سجدوں میں رفع یدین ثابت ہے یا نہیں؟
وہ تمام روایات جو صحابہ کے ایک جم غفیر کے راستے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ان میں صرف تین جگہ رفع یدین کا ذکر ہے اول تکبیر تحریمہ کے وقت دوم رکوع جاتے وقت سوم رکوع سے اٹھتے وقت اور کسی صحابی سے یہ منقول نہیں ہے کہ اس نے رفع یدین کا سجدوں میں ذکر کیا ہو بلکہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ لم یفعله رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یعنی آپ نے سجدے میں رفع یدین نہیں کیا۔ اور اسی طرح نفی کا ذکر ہی غیر ابن عمر سے آتا ہے۔
الحاصل کہ اسلام کے ذخیرہ کتب میں خواہ وہ کتباصول ہو یا کتب فروع سجدوں میں رفع یدین کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ تمام روایات میں رفعیدین کا ذکر تین جگہوں پر ہے۔ اور اس کے خلاف جو کچھ بھی وارد ہوا ہے اگر ثقہ کی روایت بھی ہے تو وہ شاذ ہے اور شاذ ضعیف کی اقسام میں سے ہے۔ اور اگر غیر ثقہ کی روایت ہے۔ تو وہ منکر ہے۔ اور منکر کا ضعف تو شاد سے بھی اشد ہے۔ اور اسی شاذ روایت سے پیدا شدہ غلطی کا ازالہ ہو گیا۔
اگر مزید تحقیق کی ضرورت ہو تو سنئے کہ نسائی نے اپنی سنن میں باب رفعیدین للجسود میں مالک بن حویرث کی روایت نقل کی ہے۔ کہ انه رأی النبی صلی اللہ علیه وسلم رفع یدیه فی صلٰوته و فیه انه کان یرفع ھنا اذ السجد و اذا رفع رأسه من السجود ثم ذکر مثله من طرقٍ ثانیة و من طرق ثالثة فی ہذا الباب و ہی کہا من طریق نصر بن عاصم الالطاکی عن مالک بن الحویرث ثم ذکر النسائی فی باب الرفع من السجدة الاولیٰ عن مالک بن الحویرث مثله۔ اور یہ روایت بھی نصر بن عاصم کے طریق سے ہے۔ پس مالک بن حویرث کے چار طریق ہیں۔ اور چاروں نصر بن عاصم سے ہیں۔ اور یہ نصر بن عاصم ضعیف ہے (لین الحدیث) ایسے راوی سے حجت قائم نہیں ہو سکتی، اگرچہ اس کے متعلق اختلاف ہے۔ چنانچہ امام نسائیؒ نے حدیث نقل کی ہے ۔ جس کی سند اور متن اس طرح ہیں۔ عن عبد الاعلیٰ قال حدثنا خالد قال حدثنا شعبۃ عن قاتدة عن نصر عن مالک ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کان اذا صلیٰ رفع یدیه حین یکبر حیال اذنیه و اذا اراد ان یرکع و اذا رفع رأسه من الرکوع صرف انہی موطن میں رفعیدین کا ذکر آیا ہے اور سجدہ میں رفعیدین کا ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح امام نسائی نے اپنی سنن میں یعقوب اور ابراہیم کی روایت عن ابن عیینۃ عن ابن ابی عروبہ عن قتادہ عن نصر بن مالک نقل کی ہے۔ اس میں بھی رفعیدین فی السجود کا ذکر نذہیں ہے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ مالک بن حویرث کی روایت میں اضطراب ہے۔ اور یہ اضطراب ضعف روایت کا باعث ہے۔ چونکہ اس کا دارو مدار نصر بن عاصم پر ہے۔ اور وہ ضعیف ہے اگریہ کہا جائے کہ نسائی نے باب رفعیدین بین السجدتین میں انہی الفاظ کی حدیث مالک بن حویرث کے طریق کے علاوہ اور طریق سے بھی تخریج کی ہے۔ فرماتے ہیں اخبرنا موسیٰ ابن عبد اللہ بن موسیٰ البصری قال اخبرنا النصر بن کثیر ابو سہل الازدی قال انه صلی الی جنب عبد اللہ بن طائوس عنی فی المجسد الخیف فکان اذا سجد السجدة الاولیٰ فرفع الرأسه منہا رفع یدیه تلفأ وجہه فانکرت انا ذالک فقلت لوہیب بن خالد ان ہذایصنع شیئا لم او احد یصنعه فقال له وہیب تصنع شیئا لم ار احدًا یصنعه فقال عبد اللہ بن طائوس رائیت ابی یصنعه و قال عبد اللہ بن عباس رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم صنعه ہم کہتے ہیں کہ یہ نصر بن کثر وہی سعدی بصری ہے کہ ابو حیان نے اس کے متعلق کہا ہے کہ ثقات کی طرف موضوعات منسوب کرتا ہے۔ اس کے ساتھ حجت پکڑنا قطعاً درست نہیں ہے۔ انتہٰی کلام ابو حیان۔
لہذا کوئی سنت نصر بن کثیر جیسے کذاب اورنصر بن عاصم جیسے مختلف فیہ الراوی سے ثابت نہیں ہو سکتی اور یہ اس وقت ہے کہ اس کذاب اور ضعیف آدمی کی روایت قوی رواۃ کی روایتوں کے منافی نہ ہو، حالاں کہ یہ روایت صحابہ کے ایک گروہ کی روایات کے منافی ہے۔ چنانچہ کہا گیا ہے۔ کہ پچاس سے زیادہ صحابہ نے اس روایت کے مخالف حدیث بیان کی ہے۔ یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ ایک اور حدیث میں ہے۔ کہ انہ کان یرفع فی کل خفض و رفع کیوں کہ اگر یہ روایت درجہ صحت تک کو پہنچ بھی جائے تو اس خفض و رفع کو جمہور کی روایت پر محمول کیا جائے گا۔ کذاب اور ضعیف کی روایت پر محمول نہ ہو گا کیوں کہ یہ زیادتی اتنی اہم نہیں ہے۔ کہ اس سے عمل واجب ہو جائے گا، کذاب اور ضعیف کی روایت پر محمول نہ ہو گا کیوں کہ یہ زیادتی اتنی اہم نہیں ہے۔ کہ اس سے عمل واجب ہو جائے گا۔ کسی زیادتی سے وجوب عمل پر استدلال نہیں کیا جا سکتا تاوقتیکہ اس زیادتی پر حجت قائم ہو کر وہ قابل اخذ ہو جائے، ایسی زیادتیوں کے ساتھ حجت پکڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ حافظ ابن قیم ہدی نبوی میں فرماتے ہیں کہ رفع یدین فی السجود کی روایت میں وہم ہے۔ و فی ہذا کفایة لمن له هدایة۔