الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین صورت میں تخلیق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ولقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم (التین :4) ’’تحقیق ہم نے انسان کو احسن انداز میں پیدا فرمایا۔‘‘ مرد وعورت کو شریعت نے جہاں زندگی کے دوسرے معاملات میں اوامر و نواہی کا خیال رکھنے کا کہا ہے وہاں ان کو اپنے وجود میں تصرف کی حدود کا تعین بھی کردیاہے۔ مرد اور عورت چونکہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ الگ الگ صنف ہیں او رہر ایک مخصوص ساخت رکھتا ہے۔ خالق کی مرضی یہی ہے کہ جس طرح اس نے ان دونوں کو ان کی شکل پر پیدا کیا ہے۔ اس میں تبدیلی نہ لائی جائے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ ليس منا من تشبه بالرجال من النساء و لا من تشبه بالنساء من الرجال ‘‘(صحیح الجامع الصغیر5434) جو عورتیں مردوں کی مشابہت کریں اور جو مرد عورتوں کی مشابہت اختیار کریں وہ ہم میں سے نہیں۔ اللہ نے مردوں کے چہرے پر داڑھی کو سجایا ہے اور یہ مرد کی ہیئت میں ایک علامت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مرد کی ساخت میں چہرے کے بال یعنی داڑھی اصل ساخت کی نشانی ہے ہاں اگر کسی کے داڑھی آئی ہی نہیں تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طے کی ہوئی ساخت کے مطابق اسے بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ عمل جائز ہوگا۔ جیسے اگر کسی کی داڑھی نہ ہو تو وہ ایسی میڈیسن استعمال کرے کہ اس کی داڑھی آجائے تو یہ جائز ہوگا۔اسی طرح عورت کے چہرے کو اللہ نے داڑھی سے صاف رکھا ہے اور اس کی اصل ساخت یہی ہے یہاں اس کی ابرو کے بال اصل ساخت کے ہیں۔ اسی لئے آپ ﷺنے اس کے نوچنے سے منع فرما دیا بلکہ یہ عمل کرنے والیوں پر لعنت فرمائی۔ فرمایا: ’’ يلعن المتنمصات والمتفلجات والموتشمات اللاتي يغيرن خلق الله عز وجل . ‘‘(سنن نسائی5108) لعنت کی گئی ہے چہرے کے بالوں کو اکھاڑنے والیوں پر ، دانتوں کو رگڑنے والیوں پر اور گوندنے والیوں پر جو اللہ کی خلق کو بدل دیتی ہیں۔ چونکہ یہ کام تغییر لخلق اللہ ہے۔ اس لیے اس کی ممانعت ہے۔ لیکن اوپر ذکر کردہ ساخت والے اصول کے مطابق اگر کوئی عورت کہ جس کے چہرے پر داڑھی یا مونچھیں اُگ آئی ہوں وہ اسے صاف کرے یا کسی میڈیسن کے استعمال سے ختم کرسکتی ہے تاکہ وہ اپنی اصلی ساخت کی طرف ہوجائے اور اس کا یہ عمل تغیر لخلق اللہ میں شمار نہیں ہوگا۔
وبالله التوفيق
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ