ہمارے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ نماز ، روزہ وغیرہ عبادت کی ظاہری شکلیں ہیں جبکہ ان کی باطنی شکل اصلاحِ معاشرہ ہے۔ اور اگر اصلاحِ معاشرہ نہیں ہوتا تو ان نمازوں کا کوئی فائدہ نہیں ، کیا یہ بات درست ہے؟ (ظفر اقبال ،نارووال)
شہادتین ، نماز ، زکوٰۃ ، رمضان کا روزہ اور حج اسلام کے بنیادی ارکان ہیں ۔ انسان و جن کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ} [الذاریات:۵۶] [’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔‘‘] اور عبادت کا مقصد تقویٰ و اصلاح ہے : {یٰٓـأَیَّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} [البقرۃ:۲۱] [’’اے لوگو1 اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔‘‘] صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کو کئی پیغمبر پیش ہوں گے ، ان کے ہمراہ ان پر ایمان لانے والا کوئی ایک بھی نہیں ہو گا ، وہ پیغمبر اکیلے ہی پیش ہو جائیں گے۔‘‘ 1 توآپ غور فرمائیں جس معاشرہ میں اکیلے پیش ہونے والے نبی تھے اس معاشرہ کی بھلا اصلاح ہوئی؟ نہیں ہر گز نہیں ، پھر وہ اکیلے پیش ہونے والے نبی جو عبادت کرتے اور نماز پڑھتے رہے اس کا کوئی فائدہ ہوا؟ ہاں اس کا فائدہ ہوا یقینا ہوا۔ ۲۰،۱۲،۱۴۲۲ھ