سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) حيض اور استحاضہ میں فرق

  • 21527
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1558

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض عورتیں حیض اور استخاضہ کے درمیان فرق نہیں کرتیں،چنانچہ بسا اوقات استخاضہ کی وجہ سے لگاتار خون جاری رہتاہے اورجب تک خون بند نہیں ہوجاتا وہ نماز نہیں پڑھتیں،اس سلسلہ میں شریعت کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حیض وہ خون ہے جو عموماً ہر ماہ دستور الٰہی کے مطابق عورتوں کے رحم سے جاری ہوتا ہے،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح حدیث میں مذکور ہے(اور استخاضہ وہ خون ہے جو عورت کے رحم کے اندر کسی رگ میں فساد وخلل پیدا ہوجانے سے جاری ہوتا ہے) اس سلسلہ میں مستحاضہ عورت کی تین حالتیں ہیں:

1۔اگر اسے پہلی بار یہ خون آیا ہے یعنی پہلے سے اس کی کوئی اپنی عادت نہیں، تو وہ ہر مہینہ میں پندرہ دن ،یا جمہور علماء کے قول کے مطابق اس سے کچھ کم،جب تک پاک نہیں ہوجاتی نماز،روزہ اور شوہر کے ساتھ ہمبستری سے دور رہے گی،اگر پندرہ دن کے بعد بھی خون آرہا ہے تو وہ مستحاضہ ہے،اور ایسی حالت میں اپنے خاندان کی ہم عمر عورتوں کے ایام حیض پر قیاس کرکے چھ سات دن خود کو حائضہ شمار کرے گی،مگر یہ اس  صورت میں ہے جب اسے حیض اور استحاضہ کے درمیان تمیز نہ ہو۔

2۔اگر وہ حیض ار استحاضہ کے درمیان رنگ یا بو کے ذریعہ فرق کرلیتی ہے تو جب تک حیض کے خون کی علامت پائی جائے وہ نماز،روزہ اور شوہر کے ساتھ ہمبستری سے دور رہے اور پھر غسل کرکے نماز پڑھنا شروع کردے، بشرط یہ کہ یہ مدت پندرہ دن سے زیادہ نہ ہو۔

3۔اگر پہلے سے اس کی کوئی اپنی معروف عادت ہے تو وہ اپنی عادت کے بقدر نماز،روزہ اور شوہر کے ساتھ ہمبستری سے دور رہنے کے بعد غسل کرلے اور جب خون جاری ہوتو وقت ہوجانے کے بعد ہر نماز کے لیے وضو کرے،اور جب تک اگلے مہینہ کا حیض نہیں آجاتا وہ اپنے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔

یہ ہےمستحاضہ عورت کے سلسلہ میں وارد حدیثوں کا خلاصہ،جسے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے بلوغ المرام میں اور مجددین تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، نے’’المنتقیٰ‘‘میں ذکر کیا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:76

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ