السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا وِتر کی نماز کے بعد بیٹھ کر دو نفل پڑھنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وتروں کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کا صرف جواز ہے۔ تاکیدنہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے:
’ ثُمَّ یُوتِرُ، ثُمَّ یُصَلِّی رَکعَتَینِ، وَهُوَ جَالِسٌ ‘(صحیح مسلم،بَابُ صَلَاةِ اللَّیلِ، وَعَدَدِ رَکَعَاتِ النَّبِیِّ ﷺ…الخ ،رقم:۷۳۸)
یعنی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم وِترپڑھتے۔ بعد ازاں بیٹھ کر دو رکعتیں ادا کرتے۔
یہ بھی یاد رہے!
بِلَا عُذر بیٹھ کر نماز پڑھنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پورا ثواب تھا، جب کہ ایک امتی کے لیے آدھا ثواب ہے۔ ملاحظہ ہو!( صحیح مسلم:۲۵۳/۱۔)
لہٰذا اجر کی تکمیل کے پیشِ نظر اگر کوئی ان دو رکعتوں کو پڑھنا چاہے تو کھڑا ہو کر پڑھے۔اگرچہ أولیٰ (بہتر) نہ پڑھنا ہے، تاکہ وِتر رات کی آخری نماز بن سکے۔ جس طرح کہ نص حدیث میں بصیغۂ أمر موجود ہے۔
’ اِجعَلُوا آخِرُ صَلٰوتِکُم بِاللَّیلِ وِترًا ‘(صحیح مسلم،بَابُ صَلَاةُ اللَّیلِ مَثنَی مَثنَی، وَالوِترُ رَکعَةٌ مِن آخِرِ اللَّیلِ،رقم:۷۵۱)، (سنن ابی داؤد،رقم:۱۴۳۸)
اصول فقہ کا قاعدہ ہے کہ ’’فعل‘‘ پر ’’أمر‘‘ مقدم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ فعل میں خاصہ(خصوصیت) کا احتمال ہوتا ہے، جب کہ ’’أمر‘‘ میں یہ شے نہیں۔( الاعتصام…! وِتر کے بعد دو رکعت پڑھنے میں علمائے اہلحدیث کا اختلاف ہے۔ بعض علماء تو اس موقف کے حامی ہیں جو حضرت مفتی صاحب( مولانا حافظ ثناء اﷲ مدنی)﷾ نے سطور بالا میں اختیار فرمایا ہے، کہ یہ دو رکعتیں نہ پڑھنا أولیٰ ہے۔ نیز اگر پڑھی جائیں تو کھڑے ہو کر پڑھی جائیں۔
دوسرا موقف علمائے اہلحدیث کا یہ ہے، کہ نبیﷺ سے چونکہ بسندِ صحیح، یہ ثابت ہے کہ آپﷺ نے وِتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھی ہیں۔ اس لیے آپﷺ کی متابعت میں یہ دو رکعت بیٹھ کر پڑھنا سنت ہے۔ اس میں پورا ثواب ملے گا۔ نیز یہ علماء وِتر کے بعد دو رکعت پڑھنے کو ’ اِجعَلُوا آخِرُ صَلٰوتِکُم بِاللَّیلِ وِترًا ‘ (صحیح مسلم،بَابُ صَلَاةُ اللَّیلِ مَثنَی مَثنَی، وَالوِترُ رَکعَةٌ مِن آخِرِ اللَّیلِ،رقم:۷۵۱، سنن ابی داؤد، رقم: ۱۴۳۸) (اپنی رات کی آخری نماز وِتر کو بناؤ ) کے معارض یا منافی نہیں سمجھتے، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ یہاں امر وجوب کے لیے نہیں، استحباب کے لیے ہے۔ اس طرح دونوں کے درمیان کوئی تعارض نہیں رہتا(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ! مرعاۃ المفاتیح،۲۰۴/۲، طبع قدیم)
دونوں موقف اپنے اپنے لیے شرعی بنیاد رکھتے ہیں، اس لیے اس میں تشدد کی بجائے توسع اختیار کرنے کی ضرورت ہے، کہ جو جس موقف پر عمل کرے، جواز کی گنجائش ہے۔ (ص۔ی)(۱۷۔اپریل ۱۹۹۲ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب