سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(35) رافضیت سے متعلق چند روایات کی تحقیق

  • 20928
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4263

سوال

(35) رافضیت سے متعلق چند روایات کی تحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مختلف علماء سےدرج ذیل احادیث سنی ہیں،لیکن علماء نے ان کاکوئی حوالہ نہیں دیا۔اور یہ علماء فوت ہوچکے ہیں۔مہربانی فرماکر ان احادیث  کی تخریج سے آگاہ کریں اور یہ بھی واضح کریں کہ یہ احادیث صحیح ہیں یا نہیں؟احادیث درج ذیل ہیں:(مفہوم)

1۔"آخر زمانہ میں ایک قوم آئے گی جس جا نام رافضی ہوگا،میرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  پر وہ  تبرا کریں گے،ان میں سے کوئی بیمار ہوجائے تو پوچھئے مت،مرجائے جنازہ مت پڑھیے،تمہارا  مرجائے اپنے جنازے میں انھیں شریک نہ کیجئے"

2۔جب فتنے اور بدعات عام ہوجائیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  پر تبرا کیاجائے تو عالم کو چاہیے کہ ا پنے علم کو ظاہر کرے۔

3۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو کہا:اے عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حق بات کہہ خواہ لوگوں کے دل پر وہ بری گزرے"

4۔جس قوم میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  موجود ہوں کسی اورکےلیے جائز نہیں کہ وہ امامت کرائے۔(عبداللہ طاہر،اسلام آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رافضی اس شخص کو کہتے ہیں جو"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی مذمت اور کردار کشی کو جائز سمجھتا ہے "(القاموس الوحید ص 648)

حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 748ھ)  فرماتے ہیں:

"وَمَنْ أَبغضَ الشَّيْخَيْنِ وَاعتقدَ صِحَّةَ إِمَامَتِهِمَا فَهُوَ رَافضيٌّ مَقِيتٌ، وَمَنْ سَبَّهُمَا وَاعتقدَ أَنَّهُمَا لَيْسَا بِإِمَامَيْ هُدَى فَهُوَ مِنْ غُلاَةِ الرَّافِضَةِ"

"جو شخص شیخین (ابوبکروعمر رضوان اللہ عنھم اجمعین ) سے بُغض رکھے اور انھیں خلیفہ برحق بھی سمجھے تو یہ شخص رافضی،قابل نفرت ہےاور جو شخص انھیں(ابوبکروعمر رضوان اللہ عنھم اجمعین ) خلیفہ برحق بھی نہ سمجھے اور بُرا کہتے تو یہ شخص غالی رافضیوں میں سے ہے۔(سیر اعلام النبلاء:16/458ترجمۃ الدارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ )

حافظ ابن حجر العسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 852ھ)  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"فمن قدمه على أبي بكر وعمر فهو غال في تشيعه ويطلق عليه رافضي"

"جو شخص(سیدنا) علی کو (سیدنا) ابوبکرو(سیدنا) عمر پر(افضلیت میں) مقدم کردے تو وہ شخص غالی شیعہ ہے اور اس پر راضی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔(ہدی الساری مقدمہ فتح الباری ص 459)

اثنا عشری جعفری فرقہ،رافضی فرقہ ہے ۔

دلیل نمبر1۔غلام حسین نجفی رافضی نے اپنی کتاب"جاگیر فدک"میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بارے میں لکھا ہے کہ "جناب ابوبکر اور مرزا صاحب میں کوئی فرق نہیں"(ص 509)

اس نجفی بیان میں صدیق اکبر کو مرزا غلام احمد قادیانی  کے برابر قراردیا گیا ہے۔(العیاذ باللہ)

دلیل نمبر 2:محمد الرضی الرضوی الرافضی کہتا ہے:

"أما براءتنا من الشيخين فذاك من ضرورة ديننا....."الخ

"اور شیخین (ابوبکروعمر رضوان اللہ عنھم اجمعین  ناقل)سے برات(تبرا) کرناہمارے دین کی ضرورت میں سے ہے۔(کذبواعلی الشیعۃ :ص 49)

روافض کے بارے میں مروی شدہ مرفوع احادیث کی تحقیق درج ذیل ہے۔

1۔ "بشر بن عبدالله عن انس رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال:وانه سيكون في آخرالزمان قوم يبغضونهم فلا تواكلوهم ولاتشار كوهم ولاتصلواعليهم ولاتصلوا معهم.....وهذا خبر بَاطِل لَا أصل لَهُ "

"آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جوان(ابوبکر وعمر وعثمان وعلی رضوان اللہ عنھم اجمعین ) سے بُغض رکھیں گے،تم ان کے ساتھ نہ کھاناکھاؤ،نہ شریک کرو،نہ ان کاجنازہ پڑھو اور نہ ان کے ساتھ(مل کر) نماز پڑھو۔۔۔یہ روایت باطل ہے ،اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔(کتاب المجروحین لابن حبان:1/187)

حافظ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس روایت کو سخت منکر قرار دیا۔(میزان الاعتدال 1/32)

 بشیر القصیر کے بارے میں امام ابن حبان نے کہا:"منکر الحدیث جداً" یہ سخت منکر حدیثیں بیان کرنے والا ہے۔(المجروحین :ص187)

2۔ "قال علي بن أبي طالب رضي الله عنه: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم( يَظْهَرُ فِي أُمَّتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يُسَمَّوْنَ الرَّافِضَةَ يَرْفُضُونَ الإِسْلامَ)"

"آخری زمانے میں ایک قوم  ظاہر ہوگی جس کا نام  رافضی ہوگا یہ لوگ اسلام کو چھوڑ دیں گے۔(مسند احمد 1/103 ح 808 ،روایۃ عبداللہ بن احمد عن غیرابیہ)

یہ روایت بلحاظ سندضعیف ہے۔

ابوعقیل یحییٰ بن المتوکل ضعیف ہے۔(تقریب التہذیب :7233)

کثیر بن اسماعیل النواء ضعیف ہے۔(التقریب:5605)

حافظ ابن  الجوزی نے فرمایا:

"هذا الحديث لا يصح عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "

"یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سےصحیح(ثابت) نہیں ہے۔(العلل لمتناھیہ 1/157 ح 252)

3۔ "عمران بن زيد:حدثنا الحجاج بن تميم عن ميمون بن مهران عن ابن عباس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يكون في آخر الزمان قوم ينبزون الرافضة، يرفضون الإسلام ويلفظونه، اقتلوهم فإنهم مشركون"

"آخری زمانے میں ایک قوم ہوگی جسے رافضی کہا جائے گا یہ اسلام کو اتار  پھینکیں گے،انھیں قتل کرو کیوں کہ یہ مشرک ہیں۔

(مسند عبد بن حمید :698،دوسرا نسخہ 697 والمسند الجامع 9/596ح7082 واللفظ لہ)

یہ روایت ضعیف ہے،عمران بن زید :لین(یعنی ضعیف) ہے۔(التقریب :5156)

حجاج بن تمیم :ضعیف ہے۔(التقریب :1120)

تنبیہ:۔

ان رایوں پر محدثین کرام کی جرح تفصیلاً تہذیب الکمال ،تہذیب التہذیب اسر میزان الاعتدال وغیرہ میں موجود ہے۔تقریب کاحوالہ بطور اختصار اور بطور خلاصہ واعدل الاقول دیا جاتا ہے۔والحمدللہ

4۔"عصام بن الحكم العكبري :ناجميع بن عمير البصري حدثنا سوار الهمداني عن محمد بن جحادة عن الشعبي عن علي قال قل رسول الله صلي الله عليه وسلم:إنك وشيعتك في الجنة وسيأتي قوم لهم نبز يقال لهم الرافضة فإذا لقيتموهم فاقتلوهم فإنهم مشركون"

"(اے علی!) تم اور تمہارے شیعہ جنت میں جائیں گے اور ایک قوم آئے گی جن کا لقب رافضی ہوگا ،جب تم انھیں ملوتو انھیں قتل کرو،کیونکہ یہ مشرک ہیں۔(حلیۃالاولیاء 4/329) وتاریخ بغدادمختصراً 12/289 ت 6731،والعلل المتناھیہ 1/158،159 ح254،واللفظ لہ)

یہ روایت باطل ومردود ہے،سوار بن مصعب الہمدانی :منکر الحدیث(منکر حدیثیں بیان کرنے والا) ہے۔(کتاب الضعفاء للامام البخاری بتحقیقی:158)

امام یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"وقد رايته وليس بشئي كان يجئينا الي منزلنا"

"میں نے اسے دیکھا ہے ،یہ کچھ چیز نہیں ہے ،یہ ہمارے ڈیرے پر آتا تھا۔(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری:2068)

اس پر شدید جروح کے لیے دیکھئے لسان المیزان(3/128،129ت4058)

جمیع بن عمیر البصری:ضعیف ہے۔(التقریب:967)

عصام بن الحکم کی توثیق نامعلوم ہے۔

تنبیہ:۔

جمیع بن عمیر کو جمیع بن عمر بھی کہا جاتا ہے۔

5۔ "تليد بن سليمان ابو ادريس المحاربي عن ابي الحجاف داود بن ابي عوف عن محمد بن عمرو الهاشمي عن زينب بنت علي عن فاطمة بنت رسول الله صلي الله عليه وسلم قالت: نظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى علي فقال هذا في الجنة وإن من شيعته قوم يعطون الإسلام فيلفظونه له نبز يسمون الرافضة فمن لقيهم فليقتلهم فإنهم مشركون "

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے علی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کی طرف دیکھ کر فرمایا:یہ جنتی ہے اور اس کے شیعہ میں سے ایک قوم (ایسی) ہوگی جنھیں اسلام دیا جائے گاتو وہ اسلام کو پھینک دیں گے،ان کا(صفاتی) نام رافضی ہوگا،جو شخص انھیں پائے تو قتل کردے کیونکہ یہ مشرک ہیں۔

(کتاب المجروحین لابن حبان:1/205 واللفظ لہ ،العلل المتناہیہ:1/159 ح:255ومسند ابی یعلی بتحقیق الشیخ الاثری 6/165 ح6716 وتحقیق حسین سلیم اسد 2/12/116۔117 ح6749 ،ونسخہ مخطوطہ ص 135،تاریخ دمشق لابن عساکر 73/130،موضح اوھام الجمع والتفریق للخطیب1/43)

یہ روایت سخت ضعیف اور باطل ہے۔تلید بن سلیمان پر جمہور محدثین نے شدید جرح کی ہے لہذا بعض محدثین کی توثیق مردود ہے۔

امام یحییٰ بن معین(متوفی 233ھ)  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"وهذا يحيى بن معين يقول: "كلّ من شتم عثمان أو طلحة أو أحداً من أصحاب رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) دجّال لا يكتَب عنه، وعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين "

" تلید کذاب ہے،عثمان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو گالیاں دیتا تھا۔اور ہر وہ شخص جو عثمان یا طلحہ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے کسی ایک صحابی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو گالی دے تو وہ شخص دجال ہے اس سے(کچھ بھی) نہ لکھا جائے اور ایسے شخص پر اللہ،فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔(تاریخ ابن معین :روایۃ الدوری:2670)

تنبیہ (1):۔

مسند ابی یعلیٰ میں قدیم زمانے سے یہ غلطی چلی آرہی ہے کہ ابوادریس(تلید بن سلیمان) کے بجائے ابن ادریس لکھا ہوا ہے جو کہ یقیناً  غلط ہے۔

حافظ الشام ابن عساکر مسند ابی یعلیٰ کے نسخے  کی  غلطی پر تنبیہ فرماتے ہیں:

"كذا قال وانما هو ابو ادريس وهو تليد بن سليمان "

راوی نے اسی طرح کہا ہے(!) حالانکہ یہ راوی(صرف اور صرف) ابو ادریس تلید بن سلیمان ہے۔(تاریخ دمشق 73/131)

محقق جلیل القدر مولانا ارشادالحق اثری نے بھی اس قدیم  غلطی کی نشاندہی کرکے لکھ دیاہے۔کہ ابن ادریس مصحف (تصحیف شدہ) ہے۔(مسند ابی یعلیٰ 6/165 ح6716)

حسین سلیم اسد نے لکھا ہے:

"إسناده صحيح إن كانت زينب [سمعت] من أمها، وإلا فهو منقطع"

یعنی اس کی سند صحیح ہے،اگر زینب نے اپنی ماں(فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) سے سنا ہے ورنہ منقطع ہے۔(مسند ابی یعلیٰ 12/117 ح6750 حاشیہ:4)

ابوادریس(تلید) کی سند کو ابن ادریس(عبداللہ بن ادریس  رحمۃ اللہ علیہ )سمجھ کر اس روایت کو صحیح قرار دیناحسین الدارانی جیسے لوگوں کاہی کام ہے۔

تنبیہ(2):۔

ابوالحجاف دادو بن ابی عوف کا ذکر تلید ابوادریس کے استادوں میں تو موجود ہے۔(دیکھئے تہذیب الکمال وغیرہ)

لیکن عبداللہ بن ادریس کے استادوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔خلاصہ یہ کہ تلید ابوادریس کی بیان کردہ یہ روایت باطل ہے،اس کے بارے میں امام ابن الجوزی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"هذا لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم"

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے صحیح(ثابت) نہیں ہے۔(العلل المتناہیہ 1/159ح255)

6۔ "حجاج بن تميم عن ميمون بن مهران عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده علي ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : يا علي ! سيكون في أمتنا قوم ينتحلون حبنا أهل البيت ، لهم نبز ، يسمون الرافضة ، فاقتلوهم فإنهم مشركون"

"اے علی(بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) عنقریب میری امت میں سے ایک قوم ہوگی جو ہمارے اہل بیت کی محبت کادعویٰ کرے گی،ان لوگوں کا لقب راضی ہوگا،پس انھیں قتل کرویہ مشرک ہیں۔(المعجم الکبیر للطبرانی 12/242ح12998 وحلیۃ الاولیاء 4/95 مسند ابی یعلیٰ 4/459 ح2586 والسنۃ لابن ابی عاصم ح981)

یہ روایت ضعیف ہے ،حجاج بن تمیم :ضعیف ہے جیسا کہ روایت:3 کی تحقیق میں گزر چکا ہے۔اس ضعیف راوی کے باوجود علامہ ہشیمی لکھتے ہیں:

"واسنادہ حسن"اور اس کی سند حسن ہے۔(مجمع الزوائد 10/22)

ہشیمی کا یہ قول جمہور محدثین کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

7۔ "الفضل بن غائم:حدثنا سوار بن مصعب عن عطية العوفي عن ابي سعيد الخدري عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَتْ لَيْلَتِي مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ عِنْدِي فَأَتَتْهُ فَاطِمَةُ وَتَبِعَهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَلِيُّ أَنْتَ وَأَصْحَابُكَ فِي الْجَنَّةِ, وَشِيعَتُكَ فِي الْجَنَّةِ, إِلَّا أَنَّهُ مِمَّنْ يَزْعُمُ أَنَّهُ يُحِبُّكَ أَقْوَامٌ يُصَغِّرُونُ الْإِسْلَامَ ثُمَّ يَلْفِظُونَهُ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ, يُقَالُ لَهُمُ: الرَّافِضَةُ. فَإِنْ أَدْرَكْتَهُمْ فَجَاهِدْهُمْ فَإِنَّهُمْ مُشْرِكُونَ. قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْعَلَامَةُ فِيهِمْ؟ قَالَ: لَا يَشْهَدُونَ جُمُعَةً وَلَا جَمَاعَةً، وَيَطْعَنُونَ عَلَى السَّلَفِ الْأَوَّلِ"

(اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) تم اور تمہارے ساتھی جنتی ہیں،تم اورتمہارے شیعہ جنتی ہیں،سوائے اس کے کہ ایک قوم تجھ سے محبت(کادعویٰ) کرے گی،یہ اسلام کازبانی دعویٰ کریں گے،قرآن پڑھیں گے جوان کے حلق سے نیچے نہیں اُترےگا،ان کالقب رافضی ہوگا،جب تم انھیں پاؤ تو ان سے جہاد کرو کیونکہ یہ مشرک ہیں۔(سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا) میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کی علامت کیا ہوگی؟آپ نے فرمایا:جمعہ اور جماعت ترک کردیں گے اور سلف اول(یعنی صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین ) پر  طعن کریں گے۔

(تاریخ بغداد للخطیب :12/358ت6790 الاوسط للطبرانی :7/315،316 ح6601)

یہ روایت سخت ضعیف ،باطل اور مردود ہے۔

فضل بن غانم کے بارے میں امام ابن معین نے فرمایا:"ضعیف لیس بشئی"

یہ ضعیف ہے،کچھ چیز نہیں ہے۔(سوالات ابن الجنید:11)

سوار بن مصعب :منکر الحدیث ہے جیسا کہ روایت:4 کے تحت گزرچکاہے۔

عطیہ العوفی کو جمہور محدثین نے ضعیف قراردیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا:

"ضعيف الحفظ مشهور بالتدليس القبيح"

حافظے کی وجہ سے ضعیف ہے اور گندی تدلیس کرنے کے ساتھ مشہور ہے۔(طبقات المدلسین بتحقیقی 122/4)

8۔ "حدثنا محمد بن علي بن ميمون، حدثنا أبو سعيد محمد بن أسعد التغلبي، حدثنا عبثر بن القاسم أبو زبيد، عن حصين بن عبد الرحمن، عن أبي عبد الرحمن السلمي، عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "سيأتي بعدي قوم لهم نبز يقال لهم الرافضة فإذا لقيتموهم فاقتلوهم فإنهم مشركون" قلت: يا رسول الله ما العلامة فيهم؟ قال: "يقرضونك بما ليس فيك ويطعنون على أصحابي ويشتمونهم".

"میرے بعد ایک قوم آئے گی جس کا لقب رافضی(رافضہ) ہوگا،جب تم انھیں پاؤ توانھیں قتل کرو،بے شک وہ مشرک ہیں،میں(علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے پوچھا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کی (نشانی)کیا ہے؟فرمایا:تیرے بارے میں ایسی باتیں کہیں گے جو تجھ میں نہیں ہیں اور میرے صحابہ پر طعن وتشنیع کریں گے۔(کتاب السنہ لابن ابی عاصم :2/672ح979)

یہ روایت ضعیف ہے ،محمد بن اسعد التغلبی :لین(یعنی ضعیف) ہے۔(التقریب:5726)

9۔ "عن فاطمة الكبرى، عن أسماء بنت عميس، عن أم سلمة قالت، كانت ليلتي؛ وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم عندي، فجاءت إلي فاطمة مسلمة، فتبعها علي، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم رأسه فقال: "أبشر يا علي أنت وأصحابك في الجنة، إلا إن ممن يزعم أنه يحبك قوم يرفضون الإسلام يلفظونه يقال لهم الرافضة، فإذا التقيتهم فجاهدهم فإنهم مشركون" قلت: يا رسول الله ما العلامة فيهم؟ قال: "لا يشهدون جمعة ولا جماعة، ويطعنون على السلف".

اے علی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )!تجھے خوشخبری ہو،تو اورتیرے ساتھی جنتی ہیں سوائے ان کے جو تیری محبت کے د عوے دار ہیں مگر اسلام کو دورپھینکنے والے ہیں،انھیں رافضی کہا جائے گا۔ان کالقب رافضی ہوگا،جب تم انھیں پاؤ تو ان سے جہاد کرو کیونکہ یہ مشرک ہیں۔(سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا) میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کی علامت کیا ہوگی؟آپ نے فرمایا:جمعہ اور جماعت ترک کردیں گے اور سلف اول(یعنی صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین ) پر  طعن کریں گے۔(کتاب السنہ:980)

یہ سندسخت ضعیف اور مردود ہے۔بکر بن خنیس جمہورمحدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔(دیکھئے تسہیل الحاجۃ فی تحقیق سنن ابن ماجہ:229،تحریر تقریب التتہذیب :739)

سوار منکر الحدیث(یعنی سخت ضعیف) ہے۔جیسا کہ روایت:4 کے تحت گزرچکا ہے۔

خلاصۃ ا لتحقیق:۔

رافضیوں کا نام لے کر،مذمت والی کوئی روایت بھی صحیح وثابت نہیں ہے،اس مفہوم کی دیگر بے اصل ،موضوع اور مردود روایات درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہیں۔

شرح اصول اعتقاد اہل السنہ للالکائی(8/1453۔1455) معالم التنزیل للبغوی(4/208 آخر سورۃ ا لفتح)کنزالعمال (11/324ح31635،31636)

امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"حَدَّثنا أبو بكر حَدَّثنا وكيع عن شُعْبة عَنْ أَبِي التياح عَنْ أَبِي السوار العدوي قال قال علي رضي الله عنه ليحبني قوم حتى يدخلوا النار في وليبغضني قوم حتى يدخلوا النار في بغضي"

"علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:ایک قوم(لوگوں کی جماعت) میرے ساتھ(اندھا دھند) محبت  کرے گی حتیٰ کہ وہ میری(افراط والی) محبت کی وجہ سے (جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی اور ایک قوم میرے ساتھ بغض کرے گی حتیٰ کہ وہ میرے بغض کی وجہ سے(جہنم کی) آگ میں داخل ہوگی۔

(کتاب فضائل الصحابہ 2/565ح952 واسنادہ صحیح،کتاب السنہ لابن ابی عاصم ح983 ن وسندہ صحیح)

امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"حَدَّثنا أبو بكر حَدَّثنا وكيع عن حماد بن نجيح عَنْ أَبِي التياح عَنْ أَبِي حيرة قال سمعت عليا يقول يهلك في رجلان مفرط في حبي ومفرط في بغضي"

"(سیدنا) علی( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے فرمایا:میرے بارے میں دو(قسم کے) آدمی ہلاک ہوجائیں گے(1) غالی(اور محبت میں ناجائز) افراط کرنے والا،اور(2) بغض کرنےوالا حجت باز۔(فضائل الصحابہ 2/571 ح964 واسنادہ حسن)

چونکہ ان دونوں اقوال کا تعلق غیب سے ہے لہذا یہ دونوں مرفوع حکماً ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو یہ باتیں بتائی ہوں گی،لہذا رافضی اور غلو کرنے والے شیعہ حضرات دنیا وآخرت دونوں میں رسوا اور ہلاک ہوجائیں گے۔ "وَاللَّهُ مِنْ وَرائِهِمْ مُحِيطٌ "

تلخیص الجواب:۔

سوال میں بیان کردہ روایت بے اصل اور باطل ہے۔

2۔مسند الفردوس للدیلمی میں لکھا ہوا ہے:

"إِذَا ظَهَرَتِ الْبِدَعُ فِي أُمَّتِي فَعَلَى الْعَالِمِ أَنْ يُظْهِرَ عَلِمَهُ ، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ "

"سیدنا ابوہریرہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے مرفوعا مروی ہے کہ جب میری اُمت میں بدعتیں ظاہر ہوجائیں اور میرے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو گالیاں دی جائیں تو عالم کواپنا علم ظاہر کرنا چاہیےاگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے۔(1/390ح1275)

یہ روایت بے سند وبے اصل ہے لہذا مردود باطل ہے ،اس مفہوم کی تائید کرنے والی ایک ضعیف مردود روایت تاریخ دمشق لابن عساکر(57/62) میں ہے۔اس روایت میں محمد بن عبدالرحمان بن رمل الدمشقی مجہول الحال ہے،شیخ الالبانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔(السلسۃ الضعیفہ 4/14ح1506)

دیلمی نے اس کی ایک موضوع(من گھڑت) سند بھی بیان کررکھی ہے۔(ایضاً ص 15)

خلاصہ:یہ  روایت بے اصل ومردود ہے۔

3۔یہ روایت بے اصل ہے ،اس کی کوئی سند مجھے نہیں ملی۔

4۔سنن ترمذی کی ایک روایت(ح3673) میں آیا ہے:

"لاينبغي فيهم ابوبكر ان يرههم غيره"

"لوگوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اگران میں ابوبکر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) موجود ہوں تو کوئی دوسرا شخص ان کی امامت کرائے۔

یہ روایت ضعیف ہے،عیسیٰ بن میمون الانصاری :ضعیف ہے۔(التقریب:5335)

محدث البانی  رحمۃ اللہ علیہ  اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:"ضعیف جداً"یعنی سخت ضعیف ہے۔(سنن الترمذی ص 834،السلسلۃ الضیعفہ 10/365)

اس کی تائید میں دو مردود اورباطل روایتیں السلسلہ الصحیحہ(10/366ح820) میں بطور ردمذکور ہیں۔محدث ارشاد الحق اثری نے سیوطی(الآلی 1/296) وغیرہ میں کہا ہے کہ یہ روایت شواہد کے لحاظ سے حسن یعنی حسن لغیرہ ہے حالانکہ یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے،اس روایت کے شواہد مردود وباطل ہیں لہذا یہ حسن  لغیرہ کے درجے تک قطعاً نہیں پہنچتی۔

(نیز ایسی حسن لغیرہ یعنی ضعیف+ضعیف= ضعیف ہی رہتی ہے،یہ قابل حجت اور دلیل نہیں بن سکتی)وماعلینا الا البلاغ(6 جولائی 2004ء) (الحدیث:4)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ139

محدث فتویٰ

تبصرے