سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(123)مجبوری میں سود کا حکم

  • 14909
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2046

سوال

(123)مجبوری میں سود کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مولوی صاحب جواپنے آپ کو عقیدتا وعملااہلحدیث کہتا ہے اس کاخیال ہے کہ اگرکہیں قحط سالی واقع ہوجائے اورکسی  شخص کے بچے واہل خانہ فاقہ کشی کی زندگی بسرکررہے ہوں یا کچھ دنیاوی معاملات کی وجہ سے مجبورہواوراسےکچھ پیسوں کی ضرورت ہواورکسی دوسرے ذریعہ سےاسےرقم نہ مل رہی ہوتواس کے لیے جائز ہے کہ  وہ سودپررقم حاصل کرکے اپنی ضروریات کو پوراکرلے اوربطوردلیل قرآن کریم کی یہ آیت پیش کرتا ہے:

﴿فَمَنِ ٱضْطُرَّ‌ غَيْرَ‌ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ‌ۭ رَّ‌حِيمٌ﴾ (البقرة۲/۱۷۳)

‘‘جوشخص مجبوری میں ڈال دیا جائے اس حال میں کہ نہ باغی ہواورنہ ہی حدسےبڑھنے والاتواس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔بے شک اللہ تعالی غفورورحیم ہے۔’’

اس آیت کے لحاظ سے بحالت مجبوری حرام کھانا جائز ہے لہذا اس شخص کو بھی سخت مجبوری درپیش ہے لہذا اس کے لیے سود کی رقم لیناجائز ہے اس مولوی صاحب کو اس کے متعلق صحیح احادیث بھی بتائی گئی ہیں لیکن وہ اپنے موقف پراڑارہاہےاوراسی طرح اس سے یہ بھی دریافت کیاگیا کہ یہ موقف سلف صالحین میں سے بھی کسی کا ہے؟جوابااس نے کہا کہ سلف یاخلف اورحدیث وغیرہ کی یہاں کوئی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن پاک ناطق اوریقینی ہےحدیث اورسلف صالحین کا عمل ظنی ہے اس لیے یقین ظن پرغالب ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ صورت میں ایسے شخص کے لیے اپنی اوراپنے اہل خانہ بال بچوں کی جان بچاےنے کے لیے سودپرقرضہ لینا جائز ہے ۔اگرچہ سودلیناودینادونوں گناہ کبیرہ ہیں جس کے متعلق قرآن کریم اوراحادیث میں نہایت تفصیل کے ساتھ وضاحت موجود ہے اورسودکوحرام قراردیا گیا ہے مگرجب یہ شخص نہایت مجبوری اوربےبسی کی حالت میں مجبوراورپریشان ہےاوراسے سودلینے کے علاوہ کوئی اورراستہ نظرنہیں آرہاکہ وہ اپنے بال کاشکم سیرکرسکے ایسی صورت میں اس کے لیے سودلینا جائز ہے اورایسی حالت کو شرعی اصطلاح کے مطابق اضطرارکہاجاتا ہے اوراضطراری حالت کوشریعت اسلامیہ نے مستثنی قراردیاہےکیونکہ کتنی ہی اشیاء ہیں جن کو حرام قراردینے کے بعد بھی اضطراری صورت میں جائزوحلال قراردیاگیا ہے  جس طرح میتۃ لحم الخنزیر،دم(خون)شراب وغیرہ۔

حاصل مطلب کہ حرام اشیاءکوبوقت مجبوری استعمال کرناجائزقراردیاگیاہے معلوم ہواکہ الضروریات تبیح المخطورات والاقائدہ درست ہے اس کے بعدقرآن کریم کی آیت ذکرکی جاتی ہےجس میں اس مسئلہ کی وضاحت پورےطریقے سےموجود ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:

﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّ‌مَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِ‌رْ‌تُمْ إِلَيْهِ﴾ (الانعام:۱۱۹)         

‘‘یعنی اللہ تبارک وتعالی نے تمہار ے لیے تم پرجن چیزوں کوحرام قراردیا ہے ان کو وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے مگرجب تم  مجبورہوجاو۔’’

اس آیت کریمہ میں دومقام پرکلمہ ماکااستعمال ہواہے ایک حرام سےپہلے اوردوسرااضطرارسےپہلے۔دونوں جگہوں پرماکاکلمہ عام ہے ،یعنی دونوں جگہوں پرکسی بھی چیزکی تخصیص بیان نہیں ہوئی اس لیے پہلی جگہ میں یہ بیان ہے کہ حرام کے تمام افرادوغیرہ ماکےعموم میں داخل ہیں ہمارے لیے اس نقطہ کو مزیدتقویت اس حقیقت سے بھی ملتی ہے کہ قرآن کریم سورۃ الانعام والی آیت میں فرمایاگیا ہے:

﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّ‌مَ عَلَيْكُمْ﴾

یعنی حالانکہ اللہ تعالی تمہیں حرام کے متعلق تفصیل کے ساتھ سمجھایاہے،لیکن جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سورۃ انعام مکی ہے اوراس میں زیربحث آیت سےپہلے‘‘ميتة ولحم الخنزير’’وغیرہماکی حرمت کاتذکرہ موجودہی نہیں بلکہ اس آیت کے دوسرے رکوع کےبعدان محرمات کاتذکرہ کیاگیا ہے اسی طرح کچھ حرام اشیاء کاذکرسورہ نحل کےآخرمیں کیاگیاہے لیکن سورۃنحل سورۃانعام کے بعدنازل ہوئی ہے۔ان دونوں سورتوں کے علاوہ دوسری کسی بھی مکی سورۃ میں ان کا(حرمت)ذکرنہیں۔

زیربحث آیت:

﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّ‌مَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِ‌رْ‌تُمْ إِلَيْهِ﴾

کامطلب ہوگاکہ حالانکہ اللہ تبارک وتعالی تمہیں حرام اشیاء کے متعلق تفصیل سےسمجھارہا ہے اورسمجھائے گایعنی یہاں ماضی بمعنی مستقبل کے ہے اورکلام عرب میں ایسا مستقبل کافعل جس کا وقوع یقینی ہواس کے لیے ماضی کا فعل استعمال کرتے ہیں،یعنی ایسے آنے والےکام کا وقوع ایسا یقینی ہوتا ہے کہ گویاوہ ہوچکا ہے۔مثلا:

﴿أَتَىٰٓ أَمْرُ‌ ٱللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ﴾ (النحل:١)

‘‘اللہ کا حکم آپہنچاپس تم اس میں جلدی نہیں کرو۔’’

وغیرہمامن الآیات یعنی مقصدیہ ہواکہ تمہیں اپنے خیال کے مطابق حلال شے کوحرام قراردینے کا اختیارنہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالی وقتافوقتاحرام وحلال کے متعلق بیان دیتا رہتا ہےاوردیتارہےگا،تمہیں اس مسئلہ کے متعلق بھی ارشادربانی کامنتظررہنا چاہئےجسے اس سے پہلے حرام کیاگیا ہے اس کو سمجھیں اورجس کے متعلق بعدمیں آگاہی معلوم ہواس کےمطابق عمل کریں۔

خلاصہ یہ ہوا کہ زیربحث آیت میں حرام اشیاء کے بیان سےپہلے رب تعالی نے یہ تفہیم دی ہے کہ تمہاری طرف حرام اشیاء کے متعلق وحی کی رہنمائی آتی رہے گی۔لہذا تمہیں اس تفہیم پرعمل کرناچاہئےاورتم اپنے خیال سےحرام اورحلال اشیاء کا تقررنہ کرواوروہ حرام اشیاء بعدمیں تمہیں وقتافوقتابتائی جائیں گی جن میں سےمیتۃ(مردار)خنزیرکاگوشت ،خون وغیرہ بھی شامل ہوں گے اوربعدمیں سوداورشراب وغیرہ کی حرمت سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔

ان تمام حرام اشیاء کے متعلق یہ اصولی بات پہلے سے ہی ذہن نشین رکھیں کہ اضطراری حالت بہرحال مستثنی ہوگی﴿مَا اضْطُرِ‌رْ‌تُمْ إِلَيْهِ﴾گویامختصرالفاظ میں یہ کہا جائے کہ رب تعالی بعدمیں حرام اشیاءکا تذکرہ کررہا ہے۔اس سورت میں خواہ اس کے بعدنازل کی  گئی مکی ومدنی سورتوں میں ،لہذاپہلے ہی سے تمہیدی طورپریہ حقیقت ذہن نشین کروادی کہ آنے والی حرام اشیاء سے(جوبھی حرام کی جائیں)اضطراری حالت مستثنی رہے گی بس یہی  اصولی حقیقت ہے جوآنے والی تمام محرم اشیاء کے متعلق رہنمائی کرتی ہے۔

میرامطلب یہ ہے کہ اس آیت سےپہلے سورت میں یا کسی دوسری سورت میں جواس سےپہلے نازل ہوئی ہواگراس میں میۃ وغیرہ کی حرمت کاذکرہوتا توپھرشایدکسی کےلیےیہ کہنے کی گنجائش نکل آتی کہ یہ اضطراری حالت صرف میتۃ وغیرہ کے ساتھ خاص ہے نہ کہ کسی دوسری چیز کے ساتھ لیکن اب جوصورتحال ہے اس کے لحاظ سےآپ بخوبی سمجھ سکتےہیں کہ یہ احتمال ختم ہوجاتاہے۔اب ہمیں غورکرناہے کہ اللہ تبارک  وتعالی اس آیت میں مذکورہ محرم اشیاء کے علاوہ دیگرکون سی اشیاء ہیں جن کو حرام قراردیاگیا ہے۔

جس طرح ارشادفرمایا:

﴿حُرِّ‌مَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ‌ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَ‌دِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ٱلْيَوْمَ يَئِسَ ٱلَّذِينَ كَفَرُ‌وا۟ مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَٱخْشَوْنِ ۚ ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًا ۚ فَمَنِ ٱضْطُرَّ‌ فِى مَخْمَصَةٍ غَيْرَ‌ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ‌ۭ رَّ‌حِيمٌ﴾ (المائدہ۵/۳)

توجس طرح آیت میں المیتۃ وغیرہ کوحرام کےلفظ سب ملقب کیا گیا ہے تواس طرح سودپربھی حرمت کالفظ بولاگیاہے۔مثلافرمایا:

﴿وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بَا﴾ (البقرة:۲۷۵)

بہرحال حرام کی تمام اقسام پر‘‘ماحرم’’کااطلاق ہوسکتا ہے۔اوراس میں حرمت ربابھی داخل ہےلہذا‘‘ما’’کےدوسرے عموم میں بھی اضطرارکی دوسری اقسام داخل ہیں اوران سب میں کلمہ ماشامل ہےاوراضطراری کی بھی کئی اقسام ہیں جن کو مفسرین نے اچھی طرح وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

مثلا ایام قحط میں ایسی حالت ہوجائے آدمی کو جان کا خطرہ لاحق  ہوجائے یا کوئی ظالم شخص اسےمجبورکرےکہ حرام کھاوورنہ میں تجھے قتل کردوں گاوغیرہ ۔مذکورہ آیت میں اضطرارکومستثنی کیا گیا ہے ،یعنی ماحرم کی تمام اقسام سےاضطرارکی تمام اقسام مستثنی ہیں نیز اضطرارکی وضاحت تفسیرالمنارمیں اس طرح بیان کی گئی ہے:

((قوله إلا ماضطررتم إليه’’استثنامماحرمه فمتى وقعت الضرورة بإن لم يوجدمن الطعام عندشدة الجوع إلاالمحرم زال الحرمة وهذه قاعدة عامة فى يسرالشريعة الإسلاميه والضرورة تقدربقدرهافيباح للمضطرتزول به الضرورة ويتقى الهاك.))

مذکورہ عبارت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مضطرکے لیے بقدرضرورت حرام کو استعمال کرنا مباح ہے اسلامی شریعت کو عام کرنے کے لیے یہ قاعدہ عام ہے ۔اس کے علاوہ قرآن کریم میں یہ ارشادبھی ہے کہ﴿لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾مفسرین نے یہ کہا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ہے﴿وَإِن تُبْدُوا۟ مَا فِىٓ أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ ٱللَّهُ﴾تورسول اکرمﷺاورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کوبہت افسوس ہوا کہ جوافعال  ابھی واقع ہی نہیں ہوئے اوردل میں توہروقت کئی خیال آتے رہتے ہیں اوران خیالات کے متعلق بھی اگرمئواخذہ ہواتویہ بات بہت مشکل پڑجائے گی پھررسول اکرمﷺاورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کوتسلی کی خاطریہ آیت﴿ لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ....الخ﴾نازل ہوئی یعنی اللہ تعالی نفس کو اس بات کی تکلیف دیتا جواس کی قوت وبرداشت میں ہے ہواوراللہ تعالی کسی بندہ کو تکلیف مالایطاق نہیں دیتا۔

یہاں بھی انسان جوبھوک میں مررہا ہے ،اس کے لیے یہ بھی تکلیف ہے جس کابرداشت کرنا انسان سےمحال ہے،اس لیے اسے شخص کو مضطرکہاجائے گااوراس کے لیےبقدرضرورت حرام کا استعمال جائز ہے۔اس کے علاوہ رسول اکرمﷺنے فرمایا:

((إنماالأعمال باالنيات وإنمالكل امرىء مانوى.)) صحيح البخارى:بدءالوحى:رقم الحديث:١.

‘‘یعنی تمام اعمال کادارومدارنیت ہے۔’’

لہذاجوشخص اس حرام چیز کو جس نیت سےاستعمال کرے گااس لحاظ سےاس کا حساب وکتاب ہوگا۔باقی مولوی مذکورہ کا یہ کہنا کہ قرآن کریم ناطق اوریقینی ہے اورحدیث ظنی ہےوغیرہ اس کا یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حرمت رباتوجس طرح حدیث سےثابت ہے اسی طرح کئی آیات کریمہ بھی اس کی حرمت کا اثبات کرتی ہیں ۔دراصل قرآن اورحدیث میں فرق کرنے والااصول غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کو وحی خفی کہا جاتا ہے اورقرآن کریم کو وحی جلی اوروحی کانزول من جانب اللہ ہے توپھراس میں ظن کوآخرکیا دخل ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 471

محدث فتویٰ

تبصرے