سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) مسلمان کو غلہ کی تجارت سے ایمان بد ل جاتا ہے۔یہ قول صحیح ہے یا غلط؟

  • 3170
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1070

سوال

(67) مسلمان کو غلہ کی تجارت سے ایمان بد ل جاتا ہے۔یہ قول صحیح ہے یا غلط؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان  کو غلہ کی تجارت نہیں کرنی چاہیے۔اس سے ایمان بد ل جاتا ہے۔یہ قول صحیح ہے یا غلط اور مسلمان کو غلہ فروشی کرنے کے شرعاً مجاز ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان کو  غلہ کی تجارت جائز ہے۔منع ہوتی تو طبقہ اولیٰ کے مسلمان کیوں کرتے حدیث شریف میں احتکار منع ہے۔احتکار کہتے ہیں غلہ بند رکھنا جس سے  لوگوں کو تکلیف ہو۔اورگراں بکے قدرتی موسمی بیشی سے فائدہ اٹھانا منع نہیں۔

تشریح مفید

سوال۔کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ تجارت غلہ کی عموماً حرام ہے یا نہیں زیدکہتا ہے کہ تجارت غلہ کی عموما ًحرام ہے۔کیونکہ وہ احتکار ہے اور احتکارحرام ہے۔آیا یہ قول صحیح ہے یا نہیں بینوا توجروا۔

جواب۔ رَّبِّ زِدْنِى عِلْمًا  قول زید کا  بدہیی البطلان ہے۔کیونکہ تجارت غلہ کی عموماً ہر گز حرام نہیں۔اور نہ وہ احتکار ہے۔البتہ خریدنا غلہ وغیرہ کا جو قوت ہو۔آدمیوں کا یا بہائم کا گرانی میں فروخت کیاجائے۔احتکار ممنوع اورحرام ہے۔امام  نوویؒ منہاج و شرح صحیح مسلم بن الحجاج ص 31 میں فرماتے ہیں۔قال اهل الغة الخاطي بالهمزة هو العا صي الا ثم وهذا الحديث صريح في تحريم الاحتكار قال اصحابنا الاحتكار المحرم هوالاحتكار في الاقوات خاصة وهوا ان يشتري الطعام في وقت الغلا ء للتجارة ولا يييعه في الحال بل يدخره ليغلو ثمنه انتهي

اور  طیبی مرحوم شرح مشکواۃ المصابیح میں لکھتے ہیں۔الا حتكار محرم هوفي الاقوات خاصه بان يشتري الطعام في وقت الغلاء ولا يبعه في الحال بل يدخره ليغلو انتهي

مجالس ابرار میں مرقوم ہے۔قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من احتكر فهوا خاطي هذا الحديث من صحا ح المصابيح رواه عمر بن عبد الله ومعنا ان من يجمع الطعام الذي يجلب الي البلاد يحبسه لبيعه في وقت الغلاء فهوا اثم لتعلق حق العامة به وهوا بالحبس والامتناع عن البيع يريد ابطال حق هم ومتضيق الامر عليهم وهوا ظلم عام وصاحبه ملعون لما روي انه عليه السلام قال الجالب موزوق والمحتكر ملعون فاانه عليه السلام بين في هذاالحديث ان الذي يجيئ الي البلاد ويحبسه ليبعه في وقت الغلاء فهوا ملعون بعيد من الرحمة ولا يحصل له البر كة ما دام في ذالك الفعل انتهي وفي مجمع البحار من احتكر طعاما اي اشتراه و حبسه ليقل فيغلوا والحكر والحكرة الاسم منه وفي مو ضع  اخر من احنكر فهو خاطيئ بالهمزة المحرم من الاحتكار ما هو في الاقوات وقت الغلاء للتجارة ويدخره للغلاء انتهي وفي الفتح فيه اشعار با ن الاحتكار انما يمنع في حالة مخصوصة انتهي

اور اگر بازار سے خرید نہ کرے۔بلکہ اس کی زمین کا ہو۔یا ارزانی میں کرے۔لیکن اس کو روکے نہیں۔بلکہ فوراً بیچ ڈالے۔یا  گرانی میں اس کو روکے لیکن تجارت مقصود نہ ہو۔بلکہ مصارف روز مرہ کیلئے اس نے مول لیا ہو یا جنس قوت بشر اور بہائم سے خارج ہو تو ان سب صورتوں میں تجارت مذکور حرام نہیں بلکہ جائز اور درست ہے۔بالا تفاق حنفیہ اور شافعیہ الخ۔

(فتاویٰ ثنائیہ۔جلد2 ص447۔448)        )بحوالہ فتاوی نزیریہ جلد2 ص26۔(

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 14 ص 81-82

محدث فتویٰ

تبصرے