سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(158) اشارہ بالسبابہ عندالتشہد فی الصلوٰۃ حدیث شریف سے ثابت ہے؟

  • 5665
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1508

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اشارہ بالسبابہ عندالتشہد فی الصلوٰۃ حدیث شریف سے ثابت ہے یا نہیں اور اس کا کیا حکم ہے اور محققین حنفیہ کا اسباب میں کیامسلک ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اشارہ بالسبابہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے:

(ترجمہ) ’’علی بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نمازپڑھنے کے دوران کنکریوں سے کھیل رہا تھا عبداللہ بن عمرؓ نے مجھ کو دیکھ لیانماز سے فارغ ہوکر مجھے اس سےمنع کیا اور فرمایا جس طرح رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے اسی طرح کیاکر میں نے پوچھا آپ کیسے کیا کرتے تھے فرمایا جب نماز میں بیٹھتے تو اپنی دائیں ہتھیلی دائیں ران پر رکھتے اور اپنی تمام انگلیاں بند کرلیتے اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی سے اشارہ فرماتے اور بائیں ہتھیلی بائیں ران پررکھتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ جب آپ نماز میں بیٹھتے تو دایاں ہاتھ اپنے گھٹنہ پر رکھتے اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی اٹھاتے اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے۔‘‘ (رواہ الترمذی)

اسی طرح صحیح مسلم و دیگر کتب احادیث میں حدیث اس باب کی موجود ہے اور اسی پر عمل ہے تمام صحابہ  اور تابعین و ائمہ اربعہ و دیگر محدثین متقدمین و متاخرین کا کسی اہل علم کا اس مسئلہ میں خلاف نہیں اور یہ جو بعض کتب فقہ حنفیہ میں کراہیت اس کی منقول ہے وہ مردود ہے قابل اعتبار اور لائق احتجاج نہیں اور ہر گز کراہیت اس کی بسند صحیح امام ابوحنیفہ تک نہیں پہنچی۔بلکہ امام محمد کو جو شاگرد رشید امام صاحب کے ہیں مؤطا میں اپنے بعد نقل حدیث اس  باب کی فرماتے ہیں۔ قال[1] محمد و بصنیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناخذ وھو قو ل ابی حنفیۃ انتہی اورمحقق حنفیہ شیخ کمال الدین ابن الہام فتح القدیر میں فرماتے ہیں۔ لا شک[2] ان وضع الکف مع قبض الاصابع لا یتحقق حقیقۃ فالمراد واللہ اعلم وضع الکف ثم قبض الاصابع بعد ذلک عند الاشارۃ وھو المروی عن محمد فی کیفیۃ الاشارۃ قال یقبض خنصرہ والتی تلیہا ویحلق الوسطی والابہام ویقیم المسجۃ وکذا عن ابی یوسف فی الامالی وھذا فرع تصحیح الاشارۃ وعن کثیر من المشائخ انہ لا یشیرا صلا و ہو خلاف الراویۃ والدرایۃ انتہی۔

اور اسی طرح ملا علی قاری تزئین العبارۃ فی تحسین الاشارۃ میں و شیخ ولی اللہ المحدث مسوی شرح موطا اور حجۃ اللہ البالغۃ میں اور محمد بن عبداللہ الزرکانی شرح موطا میں و شیخ عبدالحق دہلوی شرح مشکوٰۃ و شرج سفر السعادت میں  و علاؤ الدین حصکفی درمختار میں اور ابن عابدین رد المختار میں فرماتےہیں۔



[1]   امام محمد کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل پر ہی عمل کرتے ہیں اور ابوحنیفہ نے بھی یہی کہا ہے۔

[2]   یہ تو ظاہر ہے کہ ہاتھ  کی انگلیاں بند کرکے ہتھیلیاں ان پرنہیں رکھی جاسکتی مطلب یہ ہے کہ پہلے ہتھیلی رکھے پھر اشارہ کرتے وقت انگلیاں بند کرے اور امام محمد نے اشارہ کی کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ دونوں آخری انگلیاں بند کر رکھے انگوٹھے اور بڑی انگلی کا حلقہ بنائے اور سبابہ سے اشارہ کرے اور کچھ مشائخ اشارے کے قائل نہیں ہیں لیکن یہ عقل اور نقل دونوں کے برخلاف ہے۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ