سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(455) ہاتھ باندھنے کا اصل مقام

  • 1259
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 1263

سوال


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر کیا سینے پر رکھنا چاہیے یا دل پر اور ہاتھوں کو زیر ناف رکھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا اس مسئلہ میں مرد و عورت میں کوئی فرق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنا سنت ہے۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث میں ہے:

«کَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ ْيَدَهُ الْيُمْنَی عَلَی ذِرَاعِهِ الْيُسْرَی فِی الصَّلَاةِ» صحيح البخاری، الاذان، باب وضع اليمنی علی اليسری، ح: ۷۴۰۔

’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھاکریں۔‘‘

لیکن سوال یہ ہے کہ ہاتھ کہاں رکھے جائیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس مسئلہ میں سب سے صحیح قول یہ ہے کہ ہاتھوں کو سینے پر رکھا جائے۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  سے مروی حدیث میں ہے:

«أن النبی کان يَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنٰی عَلٰی يَدِهِ الْيُسْرٰی عَلٰی صَدْرِهِ» صحيح ابن خزيمة، الصلاة، باب وضع اليمين علی الشمال… ح: ۴۷۹ والبيهقی: ۲/۳۰۔

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر (انہیں) اپنے سینے پر رکھا۔‘‘

اس حدیث میں گو قدرے ضعف ہے لیکن اس مسئلہ سے متعلق دیگر احادیث کی نسبت زیادہ صحیح ہے۔

ہاتھوں کو سینے کے بائیں جانب دل پر رکھنا بدعت اور بے اصل ہے۔ ہاتھ زیر ناف رکھنے کے بارے میں ایک اثر حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے لیکن وہ ضعیف ہے، حدیث حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ  اس کی نسبت بہت زیادہ قوی ہے۔

اس مسئلہ میں مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں کیونکہ اصل یہ ہے کہ احکام میں مردوں اور عورتوں میں اتفاق ہے الایہ کہ دونوں میں تفریق یا فرق کی کوئی دلیل موجود ہو اور مجھے کسی ایسی صحیح دلیل کا علم نہیں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہو کہ اس سنت میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق ہے۔

وباللہ التوفیق

فتاویٰ ارکان اسلام

حج کے مسائل  

محدث فتویٰ


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ