السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مودودی کون ہیں ؟ان کی جماعت دین میں کوئی نئی جماعت ہے؟ یہ شیعہ ہیں یاسنی ؟ ان سے سلام کلام ، میل جول ،نکاح بیاہ اوران کی میت کا جنازہ پڑھنا کیساہے؟اگر ان کےعقائد شرکیہ کفریہ ہیں توکیا کیا ہیں ؟ محمد ذکی واچ لیفٹ لکیج این ڈبلوآر ، دہلی جنکشن سٹیشن ، دہلی
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تعجب اور حیرت ہےکہ جماعت اسلامی کے مرکز سےقریب رہتے ہوئے اس کے امیر مولانا ابو الاعلی مودودی مدیرترجمان القرآن دارالاسلام پٹھان ( پنجاب) کی شخصیت اوران کی تحریک اقامت دین اور اس کے اغراض ومقاصد سے اب تک آپ بے خبر ہیں۔یا ان کی شخصیت اور تحریک اقامت دین سےمتعلق ہماری رائے اور خیالات کوقارئین ’’محدث ،، پرظاہرکرانے کی غرض سے ناواقف بن کر آپ نےسوال بھیج دیا ہے ؟
جوشخص جماعت اہل حدیث کےمسلک اورعقیدہ سے پوری اور صحیح واقفیت رکھتا ہو ، اس کے لیے مودودی تحریک کا پورا لٹریچر پڑھنے کےبعد اس امر کا فیصلہ کرنا بالکل آسان ہے کہ مودودی تحریک کےنصب العین او رمذہب اہل حدیث کے درمیان کیا فرق ہے؟
ہمارے نزدیک مولانا موصوف سنی المذہب ، صحیح العقیدہ ، موحد مسلمان ہیں ۔دین میں اجتہادی بصیرت رکھنے والے متکم اور مفسر اچھے عالم دین ہیں ۔اسلامی مسائل کوبہترین صورت میں دنیا کےسامنے پیش کرنے کی اہلیت وصلاحیت رکھتے ہیں ۔ان کی جماعت درحقیقت کوئی نئی جماعت نہیں ہے۔جیسے جماعت اہل حدیث کوئی نئی جماعت اور فرقہ نہیں ہے۔ان کی تحریک اقامت دین او راس کے نصب العین اوراغراض و مقاصد سےہم کواختلاف نہیں ہے۔البتہ ان کے بعض علمی وغیر علمی مسائل سےجو ان کی اپنی ذاتی تحقیق کا نتیجہ ہیں اور جن کووہ ارکان جماعت پر ٹھوونسنا نہیں چاہتے ۔ہم کو اتفاق نہیں ہے مثلا :
(1) تفہمیات میں مسلک اعتدال کےزیر عنوان صحت روایت کےلیے ’’درایت ،، یعنی عقل کومعیار بنانا۔
(2) مسئله اعفاء اللحية ۔
(3)’’ سنت ،، کی تعریف اور ’’ سنت ،، و ’’ عادت ،، کے درمیان بیان کردہ فرق ۔
(4) مسئلہ ظہو رمہدی ۔
(5) تاویل احادیث خروج دجال ۔
(6) مسئلہ قراۃ فاتحہ خلف الامام۔
(7) مسئلہ آمین۔
(8) مسئلہ رفع یدین ۔
(9) بندوق شکار کی حلت کا فتوی۔
(10) ’’بدر ،، کےقیدیوں کےبارے میں جامع ترمذی کی روایت قبول کرنے میں موصوف کا تامل ۔
(11) صحیح حدیث کا جو بظاہر نظر مخالف قرآن ہورد کردینا جیسے : کذبات ابراہیم والی روایت ۔
(12) رسالہ ’’ دینیات ،، میں عنوان فقہ کےماتحت ایک عبارت ، ممکن ہےزیادہ تدقیق اورامعان نظر سے مودودی تحریرات کامطالعہ کرنے کے بعد کچھ اورایسے مسائل نکلیں جن سے ہم کواختلاف ہو۔بہر حال ان مسائل کی وجہ سےان پرکفر یا فسق یا خارجیت یا ضلالت کا فتوی لگانا ظلم صریح بلکہ جہالت اور شرارت ہے۔
علامہ ابن القیم فرماتے ہیں: ’’ إن من ردالخبر الصحيح اعتقاد اً لغلط الناقل أو كذبه ، أو لإ عتقاد الراد أن المعصوم لا يقول هذا ، أو لإ عتقاد نسخه ونحوه ، فرده اجتها د وحرصا علي نصر الحق ، فإنه لا يكفر بذلك ولا يفسق ، فقد رد غير واحد من الصحابة بعض أخبار الآحاد الصحيحة ، كما ر د عمر حديث فاطمة بنت قيس في أسقاط نفقة المطلقة الثلتة ، كما ردت عائشة ر ضي الله عنها حديث ابن عمر في تعذيب الميت ببكاء أهله عليه ، وغير ذلك ،، (انتهي مختصرا الصواعق المرسلة ( 2/270) اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه ، وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه واحفظنا من التثتت-مودودی جدی نسبت ہے۔والله اعلم
(محدث ج : اش : ربیع الاول 1366 ھ ؍فروری 1947 ء )
٭مسلم پرسنل لاء(احوال شخصیہ ) کے سلسلے میں مرکزی دفتر جماعت اسلامی ہند کی طرف سےمیرے پاس کوئی خط نہیں آیا ہے۔محولہ سمینار کی مختصر رپورٹ غالباً سہ روزہ ’’ دعوت ،، میں نظر سے گزری تھی۔میرے لیے بحالت موجود ہ کسی موضوع پر کوئی معقول تحریر سپرد قلم کرنا بہت مشکل ہے۔اس لیے اگر دفتر سےاس موضوع پرلکھنے کےلیے کچھ فرمائش کی بھی جائے تومیں حکم کی تعمیل نہیں کرسکوں گا۔ہاں اگر آپ ا س موضوع پرمقالہ لکھیں توامید ہےکہ اس پر نظر ثانی کرسکوں ۔
مولانا مودودی کی ’’ خلافت وملوکیت ،، ا ب تک میری نظر سے نہیں گزری ہے۔اورنہ ہی عباسی ’’ حقیقت خلافت وملوکیت ،، دیکھنے کا موقع مل سکا ہے۔البتہ ’’الاعتصام،، لاہور اور ’’البلاغ،، کراچی میں ’’ خلافت وملوکیت ،، کی تنقید کی بعض قسطیں نظر سےگزری ہیں۔نیز علی احمد بنارسی کی ’’امارت وصحابیت،، بجواب خلافت وملوکیت نظر سےگزری ہے۔اول الذکر دونوں تحریریں ٹھوس اور صحیح معلوم ہوئیں۔
مولانا مودودی نے حضرت عثمان اور حضرت معاویہ رضی للہ عنہما پرجوتنقید اورنکتہ چینیاں کی ہیں وہ بلاشبہ غلط ہیں۔ جماعت اہل حدیث کےکسی بھی قابل ذکر عالم کواس سےاتفاق نہیں ہوسکتا ۔جماعت کوموقف اس سلسلہ میں بالکل واضح ہے۔مولانا مودودی کےاس اقدام سےان کوبے حد کوفت ہوئی ہے عفااللہ عنہ۔جماعت اسلامی کے سنجیدہ ارکان کا خاموش رہنا ان کے متعلق بدگمانی کا باعث ہورہا ہے اور جماعتی پرچوں میں اس کتاب کا ڈھنڈ ورہ پیٹنا اور بعض ارکان کا اس کی مدافعت میں سرگرم ہوجانا میرے نزدیک بے حد افسوسناک ہے۔
اہل حدیث علمائء جو سنجیدہ اور باصلاحیت ہیں ان کو اس قسم کےمباحث سے دلچسپی نہیں ہے اورغور وفکر اورگہرے مطالعہ کی محنت کے عادی نہیں ہیں اور دوسرے غیر اہم کاموں میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔انا للہ الخ
میرا مشورہ ہےکہ آپ اصل کتاب کوسامنے رکھ کران کے حوالوں کی کتابوں کو اکھٹا کیجیے اورہرالزام اورتنقید کوغیر جانبداری کےساتھ محولہ اور غیر محولہ روایات کی ورشنی میں پرکھیئے اورہر حال میں ایک صحابی کی زندگی اوراس کے صحیح حالات کوقرآن اورسنت کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کیجیے ، انشااللہ آپ پرمولانا مودودی کی تنقیدوں اور الزامات کی حقیقت واضح ہوتی جائے گی ۔ساتھ ہی اصل کتاب کے جواب میں اب تک جو کچھ لکھا جاچکا ہےاس کو منگوا رکر ضرور سامنے رکھئے ۔امید ہےکہ اس طرح آپ خود ایک ٹھوس مقالہ تیار کرسکیں گے یا کرلیں گے ۔کتاب کاجائزہ لینے کےلیے بڑی ضرورت محولہ ماخذ ومصادر ورمراجع کےمہیا کرنے اورغور سے دیکھنے اورسمجھنے کی ہے ۔میں بھی انشاء اللہ بوقت ضرورت مشورہ دینے میں دریغ نہیں کروں گا ۔وفقکم الله لذالک واید کم بنصرہ العزیز ۔
یہ اطلاع بڑی مسرت کاباعث ہوئی کہ آپ نے محولہ موضوع پرکوئی کتاب تیار کی ہے۔آپ اس سلسلے میں مولوی عبدالجلیل رحمانی سےضرورت مراسلت کریں بلکہ اگر وہ اواخرا اکتوبر میں بنارس جاتے ہوئے علی گڑھ کےراستے سےجائیں ، اور وہا ں اپنے تینوں لڑکوں سے ملنے کےلیے جوعلی گڑھ میڈیکل کالج با طبی کالج میں پڑھتے ہیں اتریں توآپ کےلیے ان سے بالمشافہہ گفتگو کرنے کا بہت اچھا موقع ہو گا۔مجھے امید بلکہ یقین ہے کہ اس پیش کش کی تحسین کرتے ہوئے ادارۃ المصنفین کی طرف سے شائع کرنا منظور کرلیں گے ۔میں بھی اس سلسلے میں ان کو خط کے ذریعہ یا بنارس میں زبانی اس طرف توجہ دلاؤں گا ۔آپ ان کو خط لکھ کر کتاب کےموضوع اورنوعیت سےمطلع کر کے اپنا خیال اورعندیہ بھی ظاہر کردیں۔اگر وہ پڑھنے کےلیے امانت طلب کریں تو ان کےیہاں مسودہ بھیج دیجیے ۔ہاں ایک ضروری امر کی طرف میرا روش کےباعث جماعت اسلامی سے اور اس کے لٹریچر سےبلکہ اس کے مخصوص اصطلاحی الفاظ سےبھی کس قدر کداور چڑھ ہے۔
امید ہےکتاب میں اس قسم کو بو نہیں آنے دی گئی ہوگی۔ورنہ پھر کتاب جماعت میں شاید مقبول نہ ہوسکے گی ۔ عبیداللہ رحمانی 13؍ 10؍ 69ء (مکاتیب شیخ رحمانی بنام مولانا امین اثری ص: 73؍74 ؍ 75)
٭ آپ نے 28 ؍ دسمبر 79 ء پھر 23؍فروری 81 ء پھر 23؍مارچ 81 کےدستی خط اوراب 7؍ جون 81ء کے کارڈ میں ’’تفہیم القرآن ،، میں صحیین کی حدیث بابت قسم سلیمان علیہ السلام ،مولانا مودودی کی تاویل وتنقید کےبارے میں اپنے مرقومہ جواب کےمتعلق میری رائے معلوم اوردریافت کی ہے ۔آپ کا جواب بغور پڑھ لیا گیا ہےحافظ کی منقولہ عبارت کےساتھ عینی کا کلام بھی نقل کردینا مناسب ہے، جسے انہوں نے ’’ ذکر ما یستفا دمنہ ،، کےزیر عنوان لکھا ہے۔
آپ اپنے جواب میں اتنا اوراضافہ کریں تومناسب ہوگا ’’ تھوڑے سےوقت میں اتنا بہت زیادہ کام ہوجانا کسی خاص شخص سےجو عام طور پرنہیں ہوا کرتا ، ہرگز خلاف عقل اوربعید از امکان نہیں ہے بالخصوص کسی نبی سے ، حضرت داود علیہ السلام کے متعلق مشہور ہے کہ سواری پر پالان کسنے کےمختصر وقت میں پوری ’’زبور ،، ختم کرتے تھے ، نیز ہم اپنی آنکھو ں سے طے مکان اورطی زمان کی صورتیں ،نئی نئی ایجادات کی بدولت دیکھتے رہتے ہیں، پس حدیث میں حضرت سلیمان علیہ السلام کےمتعلق آں حضرت ﷺ نےجوبات بیان فرمائی ہےاس کے وقوع میں عقلی استحالہ ہرگز نہیں ہے۔مولانا مودودی کا ، اس کو خلاف عقل کہنا محض اس امر پرمبنی ہےکہ انہوں نے انبیاء کوعام انسانوں پرتمام امر میں قیاس کیا ہے ، اور ان کےلیے حسی معجزات کےشاید قائل نہیں ہیں ،،۔عبیداللہ رحمانی 8؍3؍1402ھ۔5؍1؍1982ء (مکاتیب شیخ رحمانی بنام مولانا امین اثری ص: 144؍145)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب