الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غصہ کو عربی میں غضب کہتے ہیں او ریہ انسان کی اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ جو کسی ناپسندیدہ بات یا منظر کو دیکھ کر اس کے چہرے یا عمل سے برہمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں: (1) جائز غصہ (2) بے جا او رناجائز غصہ۔ (1) جائز غصہ : اس میں وہ امور داخل ہیں کہ جن پر غصہ کیا جاسکتا ہے جیسے کہ منکرات کو دیکھ کر انسان کے اندر اس سے نفرت کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھتی ہے اور وہ اپنے دل میں کڑھن محسوس کرتا ہے اور منکرات کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتا ہے اسے ہم غیرت ایمانی سے تعبیر کرسکتے ہیں اور اس طرح کا غصہ اور غضب عین تقاضہ شریعت ہے۔ آپؐ نے فرمایا: " من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ و ذلک أضعف الایمان" (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النھی عن المنکر) ’’جو منکر کو دیکھے تو وہ اپنے ہاتھ سے اسے بدلے اگر اس کی طاقت نہ رکھے تو زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل میں (اس کی نفرت) رکھے او ریہ ایمان کی کمزور ترین حالت ہے۔‘‘ مذکورہ بالا حدیث میں تین مراحل جو کہ پہلا ہاتھ اور دوسرا زبان اور تیسرا دل میں نفرت کے ہیں اس میں پہلے دو مراحل دل میں منکرات کو دیکھ کر کڑھنے اور غضب کا اظہار ہیں جبکہ دونوں کام نہ ہونے کی صورت میں دل میں نفرت پیدا رکھنا یعنی کم از کم کڑھکتے رہنا ہی ایمان ہے۔ گویا منکرات پر غیرت دینی کا تقاضا یہی ہے کہ دل میں اس منکر کی نفرت ہو اور جسم پر اس کا اظہار ہو۔ ہاں دعوت کے اسلوب کو اختیار کرتے ہوئے اس کے اظہار میں موقع و محل کے مطابق تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح غضب کی ایک ذاتیات سے متعلقہ ہے کہ ذاتی نقصان کی وجہ سے کسی کو کسی پر غصہ آجاتا ہے۔ اس بارے میں اگر تو وہ غصہ غلطی سے زیادہ نہیں تو درست ہے ورنہ دوسرے پر زیادتی تصور کرتے ہوئے یہ غصہ حرام ہوگا۔ ہاں ذاتی غصہ پر بھی قابو پانے کے لیے شریعت نے عفو و درگزر کی طرف ترغیب دلائی ہے کہ اگر معاف کردے اور یہ غصہ ختم کردے تو وہ بزدل اور بے غیرت تصور نہیں ہوگا بلکہ محسن شمار ہوگا اور اللہ کا مقرب بندہ مانا جائے گا جبکہ زیادتی والا غصہ حرام اور منکرات پر آنے والا غصہ برحق و واجب ہوگا اس میں سستی کرنے والا اور غصہ نہ کرنے والا اللہ کے ہاں مطعون ہے۔ وبالله التوفيق