السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک حدیث میں ہے کہ «بَدَأَ الاِسْلَامُ غَرِیْبًا» ’’ اسلام کا آغاز غربت سے ہوا…‘‘ اور دوسری حدیث میں ہے کہ«لَا تَزَالُ طَائِفةٌ مِّنْ اُمَّتِی ظَاهِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ» ’’میری امت کا ایک گروہ غالب اور حق پر رہے گا؟‘‘ کیا ان دونوں حدیثوں کا مفہوم ایک ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان دونوں حدیثوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے، چنانچہ پہلی حدیث امر واقع کے اعتبار سے بالکل ظاہر ہے اور اس کے بعد آگے الفاظ یہ ہیں:
«وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًافَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ»صحیح مسلم الايمان باب بيان ان الاسلام بداء غريبا وسيعود غريبا وانه يارز بين المسجدين ح:145)
’’اسلام اسی حالت غربت كی طرف لوٹ آئے گا جس طر ح اس کاآغازہو تھاغرباء کےلیے خوش خبری ہے۔‘‘
صحیح مسلم کے علاوہ دیگر کتب میں یہ الفاظ بھی ہیں:
«يحيون ما امات الناس من سنتي»(لم اجد)
’’غرباء سےمرا د وہ لوگ ہیں جومیر سنت کوزندہ کریں گے جسے لوگوں نےفوت کردیا ہوگا۔‘‘
ایک اور روایت میں الفاظ یہ ہیں:
«الَّذِينَ يُصْلِحُونَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ»(جامع الترمذي الايمان باب ماجاء الاسلام بداء غريبا وسيعود حديث:2630)
’’غرباءسےمراد وہ لوگ ہیں جو اس چیز کی اصلاح کریں گے جسے لوگوں نے خراب کردیا ہوگا۔‘‘
دوسری حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اصلاح، دعوت اور تعلیم و تعلم کا سلسلہ باقی رہے گا اور اس میں یہ بھی بشارت ہے کہ ایک گروہ ہمیشہ غالب اور حق پر رہے گا۔ غربت اس گروہ کے منافی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے یہ معنی ہیں کہ ان دونوں باتوں کا ایک ہی جگہ سے تعلق ہو یعنی یہ ممکن ہے کہ کسی جگہ اسلام حالت غربت میں ہو اور کسی جگہ اسلام کو غلبہ و سربلندی نصیب ہو اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ غربت کسی شہر میں زیادہ اور کسی میں کم ہو اور پھر غربت کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں، مثلاً بدعات کی کثرت یا نماز یا جماعت کا انکار یا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فقدان اور ان سب سے بڑھ کر غربت یہ ہے کہ اہل توحید مغلوب ہوجائیں اور شرک کو غلبہ حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شرک سے محفوظ رکھے… اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی علاقے میں اسلام کو اس قدر غلبہ حاصل ہو کہ صورت حال پہلے سے بھی بہتر ہو جائے یا ایک زمانہ کی نسبت دوسرے زمانہ میں اسلام کی حالت بہتر ہو جائے جیسا کہ امر واقع ہے کہ کئی علاقوں اور زمانوں میں ایسا ہوا۔ ایک اور حدیث میں جو یہ آیا ہے:
«لاَ يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ إِلَّا الَّذِي بَعْدَهُ شَرٌّ مِنْهُ»(صحيح البخاري الفتن باب لاياتي زمان الاالذي بعد شرمنه حديث:7068)
’’تم پر آنے والازمانہ ہرزمانہ پہلے سے زیادہ برا ہوگا۔‘‘
تو اسے اکثر و بیشتر صورت حال پر محمول کیا جائے گا اور یہ اس سے مانع نہیں ہے کہ بعض زمانے اپنے سے پہلے زمانوں سے زیادہ اچھے ہوں، مثلاً حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمه اللہ علیہ کا زمانہ سلیمان اور ولید کے زمانہ سے زیادہ اچھا تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه اللہ علیہ اور ان کے شاگرد رشید ابن قیم کا زمانہ اپنے سے پہلے دور سے زیادہ اچھا تھا کہ ان کی کوششوں سے سنت کو غلبہ نصیب ہوا اور اہل بدعت کی خوب خوب تردید ہوئی۔ اسی طرح جزیرۃ العرب میں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمه اللہ علیہ کی دعوت کے بعد جو تبدیلی آئی اس کی وجہ سے یہاں بھی صورت حال پہلے زمانے کی نسبت بہت زیادہ بہتر ہوگئی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب