السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بینک کےلئے مکان کرایہ پردینا جائز ہےیاناجائز ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بنک سےمنافع کےنام سےجورقم روپیہ جمع کرنے والوں کوملتی ہےشرعا اس کےربا(سود) ہونےمیں کوئی شک نہیں ہے۔اس کےعلاوہ بنک کاسارا معاملہ سود پر ہی چلتاہےغرض بنک قائم کرنےوالے بنک کےذریعہ سودی کاروبار کرتے ہیں جوشرعا حرام ہےپس بن کےلے لئے مکان کرایہ پردینا ناجائز ہےلانه اعانة على المعصية وقال الله تعالى: ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾(المائد:2)
يعی :یہ گناہ میں امداد پہونچانا ہےاللہ نےفرمایا ہےکہ نیکی کے کام میں مدد ومعصیت کےکام میں امداد مت دو۔
قال الموفق بن قدامة فى المغنى8/133: وَلَا يَجُوزُ لِلرَّجُلِ إجَارَةُ دَارِهِ لِمَنْ يَتَّخِذُهَا كَنِيسَةً، أَوْ بِيعَةً أَوْ يَتَّخِذُهَا لِبَيْعِ الْخَمْرِ، أَوْ الْقِمَارِ. وَبِهِ قَالَ الْجَمَاعَةُ. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: إنْ كَانَ بَيْتُك فِي السَّوَادِ، فَلَا بَأْسَ أَنْ تُؤْجِرَهُ لِذَلِكَ. وَخَالَفَهُ صَاحِبَاهُ، وَاخْتَلَفَ أَصْحَابُهُ فِي تَأْوِيلِ قَوْلِهِ. وَلَنَا أَنَّهُ فِعْلٌ مُحَرَّمٌ، فَلَمْ تَجُزْ الْإِجَارَةُ عَلَيْهِ، كَإِجَارَةِ عَبْدِهِ لِلْفُجُور انتهى
علامہ موفق بن قدامہ نےکتاب المغنی میں لکھا ہے کہ:کسی ایسے شخص کومکان کرایہ پرنہ دینا چاہئے جوکنیسہ(یہودی عبادت خانہ)بنائےیااس میں شراب فروخت کرے یاقمار(جوا)بازی کرے ایک جماعت ائمہ کایہی مذہب ہےالبتہ امام حنیفہ نےفرمایا ہے کہ:دیہات میں اگر کسی کاگھر ہوتوکرایہ پردےس کتاہے لیکن امام یوسف اورامام محمد نےامام صاحب کی مخالفت کی ہے۔ہمارا صحیح مسلک یہ ہے کہ اس طرح مکان کاکرایہ پردیناجائز نہیں ہےجس طرح غلام کوبدکاری کےلئےاجرت پر نہیں دیا جاسکتا۔
ہاں حنفی مذہب کی رو سے جائز ہےمولوی رشید احمد گنگوہی کی ایک تقریر صاحب بذل الجہو نےبایں الفاظ لکھی ہے:ثم فى ايتا عمر حلته الى اخ له مشرك بمكة جواز الاحسان الى المشرك والصلة والمنهى عنه انما هو المودة لامجرد الاحسان وايضا فيه دليل الى ماذهب اليه الامام من اجازة المسلم داره فمن يعلم انه يرتكب فيها حراما كمجوسى يتخذ بيت نار اوروثنى يتخذه بيت الاصنام الى غير ذلك وذلك لان ايتائه ذلك ليس بمستلزم تلك المعصية وانما يتخلل بينهما فعل فاعل مختاربين ان يفعل وان لايفعل فان عمر حين اعطى الحلة اخاه كان على يقين من لبسه اياها غير انه لما لم يكن مستلزما لبسه اياها بل جار ان يكون كسوته اياها ككسوة النبى صلى الله عليه وسلم تلك الحلة عمر فانه لم يترتب عليه لبس عمر اياها فكذلك كان جائز اهنا انتهي
عمرفاروق نے اپنے مشرک بھائی کوکرتہ دیاتھا جس سےمشرک کےساتھ احسان اورصلہ رحمی کاجواز ثابت ہوتا ہے ۔
مشرک سے صرف دلی محبت ممنوع ہے نہ کہ مجرد احسان حضرت عمررضی کایہ فعل دلیل ہےاس پرجوامام صاحب نے فرمایا ہے کہ مسلمان اپنامکان کرایہ پرایسے آدمی کودسے سکتا جواس مکان میں ارتکاب گناکرے جیسے مجوسی کودیناجوآگ کی پرستش کرے یاکسی بت پرست کودینا جوبت کی پوجا اس گھر میں کرے کیوں کہ کرایہ پر مکان کادینا اس بات کومستلزم نہیں کہ ارتکاب معصیت ہی اس میں کرے گا۔کرے یانہ کرے جس طرح عمرفاورق نےکرتہ دیاتھا پہننے ہی کاخیال سے مگر یہ مستلزم نہیں ہوگیا لازمی طورپرپہننےہی کوجس طرح خود آنحضور ﷺ نےعمروفاروق کوایک حلہ پہننے کےلیے دیاتھا مگرحضرت عمرنےنہیں پہنا۔پس اس طرح کرایہ پردیاجاسکتا ہے کیوں کہ کوئی ضروری نہیں کہ اس میں ارتکاب معصیت ہی کیا جائےگا۔
لیکن خود حنفیہ لکھتے ہیں کہ یہ استحساناناجائز ہے ۔چنانچہ فخرالاسلام لکھتے ہیں:قول الامام قياس وقولهما استحسان كذا يستفاد من الكفاية وعيون الابصار وغيرهما من كتب الفقا ومن المعلوم ان الاستحسان مقدم على القياس ويضا بين اجارة الدار لمن يتخذ لبيع الخمر اولقمار والتصرفات للربوية وبين ايتا عمر حلته لاخ له مشرك بمكة فرق عظيم وبون بعيد لايخفى على المتامل فلايصح قياس الاول على الاخر
فخرالاسلام بزووی حنفی کہتے کہ: امام صاحب کاقول قیاس پر مبنی ہےاورصاحبین (امام ابویوسف ومحمد) کاقول استحسان پر۔اوراستحسان قیاس پر مقدم ہوتا ہے جیساکہ کفایہ اورعیون الابصار وغیرہ کتب فقہ سےمعلوم ہوتا ہے۔عمرفاروقکےفعل اورمکان کے حرام کاروبار کےلئے کرایہ پر دینے میں بہت بڑا فرق ہے۔ایک کادوسرے پرقیاس قیاس مع الفارق ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب