مشکل چیز کی وضاحت ہو جاتی ہے۔بیان سے قبیح چیز خوبصورت معلوم ہونے لگتی ہے۔اور خوبصورت قبیح

خرق عادت کئی قسم کاہے۔اگردعوٰی نبوت ہو اور اس سے خرق عادت  ظاہر ہو تو وہ معجزہ ہے۔اگر کسی مومن متقی سے بٖغیر دعویٰ نبوت بغیر ظاہری اور خفیہ اسباب کے کوئی چیز خرق عادت ہو۔تو وہ کرامت ہے۔اگرمومن سے کوئی چیز اسباب خفیہ کے ماتحت ظاہر ہو۔تو وہ جادو حلال ہے۔اور اگر عامی آدمی سے خفیہ اسباب کے تحت کوئی خرق عادت ظاہر ہو۔اور اس کو غیر خدا کی طرف مجازاً م منسوب کرے۔تو اس کا کرنے والا فاسق ہے۔اور اگر حقیقت غیر خدا کی طرف منسوب کرے۔تو وہ جادو حرام ہے۔اور اس کا کرنے والا کافر ہے۔

اس کی مثال بالکل یہی ہے۔کہ مومن آدمی ادویہ اور جڑی بوٹیوں سے علاج معالجہ کرتے  ہیں۔لیکن ان کی تاثیر کو منجانب اللہ سمجھتے ہیں۔ان کے ایمان میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ یا کسی نیک آدمی سے دعا کراتے ہیں۔کہ وہ بھی ایک غیر حسی علاج ہے۔اور اس آدمی کو موثر بالذات نہیں سمجھتے تو وہ مومن ہی رہتے ہیں۔اور اگر کوفی ادویات کو موثر بالذات جانے  کسی نیک آدمی یا بد کو موثر بالذات سمجھ کر اس چیز کو اس کی طرف منسوب کر دے۔تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔جیسا کہ مشرکین اپنے بتوں وغیرہ سے جا کر طلب رزق یا فریاد وغیرہ کرتے ہیں۔

پھر جادو کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک تو کلدانیوں کا جادو تھا۔یہ قدیم زمانہ کے لوگ تھے۔ستاروں کی پوجا کرتےتھے۔ان کو مدبر عالم مانتے تھے۔ ان کے مقالات کو باطل کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو مبعوث فرمایا۔اور جادو کی ایک قسم وہمی لوگوں کی ہے۔کہ ان کے نفوس پرقویہ اثر انداز  ہوتے ہیں۔وہم کی کیفیت کا اثر انسانی طبیعت پر ہوتا ہے۔مثلاً اگر ایک لکڑی زمین پر پڑی ہو تو انسان اس پر آسانی سے چل سکتاہے۔او ر اگر وہی لکڑی کسی نہر یا دریا پرپل بنا کر رکھ دی جائے۔تو اس پرانسان نہیں چل سکتا۔کیونکہ قوت وہم نے غلبہ پالیا۔ کہ میں اس میں گر جائوں گا۔حکما کہتے ہیں۔جس کو نکسیر بہتی ہو۔ وہ سرخ چیزوں کی طرف نہ دیکھے۔ اور مرگی والا چمک دار او ر سریع الحرکت چیزوں کو نہ دیکھے۔کہ قوت وہم اس پراثرانداز ہوگی۔اور بیماری کا حملہ ہو جائے گا۔اس سے معلوم  ہوا کہ احوال جسمانیہ احوال نفسانیہ کے ماتحت ہیں۔تمام امتوں کا اجماع ہے۔ کہ دعا میں قبولیت کا گما ن ہوتا ہے۔بعض بادشاہوں کو فالج کی بیماری ہوئی۔ حازق حکیم نے اس کو گال دے  کر اس کی حرارت عزیزی کو تیز کردیا۔تو وہ فوراً تندرست ہوگیا۔ نظر کا لگ جانا بھی اس قبیل سے ہے۔ کہ روح جب بدن پرغالب آجاتی ہے۔ تو عالم بالا کی طرف جاتی ہے۔ تو وہ روح سماوی کی  طرح قوی التاسیر ہوجاتی ہے۔پھر اگر اس کو بیرونی امداد بھی مل جائے۔ مثلاً غذا کم کھائے۔ اور لوگوں سے علیحدہ رہے۔خواہشات  نفسانی سے آذاد ہوجائے۔ تو اس روح کی تاثیر  دوسرے بیرونی جسم پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔اور  اگر اتنی طاقت نہ ہو۔ تو کم از کم اپنے بدن پراثر کر لیتی ہے۔ جھاڑ پھونک کی بھی یہی کیفیت ہے۔ اگر اس می الفاظ معلوم ہوں تو تو پھر ان کی تاثیر طبیعت انسانی پر ظاہر ہے ورنہ انسانی طبیعت پر حیرت اور دہشت غالب آجاتی ہے۔او ر وہ اثر انداز ہوتی ہے۔بعض جادو تاثیرات سماوی رکھتے ہیں۔مثلاً کواکب کی تاثیر اگر قوت نفس کے ساتھ متفق ہوجائے تو وہ قوی التاثیر  ہوجاتی ہے۔اور بعض میں قوت ارضی ہوتی ہے۔مثلا جنوں کی تسخیر وغیرہ اور بعض دفعہ صرف نظر کا دھوکا ہوتی ہے۔ اورنظر کے دھوکے عجیب قسم کے ہوتے ہیں۔ مثلاً گاڑی میں سوار آدمی کا باہر دیکھنا تو اسے باہر کی چیزیں دوڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ اور گاڑی کھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔اور بارش کے جب قطرے گرتے ہیں۔ تو پانی ایک مسلسل دھار معلوم  ہوتی ہے۔بڑی چیز دور سے چھوٹی دیکھائی دیتی ہے۔جن انسان ایک چیز کو غور سے دیکھ رہا ہو۔ تو کسی دوسرے آدمی کی بات سنائی نہیں دیتی۔اورنہ ہی اس کو سمجھ سکتا ہے۔اگرچہ وہ قریب  ہی کیوں نہ ہو۔ایک کاری گر جادو گر بس یہی کام کرتا ہے۔کہ لوگوں کے ذہنوں  کو کسی دوسری طرف منتقل کر دیتا ہے۔او ر سرعت حرکت سے ایک چیز کو کر جاتا ہے۔جس کی لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ او ر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جادو گر کسی آدمی کا علاج تو جڑی بوٹیوں سے کرتا ہے۔لیکن مریض پراس طرح اثر ڈالتا ہے۔کہ جن میرےما  تحت ہیں۔یا مجھے اسم اعظم یاد ہے۔جو آدمی لوگوں کے حالات سے واقف ہیں۔کہ کام کے  پورا کرنے میں دل کے تعلق کا بڑا اثر ہوتاہے۔مثلاً  ایک مریض جب کسی سے تعویز لیتا ہے۔تو اس کے دل میں آجا تاہے۔کہ اب اس بیماری کا حملہ نہیں ہوگا۔یہ تمام جادو کی قسمیں ہیں۔اور مسلمانوں کے نزدیک اللہ کی قدرت کی طرف منسوب ہیں۔پھر اس پر علماء کا اجماع ہے کہ جادو کا علم فی نفسہ برانہیں ہے۔اورنہ اس کا سیکھنامنع ہے۔لیکن اس سے بچنا بہتر ہے۔بالکل اسی  طرح جس طرح فلسفے کی تعلیم سے بچنا چاہیے کیونکہ گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔جو آدمی جادو سے کافر ہو اس کا حکم مرتد کا ہے۔اوراگر کسی انسان پر جادو کرے اور وہ مر جائے تو وہ اگر اپنے جادو کا اقرار کرے۔اور کہے کہ میرےجادو سے عموماً آدمی مر جاتاہے۔ تو اس پر قصاص واجب ہے۔اور اس کا جادو کبھی مارے اور کبھی نہ مارے تو اس کا حکم شبہ عمد کا ہے۔اگر کسی اور  پر اس نے جادو کیا اور وہ کسی دوسرے پر جا پڑا تو اس کا حکم قتل خطا کاہے۔امام رازی کہتے ہیں کہ جادو گر کوقتل کر دینا چاہیے۔امام ابو حنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔اور اس کی توبہ قبول نہ کرنی چاہیے۔اور کہے کہ میں نے اب جادو چھوڑ دیا ہے۔  تو اس کا اعتبار نہ کرناچا ہیے۔کیونکہ حدیث میں ہے۔کہ جادو گر کی حد تلوار ہے۔

سب سے مشکل ترین جادو چاہ بابل کا ہے۔جس کو حکماء نے نمرود کے وقت بنایا تھا۔یہ چھ قسم کا جادو تھا۔اس جادو کے حاصل کرنے میں بڑی مشقت اٹھانا پڑتی ہے۔اور اگر  وہ حاصل ہوجائے۔تو آدمی جو چاہے کر سکتاہے۔وہ خلاف عادت امور کر جاتا ہے۔اور عادت کے امور کو روک لیتا ہے۔بعض دفعہ ایسے بیماروں کا علاج کر لیتا ہے۔جس کے علاج سے حکماء عاجز آجاتے ہیں۔اس کیوجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی جسم فلکی اختیار کر لیتا ہے۔اورعناصر و موالید روحی حاصل کر لیتا ہے۔اور اجسام کی تاثیرات تمام روح کے زریعے ہیں۔جب عالم ارواح اس کے ماتحت ہوجاتاہے۔تو گویا سارے جہان کا مالک بن جاتاہے۔پس وہ بغیر جنگ و قتال کے دشمنوں  کو  شکست دیتا ہے۔چنانچہ ارسطو نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ حکیم برہما طوس اور  بیدا غوس کا شہر بابل میں مقابلہ ہوگیا۔بیدا غوس نے کہا کہ تو میرا مقابلہ نہیں کرسکتا۔کہ مریخ اور ذہل میرے۔ میرے مقابلے سے عاجز ہیں۔برہما طوس نے جب یہ بات سنی تو اس نے ترنج جلا کر مریخ کی روح سےمدد حاصل کی اور اسی وقت بیدار غوس کو جلادیا۔ (سید محمد نزیر حسین)

قصہ مختصر جادو کا وجود حق ہے۔ثابت ہے۔معتزلہ اس کے قائل نہیں ہیں۔ کیونکہ معجزہ اور جادو کے ظاہر حال پر  کوئی فرق  اور حد فاصل نہیں ہے۔ اس لئے وہ اس کے منکر ہوگئے ہیں۔لیکن اہل سنت کے نزدیک جادو موثر بالذات نہیں ہے۔بلکہ اسکی تاثیر اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے اور پہلے جو فرق معجزہ اورجادو میں بیان ہوچکا ہے۔اس کی بناء پرمعتزلہ کا قول رد ہوجاتا ہے۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 12 ص 149-160

محدث فتویٰ

تبصرے