سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(345) تارک نماز کا نماز جنازہ

  • 1149
  • تاریخ اشاعت : 2012-06-07
  • مشاہدات : 1007

سوال


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میّت تارک نماز ہو یا اس کی نماز ترک کرنے میں شک ہو یا اس کا حال مجہول ہو تو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا اس کے وارثوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اس کی نماز جنازہ کے لیے اہتمام کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جس شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ بے نماز فوت ہوا ہے تو اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائزنہیں اور نہ اس کے اہل خانہ کے لیے حلال ہے کہ وہ اسے مسلمانوں کے سامنے نماز جنازہ اداکرنے کے لیے پیش کریں کیونکہ وہ کافرہے اور اسلام سے مرتد ہے۔  اس کے بارے میں واجب یہ ہے کہ قبرستان کے علاوہ کسی دوسری جگہ گڈھاکھود کر اسے اس میں پھینک دیا جائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے کیونکہ ایسے شخص کے أعزاز واکرام کی کوئی ضرورت نہیں ، اور عزت کا کیا سوال؟ اسے تو روز قیامت فرعون، ہامان، قارون اور ابی بن خلف جیسے بڑے بڑے کافروں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

جس مسلمان کا حال معلوم نہ ہوپائے یااس کی حالت مشکوک ہو تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی کیونکہ اصلا وہ مسلمان ہے حتیٰ کہ اس بات کی وضاحت ہوجائے کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ اگر کسی میّت کے بارے میں انسان کو شک وشبہ ہو تو پھر استثنائی انداز میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں مثلاً: وہ اس طرح دعا کرسکتا ہے کہ اے اللہ اگر یہ مومن تھا تو تو اسے معاف فرمادے اور اس پر رحم وکرم کا معاملہ فرما کیونکہ دعا میں استثنا ثابت ہے مثلاً جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور چار گواہ پیش نہ کرسکیں تو وہ لعان کرتے ہوئے پانچویں بار یہ کہیں گے:

﴿أَنَّ لَعۡنَتَ ٱللَّهِ عَلَيۡهِ إِن كَانَ مِنَ ٱلۡكَٰذِبِينَ﴾--النور:7

’’اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت۔‘‘

اور عورت پانچویں بار یہ کہے:

﴿أَنَّ غَضَبَ ٱللَّهِ عَلَيۡهَآ إِن كَانَ مِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ﴾--النور:9

’’اگر یہ سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب (نازل ہو)۔‘‘

وباللہ التوفیق

فتاویٰ ارکان اسلام

نماز کے مسائل

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ