السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک ہی نماز کی دوسری جماعت کروانے کے لیے دوبارہ تکبیر کہنی چاہیے یا پہلی تکبیر کافی ہے؟کہتے ہیں کہ دوبارہ اگر اذان کہی جائے تو پھر دوبارہ تکبیر نہیں کہنی چاہیے۔کیا یہ صحیح ہے؟صحیح صورت حال سے آگاہ فرمائیں۔(ظفراقبال)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے کی کوئی مرفوع صریح حدیث میرے میں علم نہیں ہے البتہ علماء کرام کے آثار ضرور موجود ہیں۔
سیدناانس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مسجد میں آکر جہاں لوگ نماز(باجماعت) پڑھ چکے تھے ،دوبارہ اذان واقامت کہلوائی اور نماز پڑھی۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 1/221 ح 2298 والسنن الکبریٰ للبیہقی 1/407،3/70 تغلیق التعلیق 2/676 ،677 وقال:ھذااسناد صحیح موقوف"اور صحیح بخاری کتاب الاذان باب فصل صلوٰۃالجماعۃ قبل ح645 تعلیقاً)
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس سے دوبارہ اذان واقامت کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر میں اسود اور علقمہ(تابعین) کو نماز پڑھائی تو انھیں اذان یا اقامت کا حکم نہیں دیا۔
(صحیح مسلم کتاب المساجد باب الندب الی وضع الایدی علی الرکب فی الرکوع ح534)
یعنی یہ باجماعت نماز بغیر اذان واقامت کے پڑھی گئی تھی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"إذا كنت في قرية يؤذّن فيه ويقام أجزأك ذلك"
اگرتم کسی گاؤں میں ہو جس میں اذان واقامت ہوتی ہوتو تمہارے لیے وہی کافی ہے۔(کتاب المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان الفارسی 2/209 وسندہ صحیح السنن الکبری للبیہقی 1/406)
جہاں اقامت ہوجاتی وہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسری اقامت نہیں کہتے تھے۔
کتاب المعرفۃ والتاریخ 2/209 وسندہ حسن عبداللہ بن واقد بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب وثقہ مسلم وابن حبان والحاکم 2/278،248 وذہبی والبیہقی 1/406 فحدیثہ لا ینزل عن درجۃ الحسن)
لہذا معلوم ہوا کہ دونوں طرح جائز ہے۔اگرفتنے وفساد کااندیشہ نہ ہوتو دوسری مرتبہ بھی(بغیرلاؤڈاسپیکر کے)اذان واقامت کہنا بہتر ہے۔واللہ اعلم۔(شہادت ،جولائی 2003ءاکتوبر 2000ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب