سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(147) قربانی کے متعلق احادیث کی تحقیق

  • 14753
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2221

سوال

(147) قربانی کے متعلق احادیث کی تحقیق
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ماہِ جون کے شمارے میں قربانی کے احکامات اور فضائل دیئے گئے ہیں ان میں سے ایک حدیث میت کی قربانی کے حکم کے سلسلے میں لکھی ہوئی ہے۔

            ترمذی شریف میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے بعد مجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے قربانی کرنا مشروع اور جائز ہے۔ اس حدیث کے بارے میں وضاحت درکار ہے کہ آیا یہ حدیث ضعیف تو نہیں؟ اگر ضعیف ہے تو آئندہ شمارے میں اس کی وضاحت فر ما دیں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ بالا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت جو سنن ابو دائود۴۹/۳ اور ترمذی۴/۸۴ ٤٤ پر مروی ہے انتہائی ضعیف ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کے اسباب درج ذیل ہیں:

            ۱)         امام ترمذی نے اس روایت کے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ ھٰذا الحدیث غریب لا نعرفہ الاّ من حدیث شریکٍ یہ حدیث غریب ہے ہم اسے شریک کے واسطے کے علاوہ کسی اور واسطے سے نہیں پہنچانتے اور شریک بن عبداللہ القاضی کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی تقریب التہذیب ۱۴۵ پر فرماتے ہیں : ''سچا ہے لیکن کثرت سے غلطیاں کرتا ہے اور جب سے اسے کوفہ کا قاضی بنایا گیا اس کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا۔''

            امام مسلم نے صرف متابعت میں اس کی روایات نقل کی ہیں ان سے احتجاج نہیں کیا۔

            ۱)         اس روایت کی سند میں دوسری خرابی یہ ہے کہ شریک ابوالحسناء سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول راوی ہے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ یہ کون ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی تقریب ٤٠١ پر رقم طراز ہیں کہ:

            ۲)        تیسری خرابی یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنا والا حنش ہے جو ابو المعمر الکنانی ہے۔ یہ راوی بھی متکل فیہ ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے تقریب ۴۰۱ پر لکھا ہے کہ:  ''سچا ہے لیکن اس کی روایات میں وہم ہوتا ہے اور مرسل روایات بیان کرتا ہے۔''

            ۳)        تیسری خرابی یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنا والا حنش ہے جو ابوالمعمر الکنانی ہے۔ یہ راوی بھی متکلم فیہ ہے ۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے تقریب ۸۵ پر لکھا ہے کہ :  " صدوق له  ظلو هام  و يرسل''سچا ہے لیکن اس کی روایات میں وہم ہوتا ہے اور مرسل روایات بیان کرتا ہے۔''

            امام ابنِ حبان فرماتے ہیں کہ یہ کثیر الوہم ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بعض روایات نقل کرنے میں منفرد ہے اور قابل حجت نہیں ہے۔ ''

            امام ابنِ حبان فرماتے ہیں کہ یہ کثیر الوہم ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بعض روایات نقل کرنے میں منفرد ہے اور قابل حجت نہیں ہے۔(عون المعبود مع ابو داؤد۸۱/۳)

            اس بحث سے معلوم ہوا کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے اور قابل حجت نہیں۔

نوٹ:  اس کے علاوہ اسی مضمون کی ایک روایت(( عن يزيد  بن أرقم  قال  قلنا  يا رسول الله  ما هذه  الأضاحى  قال  سنة  أبيكم  إبراهيم .)) (ابن ماجہ (۳۱۲۸)۱۰۴۵/۲  بھی انتہائی ضعیف ہے بلکہ موضوع ہے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

            ۱)         اس کی سند میں عائذ اللہ المجاشعی ہے جس کے بارے میں امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ '' لا يصح  حديثه "اس کی حدیث صحیح نہیں ہے۔'' امام ابو حاتم نے کہا:  (ھو متروک الحدیث)  (تنقیح الرواة ۲۸۰/۱)حافظ ان حجر عسقلانی نے فرمایا:  ضعیف (تقریب:۱۶۲)

            ۲)        دوسرا راوی نفیع بن الحارث ابو دائود میں ہے۔ اس کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا:  ھو متروک (تنقیح الرواة۲۸۰/۱) امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں فرمایا:  ھو متروک واتّھم بوضع الحدیث حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے فرمایا:  متروک وقد کذّبہ ابن معینٍ (تقریب۳۵۹) معلوم ہوا کہ نفیع بن الحارث متروک الحدیث اور جھوٹا راوی ہے۔

            ۳)        اس کے علاوہ سلام بن مسکین عائذ اللہ سے روایت کرنے میں بھی منفرد بھی ہے۔ (تنقیح الرواة۲۸۰/۱)

            یہ مضمون نگار کی غفلت و تساہل کا نتیجہ ہے کہ اس نے تحقیق نہیں کی۔ اور مجلّہ الدعوة میں روایت طبع ہونے پر ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں، اُمید ہے کہ قارئین ہماری اس لغزش کو معاف کر دیں گے۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

تبصرے