سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(55) دورِ نبوی میں لکھا جانے والا قرآنی نسخہ کہاں ہے؟

  • 23296
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-23
  • مشاہدات : 813

سوال

(55) دورِ نبوی میں لکھا جانے والا قرآنی نسخہ کہاں ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ظہیرعلی اپنے ای میل میں لکھتےہیں:

یہ بات تومعلوم ہےکہ قرآن مجید کوحضرت ابوبکر﷜ کےحکم پرزید بن ثابت ﷜ نےجمع کیاتھا۔ سوال یہ ہےکہ قرآن مجید کاوہ مسودہ جودور نبوت میں کپڑے،ہڈیوں اوردوسری چیزوں پرلکھا گیاتھا، کیاوہ حضرت عائشہ ؓ کےگھر میں محفوظ کرلیا گیاتھا؟ جبکہ یہ بات بھی معلوم ہےکہ رسول اللہﷺ  نزول وحی کےبعد کسی ایک کاتب کابُلا کرنازل شدہ آیات لکھوادیا کرتےتھے اورپھران سےسُن بھی لیا کرتےتھے تاکہ غلطی کاامکان نہ رہے۔ توپھر کیااس کایہ مطلب ہےکہ کاتبینِ وحی جس چیز  پروحی لکھا کرتے تھے وہ اپنےساتھ لےجاتے تھے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں اپنے علم کی حد تک آپ کےسوال کاقطعی جواب تونہیں دےسکتا لیکن مصری مصنف ابراہیم الابیاری کی کتاب تاریخ القرآن کےحوالے سے کچھ عرض کرتاہوں۔

وہ تمام مواد جس پرقرآن کی چند آیات یامکمل سورت لکھی جاتی تھی،مختلف کاتبین وحی کےپاس تھااور دورصدیقی میں زیدبن ثابت﷜ نےمصحف تیا رکرنے میں انہیں کعب، حضرت عبداللہ بن مسعود اورعبداللہ بن عباس﷢ کی طرف منسوب ہیں۔ ان میں سورتوں کی تعداد یاترتیب کےبارے میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا تھا۔ مثال کےطور پرعبداللہ بن مسعود﷜ کےمصحف میں سورہ فاتحہ اورآخری دوسورتیں (معوذتین ) درج نہیں تھیں۔

مصحف علی سات حصوں میں تقسیم تھا۔ ہرحصے میں سورتوں کی ترتیب مصحف کی موجودہ ترتیب سےمختلف تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ زید بن ثابت ﷜ نےمکمل مصحف(جسے مصحف الاُمّ کہا گیا) تیار کرنےکےبعد یہ سارا مواد اُن چند لوگوں کاحوالہ دیا ہے جنہوں نے نےان چارمصاحف کومذکورہ صحابہ کونسل میں سے چندخاندانوں میں دیکھا ہے۔

سیدنا علی﷜ کی نسل میں ایک خاندان مصحف علی کاامین تھا۔ حضرت عثمان ﷜ کےدور میں مصحف الاُمّ کی بنیاد پرمزید سات نسخے تیار کئےگئے تھےجن میں ’’سات حروف،، والی حدیث کی بنیاد پرقرآن کریم کوسات قراءتوں کےمطابق پڑھنے میں کج فہمی کی بنا پر پیدا ہونے والے اختلاف کوبخوبی ختم کردیا گیاتھا۔ یہ سات نسخے بشمول مدینہ منورہ، سات شہروں میں بھیجے گئے تھے۔ گوحضرت عثمان﷜ نےباقی دوسرے مصاحف کوجلا دیا تھا تاکہ کسی قسم کااشتباہ پیدا نہ ہوسکے لیکن معلوم ہوتا ہےکہ پھر بھی کئی صحابہ سےمنسوب چند نسخے نسل درنسل منتقل ہوتے رہےتھے، جن میں ابوموسیٰ اشعری اوردوسرے صحابہ سےمنسوب مصاحف شامل ہیں۔ اختلاف مصاحف کے موضوع پرمشتمل بہت سی کتابیں انہی مصاحف کی روشنی میں تحریر کی گئیں، جن میں سے ایک عبداللہ بن ابوداؤد کی کتاب المصاحف ہے، جوبہت سارے مستشرقین کےلیے قرآن کی آیات میں اختلاف ظاہر کرنے کی غرض سےبنیاد بنی رہی ہے۔( عبداللہ بن اوبوداؤد کی ثقاہت محل نظر ہےجس کی بنا پر بعض محققین نےکتاب المصاحف کومعتبر قرار نہیں دیا۔ اگر ابن ابوداؤد کی ثقاہت تسلیم کربھی  لی جائے تب بھی ان کی یہ کتاب ایسی نہیں کہ اس پر آنکھ بند کرکے یقین کیاجاسکے کیونکہ اس میں موضوع اورضعیف روایات بھی پائی جاتی ہیں۔مستشرقین نےجن روایات سےآیات قرآنیہ میں صحابہ کےمابین پائے جانےوالے اختلاف کوثابت کرنے کی کوشش کی یہ موضوع اورضعیف روایات ہی کی قبیل سےتعلق رکھتی ہیں۔ (ناصر) ۔

خیال رہےکہ مصحف عائشہ کےنام سےکسی مصحف کاوجود نہ تھا۔( ڈاکٹر صاحب سے یہاں تسامح ہواہے۔ مصحف عائشہ کےنام سےایک مصحف کاوجود رہاہےجس کا تذکرہ بعض صحیح روایات میں موجودہے۔دیکھیے (مسند اسحاق بن راہویہ: 3؍ 1042 ، ومصنف عبدالرزاق:1؍578،وتفسیرطبری :5؍175 ، حضرت عائشہ ؓ کےلیے اس مصحف کوان کےغلام ابویونس ﷫ نےکتابت کیاتھا۔دیکھیے(صحیح مسلم ،المساجد، باب الدلیل لمن قال: الصلاۃ لوسطیٰ ھی صلاۃالعصر،حدیث :629 )ہاں ! اگر ڈاکٹر صاحب کےاس کلام سے مرادیہ ہوکہ دورنبوت میں رسول اللہﷺ کی نگرانی میں لکھا جانےوالا مصحف عائشہ ؓ کےپاس نہیں تھا تویہ بات صحیح ہے۔(ناصر)۔

جونسخہ زید بن ثابت نے (دور صدیقی میں) تیار کیا تھا وہ حضرت عائشہؓ کےپاس محفوظ رہا۔

حضرت عمر﷜ کےدورخلافت میں وہ حضرت حفصہ ؓسےاس نسخے کی تحویل کامطالبہ کیا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ان کی وفات کےبعد ہی مروان ﷜ اس نسخے کولینے میں کامیاب ہوا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


تبصرے