سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(178) فرض نماز کے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنادرست ہے؟

  • 5685
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1260

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعد فرض نماز کے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنادرست ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاتھ اٹھا کر بعد نماز فر ض کے  دعا مانگنا درست ہے  ، کتاب عمل الیوم و اللیلہ لابن السنی میں ہے:

(ترجمہ)’’رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ، جو آدمی ہرنماز کےبعد اپنے ہاتھ پھیلائے اورکہے  ، اے میرے خدا اور ابراہیم  ، اسحاق ، یعقوب کے او رجبریل اورمیکائیل اور اسرافیل کے خدا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تو میری دعا کو قبول فرما ، میں بے قرار ہوں تو میرے دین کومحفوظ رکھ ، میں مبتلا ہوں،  مجھے اپنی رحمت میں لے لے ،میں گنہگار ہوں ہم سے فقر دور کردے میں مسکین ہوں تو اللہ پر  حق ہے کہ اس کے ہاتھوں کو خالی نہ لوٹائے۔‘‘

یعنی انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو بندہ ہر نماز کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلائے  ، پھر کہے اللہم الہٰی والہ ابرہیم الخ تو اللہ تعالیٰ اس کے دونوں ہاتھوں کو نامراد نہیں پھیرتا ہے ،اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بعد فرض نماز کے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا درست ہے  ، اس حدیث کے راویوں میں ایک راوی عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن اگر متکلم فیہ ہے جیسا کہ میزان الاعتدال وغیرہ میں مذکور ہے  ، لیکن اس کامتکلم فیہ ہونا ثبوت جواز و استحباب کے منافی نہیں کیونکہ حدیث ضعیف  سے جو موضوع نہ ہو استحباب و جواز ثابت ہوتا ہے۔ قال[1] فی فتح القدیر فی الجنائز والاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع انتہی۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ قال ابن ابی حاتم حدثنا ابی حدثنا ابومعمر المقری حدثنی عبدالوارث حدثنا  علی بن زید عن سعید بن المسیب عن[2] ابی ہریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع یدہ بعد ماسلم وھو مستقبل القبلۃ فقال اللھم خلص الولید بن الولیدو عیاش بن ابی ربیعۃ و سلمۃ بن ہشام و ضعفۃ المسلمین الذین لا یستطیعون حیلۃ ولا یہتدون سبیلا من ایدی الکفار و ذکرہ الحافظ ابن کثیر و تفسیر ایۃ الاالمستضعفین من الجرال والنساء والولدان لا یستطعوین حیلۃ ولا یہتدون سبیلا۔ یعنی ابوہریرہؓ سے روایت  ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعد سلام پھیرنے کے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا او رآپ قبلہ رُو تھے پس کہا اللہم خلص الولید بن الولید الخ اس حدیث کے راویوں میں علی بن زید ہے، جس کو حافظ ابن حجرنے تقریب میں ضعیف کہا ہے لیکن اس کا ضعیف ہونا ثبوت جواز و استحباب کے منافی نہیں ہے ، کما مر مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔ عن الاسود بن عامر عن ابیہ قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الفجر فلما سلم انحرف ورفع یدیہ ودعا الحدیث یعنی عامرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ فجر کی نمازپڑھی ، پس جب آپ نے سلام پھیرا تو قبلہ کی طرف سےمنحرف ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور دعا کی ، ان احادیث سے بعد نماز فرض کے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا قولاً  و فعلاً آنحضرتﷺ سے ثابت ہوا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ حررہ العاجز عین الدین عفی عنہ (سیدمحمد نذیر حسین)



[1]  ضعیف حدیث  سے استحباب ثابت ہوجاتاہے۔

[2]   ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرنے کےبعد قبلہ رخ بیٹھے ہوئے اپنے ہاتھ اٹھائے اور کہااے اللہ ولید بن الولید اور عیاش بن ربیعہ اور سلمہ بن ہشام اور کمزو رمسلمانوں کونجات دے جو کسی حیلہ کی طاقت نہیں رکھتے اور کفارکے ہاتھ سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 564

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ