اہل سنت والجماعت کے محققین علماء کی کیا رائے ہے کہ ایمان بالذاتہ یا اعمال کی وجہ سے بڑھتا گھٹتا ہے یا نہیں؟
دونوں لحاظ سے ایمان میں کمی بیشی بھی ہوتی ہے اور قوت و ضعف بھی آپ غور فرمائیں کہ ظاہری نور مثلاً سورج، چاند اور ستاروں کے نور میں کتنا فرق ہے۔ علی ہذا القیاس اندھیروں میں بھی کمی بیشی ہے۔ چاندنی چھٹکی ہوئی رات کی تاریکی اور آبر آلود اندھیری شب کی تاریکی میں بہت بڑا فرق ہے خصوصاً جب کہ آدمی کسی یاسمندر کی تہ میں بھی ہو،معنوی نور کی بھی یہی کیفیت ہے، فطری استعداد ریاضت نفسی اور تعمیل اوامر اور اجتناب عن المعاصی کے مختلف مراتب و مدارج کے لحاظ سے نور ایمانی میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے۔
چنانچہ انبیاء علیہم السلام کا نور ایمان بہ نسبت دوسرے مومنوں مثلاً صدیقین و شہداء و صالحین کے نور ایمان کے بہت زیادہ ہ ہوتا ہے۔چنانچہ ارشاد خداوندی ہے کہ ’’تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور اور روشن کتاب آئی ہے‘‘ اس آیت میں آنحضرتﷺ کی ذات کو برسبیل مبالغہ’’نور‘‘ فرمایا ہے اور پھر دوسرےمومنوں کے نورایمانی میں بھی فرق ہے، شہداء کا نور ایمانی دوسرے مومنوں سے زیادہ ہے اور عام مومنوں کے نور سے خواص کانور ایمانی زیادہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان ایک وہبی چیز ہے اور وہبی چیز مشیت ایزدی پرموقوف ہوتی ہے۔ یختص برحمتہ من یشاءجن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے نگاہ و در رس عطا کررکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ آیت اولئک الذین انم اللہ علیہم الایۃنور ایمانی کے مختلف درجات و مراتب کی طرف اشارہ کررہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ قاضی ناصر الدین بیضاوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مراتب کےلحاظ سے چار درجوں میں تقسیم کردیاہے پس اس صورت میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ تمام مومنوں کا نور ایمانی ایک جیسا ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہے۔ دراصل ایمان میں کمی بیشی نہ ہونے کا خیال محض قرآن میں عدم تدبر کی وجہ سے پیداہوا ہے اور اس کی بنیاد متکلمین کی تقلید ہے قرآن مجید میں بہت سی آیتوں مثلاً یخرجہم من الظلمات الی النور الایۃ یخرج الناس من الظلمات الی النور الایۃ وجعلنا لہ نور ایمشی بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظلمات الایۃ نور علی نور یھدی اللہ لنورہ من یشاء الایۃوغیرہ جہاں کہیں بھی نور کا ذکر ہے وہاں نو رایمان مراد ہے۔ماسوائے سورہ انعام کی آیت کے جعل الظلمات والنور الایۃکہ وہاں ظلمات اور نور سے رات اوردن مراد ہیں۔
یہ بات توظاہر ہے کہ ایمان کا وجود عینی نور ہے اور یہ نور شرح صدر سے پیدا ہوتا ہے اور شرح صدر کے مدارج چونکہ مختلف ہیں اس لیے لازمی طور پر نور ایمان کے مراتب بھی مختلف ہوں گے چنانچہ امام راغب نے مفردات قرآن میں اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے شرح صدر کا مرتبہ چونکہ تمام انبیاء سے بلند ہے لہٰذا ان کا ایمان بھی سب سےزیادہ ہے اور آنحضرت ﷺ نے خود بھی فرمایا ہے انا اتقاکم واعلیکم باللہ الحدیث ، چنانچہ محبت و رغبت الی اللہ اور خشوع و خضوع، صبر و قناعت ،تسلیم و رضا اور اجتناب از معاصی و حرص و ہوا کے تفاوت درجات کی بنا پر ایمان میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہوجاتا ہے بیضاوی نے اس مقام و خشوع اور زیادت ایمان کی ایات کو جمع کیا ہے۔
اب تک جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ ایمان کے ارکان اور اعتقادی واجبات تھے، خداوند تعالیٰ تو اس سے بھی زیادہ بلند مراتب کی طرف راہ نمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تم کہو ہم نے اللہ کارنگ اختیار کیا اور اللہ کے رنگ سے اور کون سا رنگ بہتر ہوسکتا ہے اوررنگ کپڑے کے ظاہر اورباطن میں نفوذ کرجات اہے اور رنگ سے مراد یہاں پوری اطاعت اور فرمانبرداری ہے پھر جس طرح کپڑے پر کبھی رنگ گہرا ہوتا ہے اور کبھی ہلکا، یہ کیفیت اطاعت کی کمی بیشی سے پیدا ہوتی ہے جو لوگ صفات کاملہ سے متصف ہوتے ہیں، ان کاایمان زیادہ ہوتا ہے اور جو صفات کاملہ میں ناقص ہوتے ہیں ان کا ایمان بھی کم ہوتاہے، اب ہم اس بحث کو ایک اور طریقہ سے شروع کرتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کاواقعہ مذکور ہےکہ آپ نے عرض کیا رب ارنی کیف تحیی الموتی قال اولم تؤمن قال بلیٰ ولکن لیطمئن قلبی یہ آیت سب سے بڑی دلیل ہے کہ نفس ایمان میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔
اگر ایمان صرف تصدیق اور اقرار ہی کا نام ہو، تو اس میں کبھی اضافہ کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی ابراہیم علیہ السلام کی تصدیق اور اقرار میں کچھ فرق آیا تھا اور ابوسعید خدری کی حدیث میں صاف مذکور ہے کہ جب جنتی لوگ جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ’’جس کے دل میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکال لو‘‘ اور ابوسعید کی دوسری حدیث میں جس کو بخاری نے روایت کیا یہ لفظ ہیں کہ جس کے دل میں ایک ذہ کے برابر بھی ایمان ہو، اسے نکال لو‘‘ تو اس سے معلوم ہوا کہ ایمان شرعی ایک ذرہ تک بھی معتبر ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق آنحضرتﷺ نے فرمایا: اگر ابوبکر کے ایمان کو تمام اُمت کے ایمان سے تولا جائے تو بھی ابوبکر ان سے بڑھ جائے گا‘‘
سلف صالحین کا مذہب یہ تھا کہ ایمان دل کے اعتقاد ، زبان کے اقرار اور اعضا کے اعمال کا نام ہے، اور وہ اعمال کو ایمان کا جز یا شرط قرار دیتے ہیں یہ یوجہ ہے کہ وہ ایمان کی کمی بیشی کے قائل ہیں، مرجیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ’’ایمان د ل کے اعتقاد اور زبان کے اقرار کا نام ہے‘‘ فقط۔
کرامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ایمان صرف توحید و رسالت کے اقرار کا نام ہے، معتزلہ کا خیال ہے کہ ایمان دل کے اعتقاد، زبان کے اقرار اور اعضاء کے اعمال کا نام ہے، سلف صالحین اور معتزلہ کے مذہب میں فرق یہ ہے کہ سلف اعمال کو کمال ایمان کے لیے شرط قرار دیتے ہیں اور معتزلہ صحت ایمان کے لیے چنانچہ بخاری شریف کے باب ’’الایمان یزید و ینقص‘‘ کےتحت علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں اس بحث کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔
یہ بھی یاد ہے کہ ایمان کی کمی بیشی کی بحث کا تعلق یوم آخرت اور خدا تعالیٰ سے ہے کہ قیامت کے دن خداوند تعالیٰ ایمان کی کمی بیشی کےلحاظ سے فرق مراتب کریں گے ورنہ دنیا میں کسی کے ایمان میں فرق نہیں ہوسکتا، جو شخص بھی ایمانیات کا اقرار کرے گا ، اس کو ہم مومن ہی کہیں گے اور اس پرمومنون کے احام جاری ہوں گے تاوقتیکہ وہ کسی صریح عمل کفر کا ارتکاب نہ کرے مثلاً کوئی بت کو سجدہ کردے ، محمد بن نصر مروزی اور قاسم لالکائی نے بہت سے اماموں اور فقہاء کے نام گنائے ہیں جن کامذہب تھا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہےاور قاسم نے بسند صحیح امام بخاری سےنقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں مختلف شہروں میں قریباً ایک ہزار عالم سےملا، ان میں سے ایک نے بھی ایمان کی کمی بیشی سے اختلاف نہیں کیا۔ امام بخاری نے حدیث الحب والبعض فی اللہ بیان کرکے اس سے بھی ایمان کی کمی بیشی کا استدلال کیا ہے اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے تو ضروری ہے کہ ان میں سے اگر کوئی رکن رہ جائے تو اس قدر اسلام کم ہوجائے گا اور شرعی اعتبار سے اسلام اور ایمان ایک ہی چیز ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاخرجنا من کان فیہا من المؤمنیناور پھر فرماتے ہیںوما وجدنا فیھا ....؟؟؟ والمسلمینتو جس قدر اسلام کم ہوگا ایمان بھی کم ہوگا۔
یہاں بعض لوگوں نے اعتراض کیاہے کہ پانچ ارکان اسلام میں سے آخری چار چیزوں کی بنیاد کلمہ توحید اور رسالت پر ہے کیونکہ اگر شہادتین نہ ہوں تو باقی چار چیزیں نماز، روزہ، حج،زکوٰۃ قبول نہ ہوتیں تو معلوم ہوا کہ کلمہ شہادتین مبنی علیہ ہے اور باقی چار چیزیں مبنی ہیں اور مبنی علیہ میں مغائرت ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ اعمال ایمان کی اصلی حیثیت سے خارج ہیں۔ اس کاجواب یہ ہےکہ ایک چیز کی بنیاد کسی شے پر ہو اور پھر وہ دونوں چیزیں مل کر ایک تیسری چیز کے لیے بنیاد ہوں، یہ ہوسکتا ہے مثلاً ایک مکان ہی کو لیجئے اس میں بحیثیت افراد اینٹ لکڑی مٹی لوہا وغیرہ بہت سی چیزیں ہیں اور بحیثیت مجموعی ان تمام چیزوں کو ایک ہی لفظ مکان سے تعبیر کرلیا جاتا ہے۔
ایک درخت اپنی شاخوں کی حیثیت سے بہت سی چیزوں پرمشتمل ہے اوربحیثیت مجموعی وہ ایک ’’درخت‘‘ ہے چنانچہ آنحضرت ﷺنے بھی ایمان کو درخت سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایمان کی ساستر سے کچھ اوپر شاخین اور وہ شاخیں سب اسلام کے احکام ہیں، فتح الباری میں ان تمام شاخوں کو ایک ایک کرکے گنایا ہے اور تمہارے قول کے مطابق توایمان کی سرے سے کوئی شاخ سے ہی نہیں بلکہ وہ صرف تصدیق اور اقرار ہے آنحضرتﷺ نے اسلام کے احکام کو ایمان کی شاخیں قرار دے کر ان کو ایمان کا جزو بنا دیا۔
قرآن مجید کی ان آیات پر بھی غور کرو اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ایک رخ ہوکر اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی ہے سیدھا دین اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ دین ہیں اور عنداللہ دین اسلام ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ ’’اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے‘‘ اب غور طلب یہ چیز ہے کہ ایمان اسلام ہے یانہیں؟ اگر ایمان اسلام ہے تو فبہا، ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں ہوگا، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے ’’جو اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے گا تو وہ اس سے کبھی قبول نہ کیا جائے گا‘‘ تو ان آیات سے ثابت ہوا کہ اعمال دین ہیں اور دین اسلام ہے اور اسلام ایمان ہے، تو نتیجہ یہ نکلا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔
پھر جبریل علیہ السلام کی حدیث پر غور کرو کہ اس نے آنحضرتﷺ سے ایمان اور اسلام کے بارے میں سوالات کئے اور آپ نے فرمایا کہ یہ جبریل تھے، وہ لوگوں کو ان کا دین سکھانے کےلیے آئے تھے، اب اسلام کے احکام بھی دین کی حقیقت میں شامل ہوئے اور اعتقادات بھی اب یہ تمام چیزیں مل کر دین بنیں تو ان کی کمی بیشی سے دین و اسلام میں کمی بیشی ہوگی۔
پھر حضرت انس کی حدیث پر بھی غور کرو کہ آپ نے فرمایا، جس میں تین چیزیں ہوں اس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا۔ یہ ایمان کے تین اجزاء قابل غور ہیں،اگر ایمان نفس تصدیق و اقرار کانام ہے تو اس کے اجزاء نہیں ہوسکتے اور اگر اعمال اس میں شامل ہوں تو اس کے اجزاء اقرار دیئے جائیں گے اور ان کی کمی بیشی سے ایمان کی کمی بیشی ہوگی۔
پھر حضرت ابوسعیدخدری کیاس حدیت پر بھی غور کرو، جس میں آنحضرتﷺ نے اپنے ایک خواب کی کیفیت بیان فرمائی ہے کہ ’’میں سویا ہوا تھا،لوگ میرے سامنے پیش کیے جارہے تھے، ان کے جسموں پر قمیصیں تھیں، کسی کی قمیص چھاتی تک تھی اور کسی کی اس سے نیچے(حضرت )عمر کو بھی مجھ پر پیش کیاگیا، ان کی قمیص زمین پر گھسٹتی آرہی تھی‘‘ لوگوں نے سوال کیا : یارسول اللہﷺ آپ نے اس کی تعبیر کیا فرمائی، آپ نے فرمایا، ’’دین‘‘ تو اس سےمعلوم ہوا کہ لوگوں کا دین کم و بیش تھا جیسےکہ قمیص بھی بڑی چھوٹی تھی۔ اس حدیث سے حضرت عمرؓ کی تمام اُمت پر فضیلت ثابت ہوتی ہے اور حضرت ابوبکرؓ کی ان سے افضیلت دوسرے دلائل سے ثابت ہے، جس کا بیان اپنی جگہ پر مذکور ہے۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی تفسیر عزیزی میں اس مقام پر ایک عجیب بحث فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ ہر چیز کے تین وجود ہوتے ہیں، وجود عینی،وجود ذہنی، وجود لفظی۔ ایمان کے بھی یہ تین وجود ہیں۔ وجود عینی ہی کا دوسرا نام نور ہے جو کہ حجابات کے اُٹھ جانے کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے اور یہی اس کا اصلی وجود ہے اور مثل نورہ کمشکوۃ الایۃ میں یہی نور مراد ہے اور دوسرے تمام ظاہری انوار کی طرح اس میں بھی کمی بیشی ضعف و قوت پایا جاتا ہے، جب بھی کوئی حجاب اٹھتا ہے تو یہ نور زیادہ ہوجاتا ہے اور ایمان قوت پکڑ جاتاہے یہاں تک کہ کمال کے آخری مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ ایمان کا دوسرا وجود ذہنی ہے اور اس کے دو مراتب ہیں، ایک ملاحظہ اجمالی اور دوسرا تفصیلی۔ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کےمفاد کے طور پرجب معارف و غیوب بحیثیت کلی منکشف ہوجاتے ہیں تو اس کانام ملاحظہ اجمالی یا تصدیق اجمالی ہے اور جب افراد غیبیہ روشن ہوتے ہیں تو ان کا آپس میں ربط معلوم ہوتا ہے تو اس کانام تصدیق تفصیل ہے اور ایمان کا وجود لفظی شارع کی اصطلاح میں شہادتین کا نام ہے اور یہ تو ہر آدمی جانتا ہے کہ ایمان کالفظی وجود بغیر حقیقت کےتحقق کے کچھ فائدہ نہیں دےسکتا اگر ایسا ہوتا تو پیاسے کی پیاس پانی کا نام لینے سے بجھ جاتی اور روٹی کانام لینے سے بھوکے کی بھوک دور ہوجاتی، لیکن ایسا نہیں ہوتا چونکہ نطق اور تلفظ کے بغیر مافی الضمیر ادا نہیں ہوسکتا، لہٰذا مجبوراً کلمہ شہادت کے تلفظ کا اشخاص کے ایمان میں بہت بڑادخل ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے’’ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے لڑ سکتا ہوں جب تک کہ وہ کلمہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں، جب انہوں نے یہ کلمہ کہہ دیا تو انہوں نے اپنے خون اور مال ماسوائے حقوق اسلام کے مجھ سے بچالیے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ رہے گا، اس بحث سے یہ معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’حیا ایمان ہے‘‘ اور ’’زانی جب زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مؤمن نہیں ہوتا‘‘ اور ’’کوئی تم میں سے اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا ہمسایہ اس کی ایذا رسانیوں سےمحفوظ نہ ہوجائے‘‘ یہ تمام احادیث کمال ایمانی پر دال ہیں اور یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ جولوگ ایمان میں کمی بیشی کے قائل نہیں ہیں ایمان سے ان کی مراد وجو د ذہنی ہے نہ کہ غیر۔
خیال تھاکہ شاہ عبدالعزیز کے اقتباس پر اس بحث کو ختم کیا جائے۔ لیکن اس کے بعد امام احمد بن حنبل کا ایک رسالہ نظر سے گذرا جو اپنے انداز کے لحاظ سے بڑا عجیب ہے، اگر اس عبارت میں آپ کوئی لفظ سخت محسوس کریں تو مجھ پر ناراض نہ ہونا کیونکہ میں تو صرف ناقل ہوں ، اصل عبارت امام اہل سنت والجماعت احمد بن حنبل کی ہے ۔
’’ایمان میں کمی بیشی کا عقیدہ اہل علم اور اہل حدیث اور اہل سنت کا عقیدہ ہے اور یہی عقیدہ صحابہ کرام سے لے کر آج تک چلا آرہا ہے اور آج علمائے شام اور حجاز کا بھی یہی عقیدہ ہے جو اس عقیدہ کا مخالف ہے وہ بدعتی ہے۔اہل سنت والماعت سے خارج ہے سبیل حق سے منحر ف ہے، کیونکہ سلف صالحین کا عقیدہ تو یہی تھی کہ ایمان قول اور عمل اور نیت کانام ہے اور ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ تو مومن ہے تو کہتے ہیں کہ ہاں میں انشاء اللہ مؤمن ہوں اور جس آدمی کا یہ عقیدہ ہو کہ ایمانقول بلا عمل ہے وہ مرجیہ ہے اورمتکلمین، بدعتی اور مرجیہ ہی وہ لوگ ہیں، جوکہتے ہیں کہ ایمان مجرد عقیدہ کا نام ہے اور سب لوگوں کے ایمان برابر ہیں حتی کہ نبیوں اور فرشتوں اور ان کا اپنا ایمان سب برابر ہیں اور ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی اور ایمان میں استثناء نہین ہے اور جو صرف زبان سے اقرار کرے وہ پکا مومن ہے یہ تمام اقوال مرجیہ کے ہیں اور یہ بدترین اقوال ہیں۔
میں نے تجھ سے تھوڑی سی باتیں کی ہیں اور میں دل میں ڈرتا ہوں کہ تو آزردہ دل نہ ہوجائے ، ورنہ کہنے کی باتیں تھیں، واللہ اعلم بالصواب ، اے عقل مندو! نصیحت حاصل کرو۔