سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) فوٹو گرافی کا پیشہ

  • 20873
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3396

سوال

(57) فوٹو گرافی کا پیشہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔گزارش ہے کہ میں فوٹو گرافی کرتا ہوں ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے یا ہو سکتا ہے۔؟علاوہ ازیں جس آدمی کی فوٹوبنائی جاتی ہے وہ بھی اس جرم میں برابر کا شریک ہے یا نہیں۔ کیونکہ اکثر علماء اہلحدیث ،دیوبندی اور بریلوی کے فوٹو بنانے کا بھی موقع ملتا ہے جیسا کہ رشوت دینے اور لینے والا۔قتل کرنے اور قتل ہونے والا دونوں جہنمی ہیں۔اگر میں مجرم بنوں تو یہ پیشہ ترک کر دوں گا۔(اسید منظور اللہ شاہ سولگیں کھرل حافظ آباد)

2۔مصوری کے ذریعے روزی کمانا حلال ہے یا حرام ؟آج کل تصویر زندگی کا اہم حصہ بن چکی ہے جس کے بغیر کام نہیں چلتا مثلاًشناختی کارڈ،پاسپورٹ وغیرہ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ جو تصاویر فالتو قسم کی بنوائی جاتی ہیں مثلاً شادی بیاہ، منگنی، سیرو تفریح ، سکول و کالج کے کسی پرو گرام پر ان کے بارےمیں کیا حکم ہے۔(جعفر ممتاز ندیم، ہیلاں منڈی بہاؤالدین)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تصویر سازی قرآن و سنت کے قطعی دلائل کی روسے بالکل حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے دور حاضر میں تصویر سازی کی لعنت اس قدر عام ہو چکی ہےکہ اسمبلی سے لے کر ایک کچی جھونپڑی تک ہمارے ملک کے درودیوار تصاویر سے آٹے ہوئے  نظر آتےہیں۔اور جا بجا تصاویر کو آویزں کر کے اللہ کی رحمت سے دوری اور لعنت کو حاصل کیا جا رہا ہے اور یہ وبا اس قدر پھیل چکی ہے کہ اس نے اپنی لپیٹ میں ہر خاص و عام کو لے لیا ہے اور ہمارے ہاں یہ مرض اس قدر پھیل چکا ہے کہ جب کوئی گناہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے تو اس گناہ و برائی کو برائی کہنا ہی چھوڑدیا جاتا ہے۔بہر صورت کوئی گناہ ہی عام ہو جائے ۔ اس سے شرعی حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ زبان نبوت سے صادر ہونے والا ایک ایک حکم اپنی جگہ پرانمٹ اور قائم و دائم ہے۔سابقہ اقوام عالم میں کفرو شرک کی گمراہی انہی تصاویر کی بناء پر قائم ہوئی تھی شیطان نے انہیں ورغلا کر تصویر سازی کی لعنت میں گرفتار کردیا۔ ہادی برحق ، امام اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے۔:

"فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ : " أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا ، وَصَوَّرُوا فِيهَا تِلْكَ الصُّوَرَ ، أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ "

(متفق علیہ مشکوۃ مع تنقیح 3/ 255باب التصاویر)

"ان اہل کتاب میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے پھر اس میں یہ تصویریں رکھتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں بدترین لوگ ہیں۔"

شارح بخاری نواب صدیق الحسن خان رحمۃ اللہ علیہ  اپنی کتاب "الدین الخالص"میں فرماتے ہیں:

"ولم يشع الشرك في الُامم ولم يدخُل فيهم الا من باب التصوير"

(تنقیح 3/252)

"امتوں میں شرک کا پھیلاؤ اور داخلہ تصویر کی جانب سے ہوا۔"

اسی طرح شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  راقم ہیں ۔

"وكان غالب كفر الأمم من جهة الصور "(فتح الباری8/17)

"اکثر امتوں میں کفر کی بیماری تصویروں کے ذریعے داخل ہوئی ۔"

موجود ہ دور میں جبکہ فحاشی ،عریانی ، بے حیائی و بے پردگی کا سیل رواں تمام حدود پھلانگ چکا ہے۔ہر آدمی جانتا ہے کہ یہ سارا فتنہ تصاویر کا شاخسانہ ہے اور یہ پورا سیلاب وی سی آر، ٹی وی ، گندے اخبارات و سائل کے ذریعے عروج پکڑ رہا ہے۔تصویر کی حرمت پر دلائل بے شمار ہیں چند ایک درج کئے جاتے ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَشَدُّ النَّاسِ عَذَاباً عِند اللهِ يَوْمَ القيامةِ الذينَ يُضاهُونَ بِخَلقِ اللهِ". (متفق علیہ)

"قیامت والے دن سخت ترین عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق میں نقل اتارتے ہیں۔"

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

"وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ خَلْقًا كَخَلْقِي فَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا حَبَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا شَعِيرَةً "  (متفق علیہ)

"اس سے بڑا ظالم کون ہے جو عمل تخلیق میں میرا مقابلہ کرے۔انہیں چاہیے کہ ایک چیونٹی یا ایک گندم یا جو کا ایک دانہ پیدا کر کے دکھائیں۔"

صاحب تنقیح الرواۃ رقم طراز ہیں کہ:

"وفيه حرمة التصوير وانه من اعظم المعاصي والمناهي لانه تشبه بالخالق "(3/253)

"اس حدیث میں تصویر کی حرمت پر دلیل ہے اور یقیناً یہ سب سے بڑے گناہوں اور منع کردہ اشیاء میں سے ہے اس لیے کہ اس میں خالق کے ساتھ مشابہت ہے۔"

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ انھوں نے گھر کے ایک طاقچے میں ایسا پردہ لٹکا دیا جس میں تصویریں تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے پھاڑ دیا۔ میں نے اس کے تکیے بنا دئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  گھر میں ان پر بیٹھا کرتے تھے۔(متفق علیہ)

نواب صدیق الحسن خان  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب الدین الخالص 2/651) طبع ہند 1312ھ میں ہے کہ:

"وعيد لمن استعمله فمن صنع التصوير فقد تشبه بالخالق في امر ليس لغيره ومن استعمله فكانما رضي بفعل المصور والحديث وان ورد في النمرقه لكنه يشمل كل شئي فيه تصوير سواء كان من جنس الثياب والوسائد والمرافق او من جنس الاواني اوالسلاج اولكتب وسواء صنعه بعمل اليد او بذريعه آلة له لصدق اطلاق التصوير علي ما حصل باعمال الالات فحكمه حكم التصوير واستعماله استعمال التصوير"(بحوالہ تنقیح لرواۃ 3/253)

"اس حدیث میں تصویر کو استعمال کرنے والے کے لیے وعید ہے جس نے تصویر بنائی اس نے خالق کے ساتھ اس کام میں مشابہت کی جو اس کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں اور جس شخص نے(مصور کی بنائی ہوئی)تصویر کو استعمال کیا گویا کہ وہ مصور کے فعل سے راضی ہے اور حدیث اگرچہ تکیہ کے متعلق وادر ہوئی ہے لیکن یہ ہر اس چیز کو شامل ہے جس میں تصویر ہے خواہ وہ کپڑا ،گاؤ تکئے کہنی کے نیچے سہارا دینے والی اشیاء سے ہو یا برتن، اسلحہ یا کتابوں کی جنس سے ہو خواہ اس نے تصویر کو ہاتھ سے بنایا ہو یا کسی آلہ (کیمرہ وغیرہ)سے اس لیے کہ آلات کے عمل کے ذریعے حاصل ہونے والی شکل پر بھی تصویرکا اطلاق درست بیٹھتا  ہے۔ اس کاحکم تصویر کا حکم ہوگا اور اس کا استعمال تصویر کے استعمال کی طرح ہی ہو گا۔"

مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ تصویر بنانے والے خواہ وہ تصویر ہاتھ سے بنائیں یا آلے کے ذریعے اس کے استعمال کرنے والے دونوں قسم کے افراد اس وعید کے مستحق ہیں جو حدیث میں وارد ہوئی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کرتے ہیں کہ:

"مَنْ صَوَّرَ صُورَةً فِي الدُّنْيَا كُلِّفَ أَنْ يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَيْسَ بِنَافِخٍ " (بخاری)

"جس شخص نے کوئی تصویر بنائی اسے عذاب دیا جائے گا اور اس بات کا مکلف ٹھہرایا جائے گا کہ وہ اس تصویر میں قیامت کے دن  روح پھونکے اور وہ پھونکنے والا نہیں ہوگا۔"

سیدنا ابو طلحہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لاَ تَدْخُلُ المَلاَئِكَةُ بَيْتاً فِيهِ كَلْبٌ، وَلاَ صُورَةٌ "(متفق علیہ)

"جس گھر میں کتا اور تصویریں ہوں اس میں(رحمت کے فرشتے)داخل نہیں ہوتے۔"

سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے شدت غم کی بنا پر خاموشی سے صبح کی اور فرمایا رات میرے پاس جبرئیل امین  علیہ السلام  نےآنے کا وعدہ کیا تھا وہ نہیں آئے اللہ کی قسم! اس نے مجھ سے کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دل میں یہ خطرہ لا حق ہوا کہ رات جبرئیل  علیہ السلام  میرے پاس اس لیے نہیں آئے کہ میری چارپائی کے نیچے کتے کا بچہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے نکال دینے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ میں پانی لیا اور اس جگہ پر چھڑک دیا۔جب شام کو جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےملے۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ آنے کی وجہ پوچھی تو جبرئیل نے کہا:

"لاَ تَدْخُلُ المَلاَئِكَةُ بَيْتاً فِيهِ كَلْبٌ، وَلاَ صُورَةٌ ""جس گھر میں کتا یا تصویر ہو، ہم وہاں داخل نہیں ہوتے (مسلم)

سیدنا وہب السوائی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ:

"ولعن آكل الربا وموكله ، والواشمة والمستوشمة ، والمصور "

(بخاری باب من لعن المصور)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سود کھانے ولا اور سود کھلانے والا جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی اور تصویر بنانے والے پر لعنت کی ہے"

مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ تصویر بنانے والے افراد قیامت کے روز سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے اور ان تصویروں میں روح پھونکنے کے لیے انہیں کہا جائے گا لیکن وہ ان میں روح نہیں پھونک سکیں گے۔تصویر بنانا اللہ تعالیٰ کے ساتھ صفت خلق میں مشابہت ہے اور اس فعل پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے لعنت فرمائی ہے جس پر بنا پر یہ گناہ کبیرہ ہے یہ وعید ہر قسم کی تصویر کے متعلق ہے خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی ،کپڑا ،کاغذ ، درو دیوار یا فوٹوں اور کتابوں پر چھاپی جائے۔ خواہ ہاتھ سے بنائی جائے یا آلات کے ذریعے۔ ہمیں ان سے اجتناب کرنا چاہیے اور اس طرح وہ آدمی جو ایسی تصویر بنواتا ہے وہ چونکہ اس فعل پر راضی ہے اس کی رضا مندی کی بنا پر وہ بھی ان وعیدوں کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

امام ابن الحاج"المدخل 1/273"میں رقم طراز ہیں کہ:

"تصویر بنانے والا اور اور اس کے اس فعل پر راضی ہونے والا اور اس فعل کو دیکھ کر اس پر طاقت رکھنے کے باوجود منع نہ کرنے والا سب اس گناہ میں شریک ہیں۔"

البتہ بے جان اشیاء کی تصاویر جیسا قدرتی مناظر وغیرہ کی شرع میں اجازت ہے جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

" فإن كنت لابد فاعلا فاصنع الشجر وما لا روح فيه" (متفق علیہ)

"اگر تصویر بنانی ہی ہو تو درخت اور جس چیز میں روح نہیں اس کو بناؤ۔"

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ:

"قال النووي – رحمه الله- : " قال أصحابنا وغيرهم من العلماء : تصوير صورة الحيوان حرام شديد التحريم ، وهو من الكبائر ؛ لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور فى الأحاديث ، وسواء صنعه بما يمتهن أو بغيره فصنعته حرام بكل حال ؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى ، وسواء ما كان في ثوب أو بساط أودرهم أو دينار أو فلس أو إناء أو حائط أو غيرها ، وأما تصوير صورة الشجر ورحال الإبل وغير ذلك مما ليس فيه صورة حيوان : فليس بحرام "

"ہمارےعلماءاور دوسرے علماء نے فرمایا کہ جاندار کی تصویر بنانا سخت حرام اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے اس لیے کہ اس پر بڑی سخت وعید وارد ہوئی ہے جو احادیث میں مذکورہے اور وہ تصویر خواہ ذلیل کرنے کے لیے بنائی گئی ہو یا کسی دوسری غرض کے لیے اس کا بنانا ہر حال میں حرام ہے اس لیے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کے ساتھ مقابلہ ہے اور یہ تصویر خواہ کپڑے پر بنائی جائے یا بچھونے پر،درہم ،دینار ، پیسہ ،برتن، دیواریا کسی اور چیز پر۔ البتہ درخت اور دیگر بے جان اشیاء کی تصویر بنانا حرام نہیں۔

اس کے دو سطروں کے بعد مزید فرماتے ہیں:

"ولا فرق في هذا كله بين ماله ظل ومالا ظل لَهُ۔
هَذَا تَلْخِيصُ مَذْهَبِنَا فِي الْمَسْأَلَةِ ، وَبِمَعْنَاهُ قَالَ جَمَاهِيرِ الْعُلَمَاءِ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ ، وَهُوَ مَذْهَبُ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكٍ وَأَبِي حَنِيفَةَ وَغَيْرِهِمْ .
وَقَالَ بَعْضُ السَّلَفِ إِنَّمَا يَنْهَى عَمَّا كَانَ له ظل ، ولا بأس بِالصُّوَرِ الَّتِي لَيْسَ لَهَا ظِلٌّ . وَهَذَا مَذْهَبٌ بَاطِلٌ فَإِنَّ السِّتْرَ الَّذِي أَنْكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّورَةَ فِيهِ لَا يَشُكُّ أَحَدٌ أَنَّهُ مَذْمُومٌ ، وَلَيْسَ لِصُورَتِهِ ظِلٌّ مَعَ بَاقِي الْأَحَادِيثِ الْمُطْلَقَةِ فِي كُلِّ صُورَةٍ "(شرح مسلم نووی2/199)

"ان تمام احکامات میں سایہ دار تصویر (جسم والی)یا بے سایہ (صرف نقش )میں کوئی فرق نہیں (یعنی دونوں حرام ہیں)اسلاف میں ہے بعض نے کہا کہ سایہ دار (ذی جسم) تصویرسے منع کیا جائے گا اور بے سایہ (نقش والی)میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ مذہب باطل ہے اس لیے کہ جس پردہ کی تصویر پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نکیر فرمائی یقیناً وہ تصویر مذموم تھی حالانکہ وہ تصویر بے سایہ (بغیر نقش والی)تھی اور وہ احادیث جن میں مطلق تصویر کی ممانعت ہے وہ بھی اس کو شامل ہیں۔"

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  کی اس توضیح سے معلوم ہوا کہ جس طرح سایہ دار یعنی جسم والی مورتیاں وغیرہ منع ہیں اسی طرح جسم کے بغیر جو کپڑے میں منقش کی جاتی ہیں جس طرح دور حاضر میں پرنٹنگ کے ذریعے تصاویر بنائی جاتی ہیں یہ بھی بالکل منع اور حرام ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو جو پردہ پر بنی ہوئی تصاویر سے منع فرمایا تھا ظاہر ہے کہ پردہ میں تصویر منقش کی جاتی ہے اس لیے یہ عذر قابل سماعت نہیں کہ ہاتھ سے تصویر کا حکم الگ ہے اور آلات کے ذریعے جو تصاویر بنائی جاتی ہیں ان کا حکم الگ ہے حالانکہ آلات (یعنی کیمرہ جات ،پرنٹنگ مشین وغیرہ)کے ذریعے جو تصاویر بنائی جاتی ہیں ۔وہ ہاتھ والی تصاویر سے کہیں زیادہ عمدۃ اور نفیس ہوتی ہیں۔ پھر اس موجودہ تصویر کو عکس آئینہ یا پانی پر قیاس کرنا بھی درست نہیں کیونکہ اس بات سے کوئی کوری عقل والا بھی انکارنہیں کر سکتا کہ تصویر و عکس دو متضادچیزیں ہیں ۔ تصویر کسی چیز کا پائیدار اور محفوظ نقش ہوتا ہے جبکہ ناپائیدار اور غیر محفوظ وقتی نقش ہوتا ہے اور اصل کے غائب ہوتے ہی اس کا عکس بھی غائب ہو جاتا ہے۔

یاد رہے کہ ویڈیو کے ذریعے بنائی گئی تصویر کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ ویڈیوکیسٹ کے فیتے پر تصویر محفوظ ہوتی ہے جب جی چاہے اسے ٹی وی کی سکرین پر دیکھاجا سکتا ہے یہ تصویر اصل کے تابع نہیں یعنی عکس کی طرح اصل کے غائب ہونے سے یہ غائب نہیں ہوتی بلکہ محفوظ و پائیدار ہوتی ہے اس لیے عکس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بہت سے ایسے افراد ہیں جو اس دنیائے فانی سےرحلت کر گئے لیکن ان کی متحرک صورتیں ویڈیو کیسٹ میں محفوظ ہیں۔صرف اتنی سی بات پر کہ ویڈیو کے فیتے میں ہمیں تصویر نظر نہیں آتی۔ تصویر کے وجود کا انکار صرف دھوکہ اور مغالطہ ہے اور اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ ویڈیو کے فیتے میں تصویر محفوظ نہیں بلکہ معدوم ہے اور ویڈیو کیسٹ میں محفوظ نقش ٹی وی اسکرین پر جا کر تصویربنا دیتے ہیں تو اس بے فائدہ تقریر سے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ تصویر محفوظ ماننے کی تقدیر پر ٹی وی صرف تصویر دکھانے کا ایک آلہ تھا۔ اب وہ تصویر بنانے کا آلہ بھی قرارپائے گا اور اصل شرعی حکم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

مختصر یہ کہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سائنس کی ترقی نے تصویر سازی میں جدت پیدا کردی ہے۔یعنی ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر دیا ہے بہر کیف تصویر بہر صورت حرام ہے گناہ کبیرہ ہے۔ خواہ تصویر کسی عالم کی ہو یا جاہل کی جسم دار ہو یا منقش ، میری تصویر ہو یا آپ کی۔ شرعی لحاظ سے بالکل ناجائز و حرام ہے اور جب چیز شرعاً حرام ہو۔ اس کا کاروبار کرنا۔ خریدو فروخت کرنا بھی حرام ہےجیسا کہ اسلام میں شراب حرام ہے تو اس شراب کو بیچ کر قیمت لینا بھی حرام ہے۔ اسی طرح تصویر سازی کر کے قیمت لینا بھی بالکل حرام ہے۔

دور حاضر میں جبکہ حکومت بالکل اسلام سے عاری ہے اور ملک میں رہنے والے افراد پر یہ پابندی عائد ہے کہ وہ اپنا شناختی کارڈ بنوائیں اور تمام اداروں میں کام کرنے کے لیے شناختی کارڈ وغیرہ کے بغیر حکومت کوئی بات نہیں سنتی تو ایسے عالم میں اتنی تصویر بنانا جس کی ضرورت ہے اس طرح جائز ہے جس طرح موت کی کشمکش میں مبتلا انسان کو مردار وغیرہ کھانے کی اجازت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿إِنَّما حَرَّمَ عَلَيكُمُ المَيتَةَ وَالدَّمَ وَلَحمَ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ بِهِ لِغَيرِ اللَّهِ فَمَنِ اضطُرَّ غَيرَ باغٍ وَلا عادٍ فَلا إِثمَ عَلَيهِ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١٧٣﴾... سورةالبقرة

"تم پر مرده اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وه چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہوجائے اور وه حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناه نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے"

اس آیت سے معلوم ہوا کہ حرام اشیاء کو مضطرومجبور آدمی اتنا استعمال کر سکتا ہے جس سے اس کا اضطرار دور ہو جائے لہٰذا جب تک ہمارے اوپریہ ناجائز پابندی عائد ہے اس وقت تک ہم اتنی تصویر بناسکتے ہیں جس کی ضرورت ہے اس سے زیادہ نہیں اور اس کا گناہ ناجائز پابندی لگانے والوں پر ہوگا۔ ان شاء اللہ اور ایسی تصاویر جو اس ضرورت سے زائد ہیں۔ جیسا کہ شادی شدہ بیاہ سیرو تفریح اور دیگر مقامات پر بنائی جاتی ہیں کسی صورت بھی جائز نہیں ۔ لہٰذا ہمیں اس فعل حرام سے اپنی استطاعت کے مطابق مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔(مجلۃ الدعوۃ فروری 1997)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب البيوع۔صفحہ نمبر 470

محدث فتویٰ

تبصرے