سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

اسلامی فتاویٰ جات اور شرعی مسائل


اسلامی منہاج میں فتاویٰ جات کی اہمیت کیا ہے یہ سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فتویٰ کی نسبت خود اپنی طرف کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ﴾ ’’اور لوگ آپ (ﷺ) سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے! اللہ تمہیں ان کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فتاویٰ جات اور شرعی مسائل کا پوچھا جانا ایک اسلامی معاشرے کا لازمی جز ہے۔ اور فتویٰ شریعت اسلامی ہی کا ایک حصہ ہےجو اسلامی احکام کے بیان اور تشریح و توضیح کو بھی شامل ہے اور تشریح صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ قرآن کریم میں سوا ل و جواب کے اسلوب کی بہت مثالیں موجود ہیں۔ دین شریعت کے بیان اور وحی الہٰی کی تشریح کا اعزاز جہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمﷺ کو عطاء فرمایا ویسے ہی آپﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اس عظیم کام کی ذمہ داری اللہ نے اہل علم پر ڈال دی اور لوگوں کو ان سے سوال کرنے کا حکم دیا۔ اسلام میں سب سے پہلے جس نے افتاء کے منصب شریف اور عہدہ جلیلہ کو رونق بخشی وہ خود سید المرسلین اور وحی الہٰی کے مبلغ اور امین رسول رب العالمین ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپﷺ اللہ کی طرف سے ا س کی نازل کردہ وحی کے ساتھ فتوے دیتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ کے حسن عمل کی مدح و توصیف بھی اللہ تعالیٰ نے فرمائی۔ نبی مکرمﷺ کے فتاویٰ جات الفاظ کے اعتبار سے مختصر اور احکام و معانی کے لحاظ سے بڑے جامع ہیں۔ واجب الاتباع اور فیصلہ کن حیثیت کے اعتبار سے کتاب اللہ کے ساتھ دوسرے درجہ میں آتے ہیں۔ کسی مسئلہ میں فتاویٰ نبویہ میسر ہوں تو کسی مسلمان کو ان سے روگردانی کا حق نہیں۔ سرور کائنات ﷺ نے صحابہ کرام کے دین فہمی کے لیے سوالات کے جواب میں مختلف اوقات میں جو فتاویٰ ارشاد فرمائے وہ کتب حدیث میں جابجا موجود ہیں، ان فتاویٰ مبارکہ کا اکثر حصہ وحی الٰہی پر مبنی ہے۔ رسول اللہﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد جیسے امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور دعوت و تبلیغ رسالت کا فریضہ امت کے ذمہ قرار پایا ویسے ہی وحی رسالت کا بیان اور دین و تشریعت کی تشریح و توضیح علمائے امت کی ذمہ داری ٹھہری، اللہ تعالیٰ نے ان کے استنباط کو قرآن کریم میں لوگوں کے لیے مرجع قرار دیا، اور ان سے سوال کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ مفتی کے مقام و مرتبہ کے پیش نظر خلافت اسلامیہ کے ہر دور میں لوگ مفتیان کرام سے اسلامی فتاویٰ جات اور شرعی مسائل کا حل جانتے رہے ہیں۔اہل عل اور مفتیان کرام کا یہ مقام و مرتبہ جہاں عظیم الشان عز و شرف ہے وہاں شدید ترین ذمہ داری، مسئولیت اور سخت ترین امتحان بھی ہے جس میں سرخرو ہونے کے لیے انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ عہد نبویﷺ ہی میں وہ تمام صحابہ کرام جنھیں نبیﷺ نے دور دراز علاقوں میں اپنی طرف سے والی مقرر فرمایا تھا سب فقیہ اور مفتی تھے اور عہد نبوی ہی میں فتاویٰ جاری کرتے تھے۔ اور یہ امت کے لیے عمل افتاء و اجتہاد اور کتاب و سنت کے فہم اور اس سے استدلال کی مشق اور نبوی تربیت تھی۔ ان کے علاوہ بھی عہد نبوی میں اور اس کے بعد مفتیان صحابہ و صحابیات کی طویل فہرست ہے جو امت کی علمی و دینی رہنمائی فرماتے اور فریضہ تبلیغ دین میں مشغول تھے۔ فقہ و اجتہاد اور افتاء کے سلسلے میں سلف صالحین،صحابہ و تابعین، ائمہ فقہ اور فقہائے محدثین کی مساعی جمیلہ کے نتیجہ میں اور ان کے فقہی و اصولی مناہج کی روشنی میں جب امت اسلامیہ میں فقہ و افتاء کا کام منظم و مرتب ہونے لگا اور مستقل فن کی شکل اختیار کرنے لگا تو الگ سے اس کے اصول و قواعد بھی ترتیب دئیے جانے لگے اور ہر دور میں علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد اس کارخیر میں مشغول رہی، جو پیش آمدہ جدید مسائل پر غور کر کے مجتہدانہ انداز میں لوگوں کی رہنمائی کرتی رہی۔ اس لیے فکر و تدبر اور اجتہاد کا دروزاہ ہزار کوششوں کے باوجود علمائے حق نے کبھی بند نہیں ہونے دیا۔ اور ہمیشہ سے لوگ اسلامی فتاویٰ جات اور شرعی مسائل کے حل کے لیے علمائے کرام سے رجوع کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔