السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب نفاس والی عورت چالیس دنوں سے پہلے پاک ہو جائے تو کیا اس کا شوہر اس سے مجامعت کر سکتا ہے؟ اور اگر خون چالیس دن کے بعد دوبارہ جاری ہو جائے تو پھر کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نفاس والی عورت سے اس کے شوہر کے لیے جماع کرنا جائز نہیں، اگر وہ چالیس دنوں سے پہلے پاک ہو جائے تو پھر اس کے لیے نماز پڑھنا واجب ہے، اس کی نماز صحیح ہوگی اور اس حالت میں اس کے شوہر کے لیے اس سے جماع کرنا بھی جائز ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حیض کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ وَلا تَقرَبوهُنَّ حَتّى يَطهُرنَ فَإِذا تَطَهَّرنَ فَأتوهُنَّ مِن حَيثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ...﴿٢٢٢﴾... سورة البقرة
’’اوریہ لوگ تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، کہہ دو وہ تو نجاست ہے، سو ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ ہاں جب پاک ہو جائیں تو جس طریق سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، ان کے پاس جاؤ۔‘‘
جب تک نجاست یعنی خون موجود ہو تو جماع جائز نہیں ہے اور جب عورت پاک ہو جائے تو پھر جائز ہے۔ مگرہاں اس پر نماز پڑھنا واجب ہے، اسی طرح نفاس میں بھی اگر وہ چالیس دنوں سے پہلے پاک ہو جائے تو اس کے لیے وہ سارے کام جائز ہو جاتے ہیں جو نفاس کی وجہ سے ناجائز تھے، لہٰذا اس کے شوہر کے لیے اس صورت میں ہم بستری بھی جائز ہے، البتہ اسے صبر کرنا چاہیے تاکہ جماع کی وجہ سے دوبارہ خون جاری نہ ہو جائے حتیٰ کہ وہ اپنے چالیس دن پورے کر لے لیکن اگر وہ چالیس دن پورے ہونے سے پہلے جماع کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
اگر وہ چالیس دنوں کی مدت گذرجانے اور پاک ہونے کے بعد خون دیکھے تو اس کو خون حیض قرار دیا جائے گا، خون نفاس نہیں۔ خون حیض کے بارے میں عورتوں کو خوب اچھی طرح جانکاری ہوتی ہے ، لہٰذا جب وہ خون آنے کے بارے میں محسوس کرے تو یہ خون حیض کا خون ہوگا اور اگر خون جاری رہے اور بہت قلیل مدت کے لیے بند ہو تو یہ استحاضہ کا خون ہوگا۔ اس صورت میں اسے اپنی ماہانہ عادت کے مطابق بیٹھنا ہوگا اور پھر غسل کر کے نماز پڑھنا ہوگی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب