السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔ زید ایک پسر مسمی بکر اور ایک دختر مسماۃ زینب رکھتا تھا اور اکثر جائیداد وغیرہ منقولہ بنام بکر اورزینب بطور اسم فرضی کے خرید کی حیات زید میں زینب نے قضا کی پس اس جائیداد غیر منقولہ فرضی میں حق زینب کا ہے یا نہیں؟
2۔جو جائیداد منقولہ زینب کی ہے اس میں زینب نے ایک شوہر مسمی خالد اور دو دختر مسماۃ ہندو و حفصہ اور یک پدر مسمی زید اور ایک برادر مسمی بکر وارث چھوڑے ۔ پس تقسیم متروکہ زینب کی ازروئے شرع شیرف کیونکر ہوگی؟
3۔دین مہر زینب کا نہ خالد نے ادا کیا نہ خالد کو زینب نے معاف کیا اس صورت میں زیدپدر زینب مستحق دین مہر کا ہے یا نہیں؟
4۔ ابتدائے زمانہ عقد زینب و خالد سے تادم ممات زینب زید پدر زینب پرورش کنندہ زینب و خالد کا رہا۔ خالد کبھی کفیل نان و نفقہ نہ ہوا حتی تجہیز و تکفین بھی زینب کی زید پدر زینب نے کی اس صورت میں ولی جائز ہندہ و حفصہ صبیہ زینب کاکون ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔اگر زید نے جائیداد مذکورہ نج کے زرثمن سے خرید کی تھی اور زینب کو اس کے نام کی جائیداد پر قابض اور دخیل نہیں کیا تھا یا کیا لیکن ورثہ زینب کو جائیداد مذکورہ کی خریداری کا بطور اسم فرضی ہونا تسلیم ہے تو اس صورت میں جائیداد مذکورہ میں زینب کا کچھ حق نہیں ہے اور اگر جائیداد مذکورہ زینب کے زرثمن سے خریدکی تھی یا نج کے زرثمن سے خرید کی تھی اور زینب کا کچھ حق نہیں ہے اور اگر جائیداد مذکورہ زینب کے زرثمن سے خرید کی تھی یا نج کے زرثمن سے خرید کی تھی اور زینب کو اس پر قابض اور دخیل نہیں کردیا تھا لیکن ورثہ زینب اس کی خریداری بطور اسم فرضی تسلیم نہیں کرتے اور نہ ان کے مقابلے میں باضابطہ ثبوت اس کے باسم فرضی ہونے کا دیا گیا تو اس صورت میں جائیداد مذکورہ میں زینب کا حق ہے اور وہ جائیداد بعد ممات زینب کے زینب کا ترکہ ہے جس کی تقسیم کا طریقہ سوال نمبر(1)کے جواب میں مذکور ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ ایک کاروائی جو باسم فرضی ہوتی ہے وہ شرعاً ہزل کہلاتی ہے اور ہزل تین چیزوں (نکاح ،طلاق، رجعت) میں شرعاً جد،یعنی سچ مچ کی کاروائی متصور ہوتی ہے۔
"ثلاث جدهن جد‘وهذلهن جد‘النكاح والطلاق والرجعة"[1](اخرجہ ابو داؤد ابن ماجہ والترمذي )
یعنی اگر کوئی شخص نکاح یا طلاق یا رجعت ہزلاً کرے تو وہ شرعاً سچ مچ کا نکاح یا طلاق یا رجعت سمجھا جائے گا۔
بیع یا ہبہ میں مثلاً ہزلاًکرے تو وہ ہزل ہی متصور ہو گا سچ مچ یا ہبہ متصور نہ ہو گا ۔ پس صورت مذکورہ میں اگر ورثہ زینب اس خریداری کو بطور اسم فرضی تسلیم کرلیں تو ضرور ہزل ہی متصور ہوگی ورنہ ہزل ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے جب تک کہ ان کے مقابلے میں یا ضابطہ ثبوت اس کے باسم فرضی ہونے کا نہ دیا جائے۔
2۔ترکہ زینب (بعد تقديم ماتقدم علی الارث ورفع موانعه) تیرہ سہام پر تقسیم ہو گا اس میں سے تین سہام شوہر (خالد ) کو اور چارچار سہام ہر ایک دختر ان (ہندہ حفصہ )کو اور دو سہام پدر (زید ) کو ملے گا۔
3۔دین مہر زینب کا جو اس کے شوہر (خالد) کے ذمہ باقی ہے وہ بھی زینب کا ترکہ ہے جس کی تقسیم کا طریقہ وہی ہے جو سوال نمبر(2)کے جواب میں مذکور ہوا یعنی تیرہ سہام پر تقسیم ہوکر اس میں سے تین سہام شوہر کو اور چار چار ہر ایک دختر کو اور دو سہام پدر کو ملے گا اب دختران اور پدر چاہیں اپنااپنا حق شوہر سے وصول کریں یا معاف کردیں واللہ اعلم بالصواب۔
4۔ اس صورت میں ولی جائز ہندہ اور حفصہ دختران زینب کا ان کا پدر (خالد ) ہے پدر کے رہتے ہوئے نانا ولی جائز نہیں ہے اگر چہ بوجہ نہ ادا کرنے حق پرورش اولاد کے گنہگار قابل مواخذ اخروی ہوا ور نانا بوجہ اس حسن سلوک کے مثاب و ماجورہو۔
[1] ۔سنن ابي داؤد رقم الحدیث (2194)سنن الترمذي رقم الحدیث(1184)سنن ابن ماجه رقم الحدیث (2039)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب