السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آسیب کامطلب و تفصیلی مفہوم
آسیب کامطلب عام طورپریہ سمجھا جاتا ہےکہ آسیب زدہ کوجن (مومن یافاسق فاجر یاکافر)لگ گیا ہے۔اور اسی کےتصرف سے آسیب زدہ کےحرکات وسکنات ، افعال واقوال میں خلل پڑ گیا ہے۔آسیب زدگی کی شکایت زیادہ ترعورتوں میں دیکھی جاتی ہے ، لیکن ان میں سے اکثر واقع اور حقیقت میں آسیب زدگی نہیں، بلکہ اخنتاق یعنی ’’ ہسٹیر ،، میں متلا ہوتی ہیں، یا پھر کسی ذاتی غرض اور مقصد کی خاطر بتکیف وتصنع آسیب زدہ بن جاتی ہیں۔
آسیب زدگی کاعقیدہ کم وبیش پوری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ہرجگہ ایسے پائے جاتے ہیں،جو ا س کے بالکل منکر ہیں ،اور کہتے ہیں کہ جنّ وشیاطین کسی انسان یا جانور کونہیں لگتے ، او ران میں کچھ تصرف کرسکتے ہیں۔اور کسی انسان یا حیوان سے جو خلاف عادت جرکتیں سرزد ہوتی ہیں۔ توایسامحض کسی جسمانی یا دماغی بیماری کےباعث ہوتا ہے یاتضنع اور اشرارت پر مبنی ہوتا ہے۔لیکن ہمارے نزدیک جنات کے کسی پرآنے ، یا سوار ہونے اور اس میں ایسا تصرف کرنے سے جوعادت اور معمول کےخلاف ہو، اس کا باکل انکار کرنا صحیح نہیں ہے۔
17؍ جولائی کویہاں تک خط کاجواب اوراستفسار کےسلسلے میں اوپر کی سطریں لکھوائی گئی تھیں کہ یکا یک کسی مہمان کےآجانے کی وجہ سےیہ جواب مکمل نہ کیا جاسکا ۔سخت افسوس ہےکہ باوجود کوشش کےآج 27؍ اگست سےپہلے اس کے مکمل کرنے کاموقع نہیں مل سکا۔خدا کرے اسی مجلس میں یہ تحریر لشم پشم کسی طرح تکمیل کوپہنچ جائے
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آسیب زدگی یعنی: کسی انسان پرجن اورشیطان کےسوار ہونے یا اس کولگ جانے، اورپھر اس انسان کا جن یاشیطان کی زبان سے مختلف قسم کی مربوط یا غیر مربوط باتین کرنا یا پڑھنا ، یا غیر متوقع حرکات وسکناب کا اس سےسرزد ہونا ، نہ عقلاً غلط ہےنہ شرعاً۔بلکہ مشاہدہ اورحس وتجربہ اس کےقوع کی کھلی دلیل ہے،چاہے آپ کےموحد اخلص مولانا مسعودالدین عثمانی اور ان جیسے لوگ، اس کا کتنا ہی انکار کریں، اور اس قسم کےواقعات کی کچھ بھی تاویل وتوجیہ کریں۔
جاہلیت کےزمانے میں اور نزول قرآن کےوقت بھی لوگوں کا عقید ہ تھا کہ انسان کوجن یاشیطان لگ جاتا ہے، اور اس میں مذکور ہ قسم کاتصرف کرتا ہےاور اسی عقیدہ کےاثر سے وہ آں حضرت ﷺ کےبارے میں کہا کرتے تھے کہ آپ مجنون ہیں ، یعنی : آپ دیوانہ ہیں یا آپ کوجنّ لگ گیا ہے،اورآپ جوکچھ ہم کوسناتے ہیں وہ اسی جنّ کےتصرف سےہوتا ہے ۔قرآن نےآں حضور ﷺ کی طرف مجنون ہونے کی نسبت کی توسخت تردید کی ، لیکن کسی انسان کوجنّ لگنے کےنفس عقیدہ کی کہیں تردید نہیں کی ۔ نہ آں حضورﷺنے اس خیال یا عقیدہ کی تردید فرمائی۔
قرآن کریم کی اس آیت ﴿الَّذينَ يَأكُلونَ الرِّبوٰا۟ لا يَقومونَ إِلّا كَما يَقومُ الَّذى يَتَخَبَّطُهُ الشَّيطـٰنُ مِنَ المَسِّ... ﴿٢٧٥﴾...البقرة سے اس عقیدہ کی تائید ہوتی ہے۔ اس آیت کی تاویل میں مسعود الدین عثمانی صاحب اوردوسرے عقلیت زدہ مفسیرین کا یہ کہناکہ تشبیہ میں مقصود محض جاہلی عقیدہ کااظہار ہے، اس کااقرار اور اثبات مقصود نہیں ہے، سخت محل نظر ہےکیونکہ اگر یہ عقیدہ نفسہ شرعاً غلط ہےتو اس کوتشبیہ میں بغیر نکیر کےذکر کردینا کیوں کرصحیح ہوسکتاہے؟۔ اس بارے میں غازی عزیز سلمہ اللہ کےاستفسار کےجواب میں بھی جس کا تعلق رسالہ’’ تعویذ گنڈا شرک ہے،،سےتھا ، کچھ لکھا جاچکا ہے۔
کرامت اورمعجزہ اورشحر وشعبدہ ، ان تینوں کےدرمیان جوفرق ہے، وہ آپ سےمخفی نہیں ہے، خرق عادت کےطور پرمومن ، صالح،متقی کےذریعہ اللہ تعالی جوامرظاہر فرماتا ہے، وہ ’’ کرامت ،،کہلاتا ہے۔ اوراس قسم کی جوچیزیں نبی کےذریعہ ظاہر ہوتی ہیں۔ وہ ’’معجزہ،، کہلاتی ہیں اور جوپہچان معجزہ کی ہے ،وہی کرامت کی بھی ہے۔ امام نووی نے’’ ریاض الصالحین ،، میں ’’کرامة الاولیاء وفضلھم ،، کے عنوان سے ایک باب منعقدہ کیا ہے اور اس کے مناسب آیتیں پھر احادیث ذکر کی ہیں۔ امید ہےکہ آپ اس باب کوضرور ملا حظہ کریں گے ۔نیز حضرت نواب صاحب بھوپالی نے بھی دلیل الطالب جلد میں 733تا ص : 739میں’’ کرامت اولیاء ،، پر مفصل بحث کی ہے، اسے بھی آپ ضرور ملا حظہ کریں۔
حدیث : اول ماخلق اللہ نوری،،اور نوری،، اورحدیث :’’ یا جابر اول ماخلق الله نور نبیک ،،کوصاحب ’’سیرۃ النبی ،، نے جلد: 3 737؍ 738 میں زرقانی علی المواہب اورمصنف عبدالرزاق کےحوالہ سےذکر کیا ہے۔قسطلانی ’’ المواهب اللدینه،، کی شرح للزرقانی 1 ؍ 27 طبع بیروت میں حدیث :’’ اول ماخلق اللہ نوری ،، بغیر سند اوربغیر مخرج کےبیان کےمذکورہے۔ اورحدیث : ’’یا جابر اول ماخلق اللہ نوری،، مصنف عبدالرزاق میں تلاش کی گئی لیکن وہاں مل سکی ۔ اس کے بعد محمد عبدالسلام خضرالثقیری کی کتاب ’’السنن والمتدعات المتعلفة بالا ذکار والصلوات،، ص : 93 نظرسے گزری جس میں مصنف مذکورلکھتے ہیں: ’’ومسئلة خلق كل شئي من نورالنبي صلي الله عليه وسلم . التي جعلها ابن بنانة موضوع خطبة السخيفة . قد اوضحها وبين بطلان حديثها صاحب المناربالمجلد الثامن من صفحة 86، قد افاض هنالك وافاد واجاد، فجزا ه الحق عن تحقيق الحق خير الجزاء،وحديث :اول ماخلق الله نورنبيك يا جابر اخرجه عبدالرزاق،ولا اصل له، وليس فيه تعظيم للنبي صلي الله عليه وسلم، بل مثار شبهات وشكوك في الدين ، قال الله تعالي:’’ ومامحمدالا رسول قدخلت من قبله الرسل،، وقال: قل انما انا بشر مثلكم يوحي الي،، وقد قال محمدبن عثمان الثقفي البصري: والله الذي لااله هو ان عبدالرزاق كذاب،، انتهي.اس وقت اس حديث كے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھا جاسکتا ، امید ہےآپ بطور خودر بھی تفتیش کریں گے،ممکن ہےاس سےمتعلق کچھ مزید موادمل جائے۔
عیدکےبعد قاری محمدزبیر سےملاقات ہوئی۔ انہوں نے آپ کی دی ہوئی تین کتابیں 1۔تحفہ حدیث،2۔روزہ ،3۔یہ قبریں اور آستانے ۔ حوالہ کیں اور آپ کاسلام اور خیر وخیریت پہنچائی۔یہ معلوم ہوکر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ ان دنوں ہرطرح صحت مندہیں۔رمضان سےبہت پہلے مولانا مختار احمدندوی نےآپ کی کتاب تحفہ حدیث بھیج دی تھی جسے سرسری طورپر ازاول تا آخر پڑھ لیا گیا تھا۔کتاب کے شروع میں مضامین کی فہرست دےدی گئی ہےیہ بہت اچھاہوا۔اس سے کتاب کےمحتویات ومشتملات کااجمالی علم ہوجاتا ہے۔کتاب مجموعی حیثیت سےجامع اورعوام کےلیے انشاءاللہ بہت مفید ثابت ہوگی۔کتاب میں موجود باتیں کھٹکیں ،مختصراً ذیل میں درج کی جا رہی ہیں:
(1) یہ کتاب غیر عربی دانوں کےلیے لکھی گئی ہے، اس لیے اس اس میں جہاں کہیں بھی قرآن کی کوئی آیت یا حدیث لکھی گئی ہےان پر اعراب لگانا ضروری تھا ،لیکن افسوس ہےکہ اس کا التزام نہیں کیا گیا، کہیں اعراب لگایا گیا ہےاور گہیں نہیں،اورجہاں کہیں اعراب لگایا گیا بھی ہے،صحیح اعراب لگانے کا اہتمام والتزام نہیں کیا گیا ہےاور بعض جگہ نقطے بے موقع دیئے گئے ہیں۔
(2) آپ جانتے ہیں کہ اس وقت اردو زبان کوکس قدر آسان اورعام فہم بنانے کی ضرورت ہے!۔اب مولانا ابوالکلام آزاد یا مولانا مودودی کی اردو کا سمجھنا عام اردو دانوں بالخصوص کم پڑھی لکھی عورتوں کےلیے مشکل ہی نہیں بلکہ تقریبا ناممکن ہے۔’’ تحفہ حدیث ،، کی زبان آسان سےآسان تراورعام فہم ہونی چائیے اتھی،تاکہ معمولی اردوجاننے والے مرداور عورتیں اس سے زیادہ سےزیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔
(3) ص: 34میں سطر:5اور6میں یہ لکھا ہےکہ ’’ ساڑھے سات تولہ سونا اس کی قیمت کانقدروپیہ ہو،، یہ چیز سمجھ میں نہیں آئی۔ساڑھے سات تولہ کی مقدار ،یہ سونے کانصاب ہےاورجب خود اس مقدار میں سونا موجو د ہوتواس قیمت کا نقدروپیہ اعتبار کرنے کی کیا ضرورت اورکیا فائدہ ہے؟سونے کا زکاۃ کےنصاب میں قیمت کالحاظ قطعاً نہیں کیا جائے گا۔ ص:116 میں تفرقہ اندازی کےعنوان طبرانی کےحوالہ سےحدیث ’’ من تفرق فلیس منا،، ذکر کی گئی ہےاور ترجمہ میں یہ لکھا گیاہے،، جو شخص آپس میں تفرقہ اورجدائی ڈالے وہ ہم میں سے نہیں ہے،، لفظ حدیث اور ترجمہ میں مناسبت نہیں ہے۔ ’’تفرق ،،کےمعنی جدائی ہونے کےہیں ،جدائی ڈالنے کےنہیں ہیں۔اس مقصدکےلیے ’’فرق،، کالفظ چاہئے ۔چنانچہ یہ حدیث سیوطی نےجامع صغیر میں طبرانی کےحوالہ سے’’من فرق فلیس منا، ہی کےلفظ کےساتھ ذکر کی ہے۔لیکن اس لفظ یعنی ’’من فرق،، کاوہ مطلب بنان کرنا جسے آپ نے کتاب میں عنوان مذکور کےتحت ذکرکیا ہے،مخدوش ہے۔اس لیے کہ یہ حدیث مسند احمد(1)(حاشیہ: مسند احمد4؍ 412-414 )،ترمذی(2) مستدرک حاکم (حاشیہ: کباب البیوع باب ماجاء فی کراهة ان یفرق بین الاهوین او بین الوالدة وولدها فی البیع (1283) 3؍580 وکتاب السبی باب فی کراهية التفریق بین السبی 1566- 3 ؍ 134، عن ابی ایوب الانصاری ، علامہ البانی نےاس حدیث کوحسن کہا ہے۔(1؍55) میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:’’ من فرق بین والدها ،فرق اللہ بینه وبین احبته یوم القیامة،، چنانچہ علامہ عبدالرؤف مناوی نے فتح القدیر شرح جامع صغیر 6 ؍ 187 میں اس مطول حدیث کی روشنی میں آپ کی پیش کردہ مختصر حدیث کی شر ح میں لکھا ہے:’’ من فرق ،ای بین والدة ووالدها فلیس منا، ای لیس من العاملین بشرعنا المتبعین لأمرنا،، علاوہ بریں یہ مختصر حدیث جومعقل بن یسار صحابی سےمروی ہے،سخت ضعیف ہےاس کی سند میں ایک راوی نصربن طریف ہیں اوروہ کذاب ہیں کما قال الهیثمی فی مجمع الزاوائد.
(4) ص: 125 میں مشکاۃ کےحوالہ سےایک حدیث بایں لفظ نقل کی گئی ہے:’’ النکا ح من سنتی ،فمن رغب عن سنتی ، فلیس منی،، اس کے بارے میں اس سے پہلے کبھی آپ کولکھا جاچکا ہےکہ کسی ایک روایت میں یہ پورا متن موجود نہیں ہے، بلکہ جومحتلف حدیثوں کا الگ الگ ٹکڑاہے، جس کوصاحب مشکوۃ نےایک جگہ جوڑ دیا ہے،اوراس طرح سے یہ حدیث زبان زدعوام وخواص ہوگئی ہے۔
(5) ص:147 میں سطر 17 میں لکھا گیا ہے وہ یعنی داؤد علیہ السلام درع اورلوہے کی مصنوعات بناتے تھے ۔حدیثوں میں صرف زرہ بنانے کا اورقرآن میں ’’صنعۃ لبوس،(الانبیاء: 8 ) کی تعلیم کاذکر ہے۔آپ کی کتاب میں درع کےبجائے’’زرہ ،، کےذکرپراکتفا ہونا چائیے۔
(6) ص: 149 کی آخری سطروں میں لباس کی کاٹ چھانٹ اوربناوٹ میں نئی نئی صورتیں پیدا کئے جانے ،اور ان کےاختیار رو جواز کے لیے جوشرطیں ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں اس ایک شرط کا اضافہ کرنا مناسب بلکہ ضروری ہے: ایسی وضع اور تراش ،لباس کی نہیں ہونی چائیے جوکسی غیر مسلم کی قومی یا مذہبی پوشاک ولباس کےمشابہ ہوجائے تاکہ ’’ من تشبه بقوم فهو منهم ،، کےخلاف نہ ہو۔
عبیداللہ رحمانی (مکاتب شیخ رحمانی بنام مولانا محمدامین اثری ص:132؍ 136)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب