سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13,14)امام معین کی تقلید میں حدیث کی مخالفت کرنا

  • 15202
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1739

سوال

(13,14)امام معین کی تقلید میں حدیث کی مخالفت کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱) تقلید ایک امام معین کی اس طور پر کرنا کہ اگرچہ کوئی مسئلہ اپنے مذہب کا مخالف حدیث رسولﷺ کے ہو، لیکن بوجہ تقلید معین کے اس پر اڑے رہنا اور حدیث رسول اللہﷺ کی مخالفت اختیار کرنا، اس تقلید کا کتاب و سنت سے کیا حکم ہے اور تعامل صحابہ و تابعین اور اقوال مجتہدین اس باب میں کیا ہے؟

(۲) حدیث صحیح یا حسن رسول اللہﷺ کے ہوتے ہوئے کسی کے قول مخالفِ حدیث پر عمل کرنا شریعت میں کیا حکم رکھتا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان دونوں سوالوں کا یہ ہے کہ وجہ ایسی تقلید سخت کی کہ اگرچہ قول مجتہد کا مخالف قول صاحب شریعت کے ہو، واجب سمجھنا تقلید امام معین کی ہر امورات جزئیہ میں ہے، اور جبکہ استیصال وجوبِ تقلید مجتہد معین کا ہو تو مطلب ثابت ہے، پس میں کہتا ہوں کہ وجوب تقلید مجتہد معین کی ہر امورات جزئیہ میں کسی دلیل سے دلائل اربعہ کے ثابت نہیں۔

مولانا عبدالعلی بحرالعلوم نے ’’ شرح مسلم الثبوت‘‘ میں لکھا ہے:

’’ وقیل : لا یجب الاستمرار، ویصح الانتقال، وھذا ھو الحق الذى ینبغى أن یؤمن به، ویعتقد علیه ، لکن ینبغى أن لا یکون الانتقال للتلھى ، فإن التلھلى حرام قطعا فى التمذھب کان وغیرہ، إذ لا واجب إلا ما أوجبه اللہ تعالیٰ، والحکم له، ولم یوجب علی أحد أن یتمذھب بمذھب رجل من الأمة، فإیجابه تشریع جدید۔‘‘ انتھی (فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت ۲؍۴۳۸)

’’ اور کہا گیا ہے کہ استمرار واجب نہیں ہے اور انتقال درست ہے۔ یہی چیز برحق ہے، جس پر کہ ایمان لانا چاہیے اور اس پر اعتقاد رکھنا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انتقال لہو ولعب کے لیے ہو، کیونکہ لہو و لعب قطعاً حرام ہے، چاہے وہ مذہب کے بارے میں ہو یا اس کے علاوہ۔ کیونکہ واجب وہی کچھ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے واجب کہا ہے اور اسی کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی پر واجب نہیں کیا ہے کہ وہ امت میں سے کسی شخص کے مذہب سے چمٹا رہے، لہٰذا اس کا ایجاب تشریع جدید ہے۔ ختم شد۔‘‘

علامہ ابن امیر حاج نے ’’ شرح تحریر الأصول‘‘ میں لکھا ہے:

’’ لو التزم مذھباً معینا کأبى حنیفة والشافعى قیل : یلزمه، وقیل : لا ، وھو الأصح۔‘‘ انتھی (التقریر والتحریر لابن أمیر الحاج ۳؍ ۴۶۷)

’’ اور اگر اس نے کسی معین مذہب کا التزام کرلیا جیسے ابوحنیفہ اور شافعی، تو کہا گیا ہے کہ وہ اس کو لازم ہے اور ایک قول یہ ہے کہ لازم نہیں اور یہی درست ہے۔ ختم شد۔‘‘

علامہ شرنبلالی نے ’’ عقد الفرید‘‘ میں لکھا ہے:

’’ لیس علی الإنسان التزام مذھب معین ‘‘ انتھی (العقد الفرید لبیان الراجح من الخلاف فى جواز التقلید ص : ۳۰، مخطوط)

’’ کسی معین مذہب کا التزام انسان کے لیے ضروری نہیں ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور ’’ طوالع الأنوار‘‘ میں مذکور ہے:

’’ وجوب تقلید مجتھد معین لا حةۃ علیه، لا من جھة الشریعة ولا من جھة العقل، کما ذکره الشیخ ابن الھمام من الحنیفة فى فتح القدیر، وفى کتابه المسمی بتحریر الأصول، وبعدم وجوبه صرح الشیخ ابن عبدالسلام فى مختصر منتھی الأصول من المالکیة، والمحقق عضد الدین من الشافعیة۔ وذکر ابن أمیر الحاج فى التقریر شرح التحریر: إن القرون الماضیة من العلماء أجمعوا علی أنہ لا یحل لحاکم ولا مفت بتقلید رجل واحد بحیث لا یحکم ولا یفتى فى شىء من الأحکام إلا بقوله۔‘‘ انتھی

’’ کسی متعین مجتہد کی تقلید کے واجب ہونے پر نہ کوئی شرعی دلیل ہے اور نہ عقلی، جیسا کہ حنفی علما میں سے شیخ ابن الہمام نے فتح القدیر میں اور اپنی تحریر الاصول نامی کتاب میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ مالکی علما میں سے شیخ ابن عبدالسلام نے مختصر منتہی الاصول میں اور شافعی علماء میں سے محقق عضد الدین نے تقلید کے عدم وجوب کی صراحت کی ہے اور ابن امیر الحاج نے ’’ التقریر شرح التحریر‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ قرون ماضیہ کے علماء نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ کسی حاکم اور مفتی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایک آدمی کی اس طرح تقلید کریں کہ حاکم اس کے قول کے بغیر حکم صادر نہ کرے اور مفتی اس کے قول کے بغیر فتویٰ جاری نہ کرے۔‘‘

جیسا کہ علامہ قرافی نے تنقیح میں فرمایا:

’’ وأجمع الصحابة علی أن من استفتی أبا بکر و عمر رضی اللہ عنھما فله أن یستفتى أباھریرة ومعاذ بن جبل رضی اللہ عنھما وغیرھما، ویعمل بقولھما من غیر نکیر۔‘‘ انتھی (شرح تنقیح الأصول للقرافى ص: ۳۳۹)

’’ اور اجماع کیا ہے اصحاب رضی اللہ عنہم نے اس بات پر کہ مثلاً جس شخص نے مسئلہ پوچھا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے ، وہ مسئلہ پوچھے حضرت ابوہریرہ و معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما سے اور عمل کرے قول پر ان دونوں کے بغیر نکیر کے۔‘‘

پس معلوم ہوا کہ کوئی شخص حنفی مذہب بغیر تلہی فی المذہب کسی مسئلہ پر امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے عمل کرے، اگرچہ کوئی ضرورت داعی بھی اوپر عمل کرنے مسئلہ مذہب شافعی رحمہ اللہ کے نہ ہو، جائز و درست ہے۔ مثلاً کوئی حنفی المذہب اگر وتر ایک رکعت یا پانچ رکعت محض باتباع سنت کے پڑھے تو اس کو ثواب ہوگا اور معاذ اللہ اڑے رہنا اوپر اسد قول امام کے جو صریح مخالف حدیث صحیح غیر منسوخ و غیر مؤول کے ہو، باوجود قدرت رجوع کرنے کے طرف ان احادیث صحیحہ کے کہ مخالف قول امام کے ہیں اور نہ چھوڑنا قول امام کا باوجود مخالفت اس کی کہ قول نبی اکرمﷺ سے، از قسم شرک و اتخاذ ارباب من دون اللہ کے ہے۔ کسی مسلمان کو ایسی تقلید کرنا حلال نہیں، بلکہ حرام ہے۔

حق تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا ۚ... ﴿٧﴾...الحشر

’’ اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ۔‘‘

اور بھی فرمایا:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّـهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ ...﴿٢١﴾...الأحزاب

’’ بلاشبہ یقینا تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے۔‘‘

اور بھی فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّـهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسولِ ... ﴿٥٩﴾...النساء

’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم سے حکم دینے والے ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔‘‘

اوربھی فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَرفَعوا أَصوٰتَكُم فَوقَ صَوتِ النَّبِىِّ... ﴿٢﴾...الحجرات

’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو۔‘‘

پس جبکہ بلند کرنے سے آواز کو آواز پر نبی کریمﷺ نے منع فرمایا، کیا حال ہے ان لوگوں کا کہ صریح مخالفت قول نبی کی کرتے ہیں اور اسی قول مخالف کو اپنا دین و ایمان سمجھتے ہیں؟

مولانا اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ ’’ تنویر العینین‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’ لیث شعرى کیف یجوز التزام تقلید شخص معین مع تمکن الرجوع إلی الروایات المنقولة عن النبى ﷺ ، الصریحة الدالة علی خلاف قول الإمام المقلد، فإن لم یترک قول إمامه ففیه شائبة من الشرک، کما یدل علیه حدیث الترمذى عن عدى بن حاتم أنه سأل رسول اللہ ﷺ عن قوله ( اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ) فقال : یا رسول اللہ إنا لم نتخذ أحبارنا ورھباننا أربابا، فقال : إنکم حللتم ما أحلوا وحرمتم ما حرموا۔‘‘ انتھی (تنویر العینین ص: ۱۱۰، ۱۱۱)

’’ اے کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کیسے جائز ہوسکتی ہے کسی معین شخص کی تقلید، اس کے باوجود کہ نبی ﷺ سے منقول صریح روایات جو امام مقلد کے قول کے خلاف دلالت کرتی ہیں، ان کی طرف رجوع کرنا ممکن ہے۔ پس اگر وہ اپنے امام کے قول کو ترک نہیں کرتا ہے تو اس میں شرک کا شائبہ ہے، جیسا کہ عدی بن حاتم کے واسطے سے ترمذی کی حدیث دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا: ’’ ان لوگوں نے اپنے احبار و رہبان اور مسیح بن مریم کو اللہ کے بالمقابل رب بنا رکھا ہے۔‘‘ تو اے اللہ کے رسولﷺ ! ہم نے تو اپنے احبار و رہبان کو رب نہیں بنایا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے وہ چیزیں حلال کرلیں جنھیں انھوں نے حلال کیا اور وہ چیزیں حرام کرلیں جنھیں انھوں نے حرام قرار دے دیا۔ ختم شد۔‘‘

شیخ محی الدین ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہے:

’’ لا یجوز ترک آیة أو خبر صحیح بقول صاحب أو إمام، ومن یفعل ذلک فقد ضل ضلالا مبینا وخرج عن دین اللہ۔‘‘ انتھی (الفتوحات المکیة لابن عربى ۲؍ ۱۶۴)

’’ کسی صحابی یا امام کے قول کی بنیاد پر کسی آیت یا خبر صحیح کا ترک جائز نہیں ہے اور جس نے ایسا کیا وہ واضح گمراہی میں مبتلا ہوا اور اللہ تعالیٰ کے دین سے خارج ہوگیا۔ ختم شد۔‘‘

عبدالوہاب شعرانی نے ’’ الیواقیت والجواھر‘‘ میں لکھا ہے:

’’ وکان الإمام أحمد یقول : لیس لأحد مع اللہ ورسوله کلم، لا تقلدنى، ولا تقلدن مالکا، ولا الأوزاعى، ولا النخعى ولا غیرھم، وخذ الأحکام من حیث أخذوہ من الکتاب والسنة۔‘‘ (فتاویٰ ابن تیمیة (۲۰؍ ۱۲۲) إعلام الموقعین ۲؍ ۳۰۲)

’’ اور امام احمد کہا کرتے تھے: اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کسی کو کلام کا حق نہیں۔ تم میری تقلید کرو اور نہ مالک اور نہ اوزاعی کی اور نہ نخعی وغیرہ کی۔ احکام کا استنباط وہاں سے کرو جس کتاب و سنت سے انھوں نے کیا۔‘‘

اور فرمایا امام ابوحنیفہ نے: ’’ اترکوا قولي بخبر الرسولﷺ ‘‘

اور فرمایا امام شافعی نے جیسا کہ شرح میں جیسا کہ میزان شعرانی اور ردالمحتار میں ہے:

’’ إذا صح الحدیث فھو مذھبى ‘‘ ( المجموع للنووى (۱؍ ۶۷۳) ردالمحتار ۱؍ ۳۸۵)

’’ اگر کوئی حدیث صحیح ہے تو وہی میرا مذہب ہے۔‘‘

اور اسی طرح دوسری کتابوں میں مذکور ہے۔ نقل سب عبارتوں کی موجب طوالت ہے اور تحقیق اس مسئلہ کی بسطاً و تحقیقًا کتاب ’’ معیار الحق‘‘ للمحدث الدیلوي میں موجود ہے۔ من شاء فلینظر۔

حررہ أبو الطیب محمد شمس الحق عفی عنہ

سید محمد نذیر حسین    أبو الطیب محمد شمس الحق ۱۲۹۵ھ
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 98

محدث فتویٰ

تبصرے