سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(369) تکبیر کے لیے مؤذن سے اجازت لینا

  • 24379
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2408

سوال

(369) تکبیر کے لیے مؤذن سے اجازت لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نماز کی تکبیر کے لیے مؤذن سے اجازت لینا ضروری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام حازمی اپنی کتاب’’ الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ‘‘ میں رقمطراز ہیں:

’ وَاتَّفَقَ أَهلُ العِلمِ فِی الرَّجُلِ یُؤَذِّنُ، وَ یُقِیمُ غَیرُهٗ، أَنَّ ذَالِكَ جَائِزٌ وَاختَلَفُوا فِی الأَولَویَّةِ۔ فَقَالَ أَکثَرُهُمُ: لَا فَرقَ۔ وَالاَمرُ مُتَّسَعٌ ، وَ مِمَّن رَأَی مَالِكٌ، وَ أَکثَرُ أَهلِ الحِجَازِ، وَ أَبُو حَنِیفَةَ، وَ أَکثَرُ أَهلِ الکُوفَةِ ، وَ أَبُو ثَورٍ۔ وَ قَالَ بَعضُ العُلَمَاءِ مَن أَذَّنَ فَهُوَ یُقِیمُ قَالَ الشَّافِعِیُّ: وَ اِذَا أَذَّنَ الرَّجُلُ اَحبَبتُ أَن یَّتَوَلَّی الاِقَامَة ‘

یعنی اہلِ علم کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک آدمی اذان کہے، اور دوسرا اقامت، تو یہ جائز ہے۔ البتہ اَولَوِیّت (یعنی افضلیت) میں ان کا اختلاف ہے۔ ان میں سے اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ معاملہ میں وسعت ہے۔ ان لوگوں میں سے امام مالک اور اکثر اہل حجاز، امام ابوحنیفہ، اور اکثر اہل کوفہ اور امام ابو ثورs ہیں اور بعض علماء نے کہا ہے کہ جو اذان دے وہی اقامت کہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ  نے کہا ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ جو آدمی اذان کہے وہی اقامت کہے۔ لیکن امام ترمذی نے یہ مسلک اکثراہلِ علم کی طرف منسوب کیا ہے کہ جو اذان دے وہی اقامت کہے۔

اور صاحب ’’سبل السلام‘‘ حدیث میں’مَن اَذَّنَ فَهُوَ یُقِیمُ ‘‘ پر بناء رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

’ وَالحَدِیثُ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الاِقَامَةَ حَقٌّ لِّمَن أَذَّنَ فَلَا تَصِحُّ مِن غَیرِهٖ  ‘

’’حدیث ہذا اس بات کی دلیل ہے کہ اقامت اس کا حق ہے، جو اذان کہے، دوسرے کی درست نہیں۔‘‘

اور علامہ سندھی رحمہ اللہ  نے ابن ماجہ کے حاشیہ پر کہا ہے: کہ اس حدیث کی سند میں افریقی(عبد الرحمن بن زیاد بن انعم) ہے۔ اگرچہ یحییٰ بن قطان اور امام احمد; نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ  نے ’’مقارب الحدیث‘‘ کہہ کر اس کو تقویت پہنچائی ہے۔ نیز ابوداؤد اور منذری نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے جو اس کے صالح للاحتجاج (یعنی قابلِ حجت)ہونے کی دلیل ہے  اور امام شوکانی رحمہ اللہ  نے ’’السیل الجرار‘‘ میں کہا ہے۔ حدیث’’مَن اَذَّنَ فَهُوَ یُقِیمُ ‘‘ پر کلام صرف اس اعتبار سے ہے کہ اس کی سند میں راوی عبد الرحمن بن زیاد افریقی ہے ۔ اہلِ علم کی ایک جماعت نے اس کی توثیق کی ہے ۔ اس میں ایسی کوئی جرح نہیں جس کی وجہ سے اس کی حدیث کو قابلِ حجت نہ سمجھا جائے اور صاحب’’ المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں:

مؤذن اذان کا زیادہ حقدار ہے۔ دوسرا اقامت نہ کہے مگر کسی ضرورت کی بناء پر ، جس طرح کہ عبداﷲ بن زید(جنھوں نے خواب میں اذان دیکھی تھی) کے قصہ میں ہے اور اس حدیث میں دلیل ہے کہ اقامت اسی کا حق ہے جو اذان دے۔ دوسرے کا اقامت کہنا مکروہ ہے۔(۴۲۶/۱)

اور صاحب’’المنتقیٰ‘‘ نے اس پر تبویب قائم کی ہے:’’بَابُ مَن اَذَّنَ فَهُوَ یُقِیمُ ‘‘ جو شخص اذان کہے وہی اقامت کہے اور ابوداؤد نے یوں تبویب قائم کی ہے۔’’بَابُ الرَّجُلِ یُؤَذِّنُ وَ یُقِیمُ آخَرُ‘‘ یعنی ایک شخص اذان کہے اور دوسرا اقامت ، پھر اس کے تحت دونوں قسم کی روایات کو بیان کیا ہے۔ اس سے  غالباً وسعت کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ بہر صورت جملہ دلائل کے پیشِ نظر یہ کہنا ممکن ہے کہ اقامت کا اصلی استحقاق (حق) مؤذن کو حاصل ہے اور اگر کوئی دوسرا بھی کہہ دے تو مع الکراہت درست ہے اور اجازت کی صورت میں بلاکراہت درست ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:336

محدث فتویٰ

تبصرے