سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(56) محفل میلاد میں شرکت کرنا

  • 23297
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1285

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برائے مہربانی اس بات کی وضاحت قرآن وحدیث کی روشنی میں کریں کہ کیامیلاد کی محفل میں شرکت کی جاسکتی ہےیانہیں؟ اگر اس بات کی اجازت ہےتوکس صورت میں ایسی محفل میں شرکت کی اجازت ہے؟ (حبیب الرحمنٰ، بریڈفورڈ )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لاریب کہ عیدمیلاد النبی ﷺ منانا بدعت ہےاور مروجہ عبدمیلادالنبی کےجلسے، جلوس یامحفل میں شرکت کرنا ایک بدعت کوتقویت دیناہے۔ اللہ کےنبیﷺ نےفرمایا:’’ من أحدث فى امرنا هذا ماليس منه فهورد ،،

’’ ہمارے اس کام میں جوشخص کوئی نئی چیز ایجاد کرتاہےجواس میں نہیں تھی، وہ مردود ہے۔،،

(بروایت عائشہؓ ) آپ ﷺ نےفرمایا:

( من عمل عملاً ليس عليه امرنا فهورد)

’’  جوشخص کوئی ایسا عمل کرے جوہمارے اس کام سےموافقت نہ کرتاہوتو وہ مردود ہے۔،،

(بروایت انس﷜ ) آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:

(كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة وكل ضلالة فى النار )

’’ ہرنئی چیز بدعت ہےاورہربدعت گمراہی ہےاورہرگمراہی کاٹھکانا جہنم کی آگ ہے۔،،

رسو ل اللہ کےان اقوال سےیہ باتین معلوم ہوتی ہیں:

(1)               نئی چیز سےمراد دین سےمتعلق نئی چیز ہے،نہ کہ دنیوی اعتبار سے،اس لیے کار، جہاز وغیرہ کی سواری کوبدعت نہیں کہا جائے گا۔

(2)              نئی چیز کاایجاد کرنےوالا ہو یااس پرعمل کرنےوالا،دونوں کاعمل رد کرنے کے لائق ہے۔

(3)               بدعت کسی لحاظ سےبھی مستحسن نہیں ہوسکتی بلکہ وہ موجب نارہی کہلائے گی۔

امام شاطبی نےبدعت کی تعریف یوں بیان کی ہے:

(طريقة فى الدين مخترعة تضاهى الشرعية يقصدبالسلوك عليها المبالغة فى التعبدلله سبحانه )

’’ دین میں ایک ایسا طریقہ ایجاد کرنا جوشرعی طریقے سےمشابہت رکھتا ہواور اس پرجلنے سےمقصد یہ ہوکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ آرائی کی جاسکے۔،، ( الاعتصام:1؍37 )

عیدمیلاد النبیﷺ کواگر اس تعریف پرپرکھا جائے تو یہ تعریف اس پرپورے طریقے سےصادق آتی ہے۔

اولاً: خیرالقرون کوتوچھوڑئیے، اسلام کی پہلی چھ صدیوں میں عیدمیلادالنبیﷺ کوکوئی نہیں جانتاتھا۔ اس بدعت کاموجد 604ھ میں عراق کےشہراربل کاحکمران ابوسعید کوکری تھاجیسا کہ امام سیوطی نےاپنےرسالے ’’ حسن المقصد فی عمل المولد ،، میں لکھا ہے۔

ثانیاً : اسے ایک شرعی تہوار(جیسے عیدالفطر یاعیدالاضحیٰ ) سےمشابہت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

ثالثا: اسےثواب سمجھ کرکیاجاتاہےاوراسی وجہ سے جواس بدعت کاقائل نہ ہواس پر نکیرکی جاتی ہے،اسےوہابی کانام دے کربدنام کیا جاتاہے۔

ابن حجر ہیثمی نےبدعت کی تعریف یوں کی ہے:

هى مالم يقم دليل شرعى علىٰ أنه واجب أومستحب

’’ بدعت وہ چیز ہےکہ جس کےوجوب یااستحباب پرکوئی شرعی دلیل نہ ہو۔،،

اب ظاہر ہےشرعی دلیل کتاب وسنت ہی سےلائی جاسکتی ہےاوریہ دونوں اس بدعت کےذکر سےخالی ہیں۔

بدعت کی تیسری تعریف یہ ہےکہ ہروہ عمل جونہ رسول اللہﷺ کی سنت سےثابت ہو، نہ خلفائے راشدین ہی کی سنت سےکیونکہ آپﷺ فرماگئےہیں:

(عليكم بسنتى وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدى)

’’ میری سنت کواور میرے بعد آنےوالے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کولازم پکڑو۔،،

حضرت حذیفہ بن یمان﷜ فرماتےہیں:’’ ہروہ عبادت جسےصحابہ نےنہ کیا ہوتو اسے نہ کرو۔،،( متقدمین اورمتاخرین بہت سے علماء نےحضرت حذیفہ بن یمان﷜ کایہ فرمان سنن ابی داؤد کےحوالے سےلکھاہے۔اختصار کی غرض سےمتقدمین میں سے صر ف ا مام ابوشامہ مقدسی ﷫ (م:665ھ) کاحوالہ دیتاہوں، انہوں نے اپنی کتاب الباعث علی انکار البدع والحوادث،ص 16 پر یہ فرمان لکھا ہے۔اسی طرح متاخرین نےبھی یہ فرمان نقل کیا ہےلیکن موجودہ مطبوع سنن ابی داؤد میں یہ فرمان موجود نہیں ہے۔محسوس ہوتاہےکہ ماضی میں سنن ابی داؤد کےکسی نسخے میں یہ قول ضرور موجود رہاہےلیکن  وہ مسلمانوں کی شکست وریخت کی نذر ہوگیا ہےاورمتقدمین نےاسی نسخے سےیہ قول لیاہےاورمتاخرین نےمتقدمین کی نقل میں سنن ابی داؤد کی طرف اس قول کومنسوب کردیاہے۔(ناصر)

اورجیسے آپ کےفعل کی متابعت کرناسنت کہلاتاہےاسی طرح صحابہ کرام﷢ اس فعل کوچھوڑ دیا کرتے تھےجسے رسول اللہ ﷺ نےبھی چھوڑ دیا تھا،الا یہ کہ چھوڑنے کا سبب معلوم ہوگیاہوجیسا کہ اللہ کےرسول ﷺ نےایک خاص جانور(گوہ) کاکھانا چھوڑ دیا تھا، صحابہ کرام نےجب اس کا سبب پوچھا توآپ نےبتایا کہ یہ میرے وطن میں نہیں پایا جاتا، اس لیے مجھے اس سےکوئی رغبت نہیں ہے۔( صحیح البخاری ،الذبائح، حدیث: 5537، وصحیح مسلم ،الصید والذبائح ، حدیث:1945 )

اس بات کی مزید وضاحت کےلیے عرض ہےکہ اگر کسی فعل کےکرنے کاجوازنبی کریمﷺ کےزمانہ میں موجود تھااوراس کےکرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہین تھی، پھر بھی آپﷺ نےاسے نہیں کیا تواس کا نہ کرنا(اسے چھوڑدینا ) ہی سنت ہوگا جیسا  کہ کسی کی ولادت کادن منانا۔

اللہ کےرسولﷺ کےزمانےمیں عیسائی حضرت عیسیٰ کویوم پیدائش منایا کرتے تھے۔گویا بات اس زمانے میں معروف تھی اوراگرنبی اکرمﷺ اپنا یااپنے آباؤاجداد (حضرت ابراہیم﷤ یاحضرتاسماعیل﷤ ) کادن مناناچاہتے تواس کاجواز موجود تھا اورایسی کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی کہ جس کی وجہ سے آپ ﷺ یہ تہوار منانے سےرک گئے ہوں لیکن اس کےباوجود بھی آپ نے کسی کایوم ولادت نہیں منایا توایسا نہ کرناہی سنت ہے۔ اب ایک دومثالیں اس  قاعدہ کےمطابق ملاحظہ فرمائیں:

رسول اللہ ﷺ کےزمانہ میں کعبہ کی عمارت مکمل طریقہ سےتعمیر شدہ نہیں تھی بلکہ دور جاہلیت میں عربوں نےسیلاب کےبعد جب کعبہ کی عمارت بنائی توان کی حلال کمائی کاپیسہ ساری عمارت کی تکمیل کےلیے ناکافی رہا، چنانچہ انہوں نے وہ حصہ چھوڑدیا جوحطیم کہلاتا ہےاورجہاں تقریباً ڈیڑھ میٹر بلند نیم دائرہ شکل کی دیوار موجود ہے،یعنی نبی کریمﷺ کےلیے کعبہ کی عمارت کومکمل کرنے کاجوازموجود تھا لیکن ایک رکاوٹ کی وجہ سے آپ ایسا نہ کرسکے۔اس رکاوٹ کابیان آپﷺ نےان الفاظ میں حضرت عائشہؓ کومخاطب کرتےہوئے کیا: ’’عائشہ !اگر تمہاری قوم(قریش) نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی تومیں کعبہ کوحضرت ابراہیم﷤  کی بنیادوں پرکھڑا کردیتا اوراس کےدودروازے بناتا، ایک داخل ہونےکےلیے اوردوسرا نکلنے کےلیے۔،،

(صحیح البخاری، العلم ، حدیث : 126،  وصحیح مسلم ، الحج، حدیث1333 )

گویا آپ نے اپنے ارادے کواس لیے جامہ عملی نہیں پہنایا کہ اگر وہاایسا کربیٹھتے توقریش کےنئے نئےمسلمان ایک ہنگامہ بپا کردیتے کہ محمدﷺ نےتوہرچیز بدل ڈالی ہےیہاں تک کہ کعبہ کوبھی بدل ڈالا ہے،چنانچہ کعبہ کی عمارت اسی طرح چلی آئی جس طرح رسول اللہﷺ کےزمانہ میں تھی۔عبداللہ بن زبیر﷜ نےاپنےزمانہ خلافت میں رسول اللہﷺ کی مذکورہ خواہش کوپورا کرنےکےلیے کعبہ کی تعمیر مکمل کروادی اور اس کےدروازے بھی بنوادیے، کسی صحابی نےسا عمل کوبدعت قرار نہیں دیاکیونکہ یہ  بدعت کی تعریف میں نہیں آتا تھا۔

اب ہوا کہ جب بنوامیہ کی حجاز کی بازیابی کےلیےابن زبیر سےجنگ ہوئی تو حجاج نےفتح حاصل کرنے کےبعد ابن زبیر کی مخالفت میں کعبہ کوازسرنوپہلی حالت پرلوٹادیا۔ ابن زبیر کی تعمیر64ھ ہوئی اوردس سال بعد حجاد کی تعمل عمل میں آئی۔

عباسی خلیفہ محمد مہدی بن منصور نےبھی اپنے زمانہ خلافت میں کعبہ کی تکمیل کرنا چاہی لیکن امام مالک نےاسے مصلحتاً اس کام سےروک دیا۔وہ مصلحت یہ تھی کہ کعبہ بادشاہوں یاخلفاء کےدرمیان ایک کھیل بن کررہ جائے گا ۔ ایک بادشاہ اسے تعمیر کرےکا اور دوسرا بادشاہ صرف مخالفت کی بنا پراسے گرادے گا،چنانچہ ابن منصور نےامام مالک کی بات مان لی اور اس وقت سےکعبہ اس حالت میں ہےجس حالت میں رسول اللہ ﷺ نےاسے چھوڑا تھا۔

دوسری مثال نماز تراویح کاباجماعت ادا کرناہے۔حضرت عمر﷜ نےاپنے زمانہ خلافت میں لوگوں کورمضان کی راتوں میں علیحدہ علیحدہ نماز پڑھتے دیکھا تو انہوں نے حضرت ابی بن کعب کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کی جماعت کےساتھ گیارہ رکعت پڑھا دیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ رسول اللہﷺ نےایسا کیوں نہیں کیا؟

کیا آپﷺ کےزمانہ میں تروایح پڑھنے کاجواز پیدا نہیں ہواتھا ؟

جواباً عرض ہےکہ تراویح رات کی نماز(قیام اللیل) کانام ہے، رسول اللہ ﷺ  ہمیشہ ہی رات کی نماز گھر میں ادا کیا کرتےتھے۔ماہ رمضان میں تین دن آپ نے لوگوں کےساتھ جماعت کی شکل میں بھی ادا کی لیکن چوتھے دن لوگوں کےاصرار کےباوجود آپﷺ اپنےحجرے سے اس نماز کوباجماعت ادا کرنے کےلیے نہیں آئے۔

جب لوگوں نے اصرار بڑھایا توآپﷺ نےفرمایا:’’ مجھےاس بات کا ڈر ہےکہ کہیں یہ نماز تم پرفرض نہ کردی جائے۔،،

اس مثال سےبھی معلوم ہوتا ہےکہ تروایح باجماعت کاجواز موجود  تھا لیکن رسول اللہﷺ نےایک رکاوٹ کی بنا پراسے تسلسل کےساتھ ادا نہیں کیا،وہ اس لیے کہ وحی کا نزول جاری تھا اورعین ممکن تھاکہ یہ نماز فرض قرار دے دی جاتی۔

نبی اکرمﷺ کی وفات کےبعد یہ رکاوٹ باقی نہ رہی،یعنی اب وحی آنے کااورتراویح باجماعت فرض ہونے کااندیشہ باقی نہ رہا،اس لیے حضرت عمر﷜ نےاس سنت کودوبارہ جاری کردیا۔

بعض دفعہ مصالح مرسلہ اوربدعت گڈمڈ ہوجاتےہیں شریعت نےپہلے کااعتبار کیا ہےلیکن دوسرے کانہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوتاہےکہ مصالح مرسلہ کےبارےمیں وضاحت کردی جائے،مصلحت مرسلہ کی تعریف یہ ہے:

أن يناط الامر باعتبار مناسب لم يدل الشارع على اعتباره ولا الغاءه الا أنه ملائم لتصرفات الشارع.

’’ کسی ایک کام کےلیے ایسی بات کالحاظ رکھاجائے جس کا شارع(شریعت دینےواے) نےنہ اعتبار ہی کیا ہےاورنہ اسے غلط ہی  قرار دیا ہےمگر یہ بات شارع کےتصرفات سےمناسبت رکھتی ہے۔،،( موسوعة فقه العبادات از علی بن نایف الشجود، باب الصلاۃ التروایح)

اس کی چند مثالیں یہ ہیں:

اللہ کےرسول ﷺ کےزمانےمیں قرآن کوایک مجلد میں  جمع نہیں کیا گیا تھا۔ یہ کاحضرت ابوبکر﷜ کےزمانےمیں ہوا۔( صحیح البخاری، فضائل القرآن ، حدیث 4986 )

یہاں پرحفظ قرآن کالحاظ رکھا گیا کیونکہ آپﷺ نےخوداپنی زندگی میں حفظ قرآن پرزور دیا۔

حضرت عمر﷜ نےیہ حکم جاری کیاکہ اگر ایک آدمی کےقتل میں پوری ایک جماعت کا قتل کیاجائےگا۔(مصنف ابی شیبہ :9؍347، وموطا امام مالک، الدیات، حدیث:670 )

یہاں پرحفاظت ِ جان کالحاظ رکھا گیا، جس کاقرآن میں صراحتاً ذکر ہے۔

خلفائے راشدین نےکاریگروں کوضامن ٹھہرایا، اگروہ لوگوں کی دی ہوئی چیزوں کوبناتے وقت ضائع کردیں، یعنی درزی کو سینے کےلیے کپڑا دیا گیا  تواسے نےاتنی کانٹ چھانٹ کی کہ کپڑا ہی ضائع ہوگیا۔حضرت علی﷜ نےاس بارےمیں عمومی بھلائی کوایک آدمی کی بھلائی پرترجیح دی۔ ( مصنف عبدالرزاق:8 ؍217 . یہ روایت بالمعنیٰ ہے۔ اورشدید ضعیف بلکہ موضوع ہےکیونکہ اس کی سند میں یحیٰ بن علاء نامی راوی کذاب ہے، نیز محمد بن باقر کاحضرت علیﷺ سےسماع ثابت نہیں ہے۔(ناصر)

اس طرح اگر بیت المال میں پیسہ نہ رہے توحکومت دولت مند حضرات پرسرحدوں کےحفاظت کےلیے ٹیکس عائد کرسکتی ہے۔یہاں ملک کی حفاظت کاپہلو پیش پیش ہے۔

مصلحت اوربدعت میں فرق یہ ہےکہ مصلحت کسی ضروری امرکی حفاظت کےلیے یادین میں کسی شدید مشکل کےازالے کےلیے ہوتی ہےاوراس کا تعلق عموماً وسائل سےہوتاہےاوراس کادائرہ کار معقولات(جسے عقل پرکھ سکتی ہے) تک محدود ہے۔

برخلاف بدعت کےکہ نہ وہ کسی ضروری امرکی حفاظت ہی کےلیے ہوتی ہےاورنہ ہی کسی مشکل کاازالہ ہی کرتی ہے۔اس کا تعلق بھی مقاصد سےہوتاہے اوراس کادائرہ کارعبادات تک محدود ہوتا ہےکہ جس کاراز صرف اللہ تعالیٰ جانتے ہیں۔

عیدمیلاد النبیﷺ کواس معیار پر پرکھ لیں، تب بھی وہ بدعت ہی کےدائرے میں داخل ہوگی نہ کی مصلحت کے۔ یہاں ایک غلط فہمی کاازالہ بھی کرتا چلوں جس کے بارے میں مجھ سےزبانی طورپر توپوچھا گیاہے، گومنذکرہ سوال میں اس کاتذکرہ نہیں اور وہ یہ کہ اس سال15 مئی (14 ربیع الاول 1424ھ) کوکنزرویٹو پارٹی کےزیرسایہ ایک میلاد فنکشن میں راقم الحروف نےکیوں شرکت کی؟ واضح رہےکہ یہ غلط فہمی’’ دی مسلم،ہفتہ وار اخبار کی ایک خبر کی اشاعت سےپیدا ہوئی۔

اس تقریب کاپس منظر یہ ہےکہ مجھے کنزرویٹوپارٹی کےہیڈ آفس(لندن)سے 22 اپریل کا تحریر کردہ ایک دعوت نامہ موصول ہوا، جس کاپہلا فقرہ یہ تھا:’’ میلاد النبی کےموقع پرنبی محمد(ﷺ) کی انسانیت کےلیے کی گئی کوششوں کوخراج تحسین پیش کرنےکےلیے ایک تقریب کااہتمام کیاجارہاہے، جس میں آپ کی شرکت ہمارے لیے باعث مسرت ہوگی۔،، جگہ اورمقام کےتعین کےبعدلکھا ہے:’’ کنزرویٹوپارٹی کےسرکردہ قائدین سےملاقات کایہ ایک بہترین موقع ہوگا۔،،(ترجمہ از انگریزی)

مجھے اس سےقبل لیبر پارٹی کی جانب سے منعقدہ عیدملن پارٹیوں میں جانے کااتفاق ہوا ہےجو پارلیمنٹ کےایک گوشے میں ہوتی رہی ہیں۔ ان پارٹیوں کاسارا پروگرام چند مختصر تقاریر تک محدود رہا ہے،جس میں چند مسلمانوں کےنمائندے اورکچھ لیبر پارٹی کےسرکردہ قائدین بشمول وزیراعظم شامل رہے ہیں۔کھنا صرف چائے اوراس کےلوازمات سےآگے نہیں بڑھا ہے۔

مذکورہ دعوت نامہ ملنے کےبعد میرا ذہنی تاثر یہی تھاکہ لیبر پارٹی کی طرح کنز رویٹو پارٹی بھی سیاسی سطح پرمسلمانوں کوقریب کرناچاہتی ہے، اس لیے اس نےمیلاد النبی کی مناسبت ہےیہ ایک سیاسی تقریب کرڈالی ہے، جس کانہ عیدمیلاد النبی ہی سے کوئی تعلق ہے(خط میں’’ عید،، کاذکر نہیں ہے) اورنہ کسی بدعت کااحیاء مقصود  ہی ہےکہ ابھی تک کنزرویٹو پارٹی مشرق بہ اسلام نہیں ہوئی۔ اس تقریب میں جوکہ پارٹی کےہیڈ کواٹر میں ہوئی، اس تاثر کومزید تقویت ملی۔

عالم انگریزی تقریبات کی طرح اکثر لوگ سارا وقت کھڑے رہے۔ دیوارکےساتھ چند کرسیاں نظرآئیں ،جن پرعلماء کاقبضہ رہا۔ تلاوت کلام پاک  کےبعد چند مختصر تقاریر ہوئیں بلکہ ایک موقع پرمنتظم نےاعلان بھی کیا کہ پارلیمنٹ میں کسی ایک  خاص موضوع پررائے شماری ہورہی ہے،اس لیےہم ممبران حضرات چندلمحوں کےلیے اس تقریب سےغیرحاضررہیں گےاور رائے شماری کےفوراً بعد واپس آجائیں گے۔

  تقریر کرنے والوں میں ایم سی بی کےسیکرٹری اقبال سکرانی اورکنزرویٹوپارٹی کےلیڈر ڈنکن سمتھ شامل تھے۔ حاضرین کوتواضع حسب معمول چائے اوراس کےلوازمات کی گئی اورتقریب اختیام پذیر ہوئی۔

برسبیل تفنن عرض ہےکہ جونہی ہال میں داخل ہوا تو یوایم او کےجنرل سیکرٹری ڈاکٹر عزیز پاشا سےملاقات ہوئی۔ ان کےپہلو میں جناب شاہد رضا بھی کھڑے تھے، چونکہ ڈاکٹر صاحب ہرسال عیدمیلادالنبی کےنام سے ایک تقریب منعقد کرتےہیں اورمجھے بھی دعوت دیتے ہیں اور میں کبھی اس دعوت میں شریک نہیں ہوا، اس لیے ان کامجھے دیکھتے ہی نعرہ مارنا کہ تم یہاں کیسے؟ بالکل قدرتی تھا۔ میں نے بھی مسکرات ہوئے انہیں جواب دیا کہ یہ میلاد تونہیں ہےجس میں مروجہ میلاد کےلوازمات (قراءت بردہ شریف،کھڑے ہوکرسلام پڑھنا، شیرینی کی تقسیم ،قوالی، رسول اللہﷺ کی حاضری کاعقیدہ رکھناوغیرہ وغیرہ) پائے جاتے ہوں یہ تووہابی جلسہ سیرت زیادہ مشابہ ہے۔

اورغالباً یہی وجہ تھی کہ نہ صرف میں بلکہ متعدد دیوبندی علماء بھی اس محفل میں شریک ہوئے۔خیال رہےکہ بربنائےحدیث (انما الاعمال بالنیات)صحيح البخاري ، بدء الوحي،حديث 1، وصحيح مسلم، الامارة،حديث:1907

اورفقہی  قاعدہ کلیہ (الامور بمقاصدها) ہر کام کےجواز یاعدم جواز میں اس کام کامقصود نظر سےاوجھل نہیں ہوناچاہیے۔ پانی کی بوتل پرشراب کا لیبل لگانے سےوہ شراب میں تبدیل نہیں ہوجاتی اورنہ شراب کی بوتل پرپانی کالیبل ہی اسےطاہرومطہر بنادیتا ہے۔

کنزرویٹوپارٹی کااس تقریب کےانعقاد سےمقصدکےخط سےظاہرہےجس کاتذکرہ پہلے آچکا ہےاورراقم الحروف کی شرکت پرآمادگی کاپس منظر بھی بیان ہوچکا ہے، اس لیے اس سلسلے میں کوئی غلط فہمی باقی نہیں رہنی چاہیے۔

البتہ یہ کہاجاسکتاہےکہ اس قسم کی تقریبات سےعمائدین اسلام کواس لیے اجتناب کرناچاہیے تاکہ پریس انہیں ان کی کردار کشی کےلیے استعمال نہ کرسکے تواس کی گنجائش موجود ہے۔

میری محبان سنت سےگزارش ہےکہ ایسی تقریبات میں شرکت کےمصالح اورمفاسد کااندازہ کرلیا جائے اوراگر مصالح کاپہلو غالب ہوتوپھر شرکت کی جائے ورنہ احتراز کیاجائے۔واللہ اعلم .

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ