سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(108) کیا شرب الدخان سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا؟

  • 6661
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 812

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک دفعہ اہل حدیث میں پڑھا تھا کہ شرب الدخان سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اس کا حوالہ اخبار فرمایئں۔ (عبد لرحیم از پتوکی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث کے الفاظ ہیں۔

نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن كل مسنكر ومفتر

’’ہرشے نشے والی اور فتور لانے والی چیز سے منع فرمایا۔‘‘ (جامع الصغیر سیوطی) شرب الدخان (تمباکو) سے دماغ میں نئے پینے والے کو فتور پیدا ہوتا ہے۔

دیگر

میرے نزدیک تمباکو کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ کیونکہ یہ مضر ہونے کی وجہ سے داخل  ويحرم عليهم الخبائث میں ہے۔ جو اصحاب اس کو جائز کہتے ہیں مجھے ان سے اختلاف ہے۔ مگر میں انکی نسبت برا گمان یا برا قول استعمال نہیں کرتا۔ کیونکہ مسئلہ قیاسی ہے منصوصی نہیں۔ (33/13/1)

تشریح

واضح ہو کہ حقہ کشی میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض حرمت کے قائل ہیں۔ ار بعض اباحت مع الکراہت کے اور بعض کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے۔ رد المختار میں ہے۔

اضطربت اراء العلما ء فيه فبعضهم قال بمرا هته وبعضهم قال بحرمته وبعضهم بابا حفه وافلر دوه بالنا ليف وفي شرح الوهبانية يمنع ن بعث الدخان وشربه وشاربه في الصوم لا شك يفطر وللعلامة الشيخ علي الاجهوره رسالة نقل فيها انه افتي بحله من يعتمد عليه من الماة المذاهب الاربعة قلت والف في حله سيد نا لالعارف عيد الغني النابلسي الحنفي رسالة سماها انصلح بين الاخوان في ابا حة شرب الدخان واقام الطامة الكبري علي القائل بالحرمة اوالكراهة فانها مما ن شرعيان لابد لهما من دليل ولا دليل علي ذلك فانه لم يثبت اسكاره ولا تفتيره ولا اضراره وان فرض اضراره للبعض لايلزم منه تحريمه علي كل احد انتهي

اور شیخ عبد الحق زبیدی تحریرفرماتے ہیں۔

قد تكلم العلماء المتاخرون في ذلك لانه لم يكن في القرون السالفة فمنهم من قرط في ذمة ومنهم من فرط مدحه ومنهم من توسط وقال انه مكروه تحريما وهذا عندي احسن الا قوال واعد لهما افلا قاطع بتحريمة وليس كل ذومنتن حراما والا لكان اكل الثوم والبصل والفجل زالكراث حراما هذا كله في شرب دخانه واما امكله وشمه فهو مكروه تنزيها عندي لا فلهما دون شرب دخانه انتهي

جو لوگ حقہ نوشی کی حرمت کے قائل ہیں۔ ان کا قول ناقابل اعتماد ہے۔ اس واسطے کی حرمت موقوف ہے۔ اوپردلیل قطعی کے اور قائلین حرمت نے حرمت پر کوئی دلیل قطعی قائم نہیں کی ہے۔  بلکہ جتنی دلیلیں وہ پیش کرتے ہیں۔ کل کی کل ظنی ہیں۔ اور وہ بھی مخدوش اور جو لوگ اباحت مطلق کے قائل ہیں ان کاقول بھی قابل اعتماد نہیں۔ اس واسطے کہ ان کے دلائل بھی مخدوش ہیں۔ اور جو لوگ اباحۃ مع الکراہتہ کے قائل ہیں۔ ان کا قول البتہ قابل اعتماد ہے۔ یہ گفتگو حقہ نوشی میں ہے۔  رہا تمباکو کا کھانا ار استعمال کرنا اس کا ناک میں سو کوئی دلیل معتبراس کی کراہت پر قائم نہیں اور تمباکو ایک پاک چیز  ہے۔ اور اس کا دھواں بھی پاک ہے۔ پس اس   کے پانی ناپاک ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور دھویئں کی وجہ سے پانی جو متغیر ہوجاتا ہے۔ سو اس سے وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا۔  کیونکہ نجاست کی وجہ سے پانی میں جب تغیر ہوتا ہے۔ تب پانی ناپاک ہوتا ہے۔ اور کسی چیز کیوجہ سے تغیر ہوتو ناپاک نہیں ہوتا۔ ہمارے اتنے بیان سے معلوم ہواکہ زید کا  قول غلط ہے ۔ زید کو لازم ہے۔ کہ بلادلیل کسی چیز کو حرام اورناپاک کہنے سے احتراز کرے۔ (فتاویٰ نزیریہ ج2 ص 502) (حررہ خلیل الرحمٰن عفی عنہ)

 

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص78

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ