زید اور اس کی زوجہ ہندہ نےبحالت زات و ثبات عقل بخوشی کل جایئداد کو بدست ا پنی دو لڑکیوں کے مبلغ پندرہ ہزار روپے پر بیع کیا۔اور بیع نامہ بمطابق قانون انگریزی کے لکھ دیا۔ایک ماہ کے بعد زید کا انتقال ہوگیا۔اب زید کے دونوں بھی حقیقی داد خواہ ہیں کہ ہم جائیداد زید سے شرعاً حصہ ملنا چاہیے۔کیونکہ یہ بیع فرضی واسطے عدم مقدمہ کے زید نے کی ہے۔ورنہ لڑکیوں کی اتنی مقدرت نہیں جو پندرہ ہزار دیں۔اور نہ زید اورنہ ہندو کی بجز ان لڑکیوں کے اور کوئی اولاد ہے۔مگر زوجہ زید جس نے اپنی بھی جایئداد بیع کی ہے۔اور اقرار کرتی ہے۔کہ مجھ کو اور میرے شوہر کو روپیہ مل گیا چنانچہ اسی وجہ سے میں نے مہر کا دعویٰ نہیں کیا مگر عقلاً یہ کہ زید اور ہندو نے بیع تو ضرور کی ہے۔مگر روپیہ نہیں لیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ معاف کردیا۔ پس بحالت مذکور برادر حقیقی زید حصہ پاسکتے ہیں۔یا نہیں اور مورث اعلیٰ کو اپنی جایئداد کا اخیتار ہے یانہیں کہ جس کو چاہے و ہ دیدے اور اگر یہ بیع ناجائز ہے۔تو زوجہ مہر پا سکتی ہے یا نہیں۔؟
یہ بیع واقعی ہے ۔یا فرضی اس کا فیصلہ کرنا حاکم وقت کا کام ہے۔جو واقعات کی تحقیق کر سکتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ کسی وارث کو محروم کرنے کی نیت سے نہ بیع جائز ہے۔بہ ہبہ در صورت بیع ناجائز ہونے کے جیسے اور وارث حق پایئں گے۔عورت بھی پاوے گی۔
(فتاوی ثنائیہ جلد2 صفحہ 449)