الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دائرہ اسلام میں داخل ہوجانے کے بعد ایک مسلمان کی جہاں جان و مال محفوظ ہوجاتی ہے اسی طرح شریعت اسلامیہ نے اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ مسلمان کا دوسرے مسلمان پر جان مال اور خون و آبرو حرام ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: (حرمۃ مال المسلم کحرمۃ دمہ) (مسند الشہاب:177) مسلمان کے ما ل کی حرمت اس کے خون کی حرمت کی طرح ہے۔ مزید فرمایا: المسلم اخوالمسلم لا یظلمہ ولا یخذلہ ولا یحقرہ التقوی ھھنا التقوی ھھناو يشير إلي صدره (ریاض الصالحین:271) ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس پر ظلم نہیں کرتا نہ اسے اکیلا چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے تقویٰ یہاں ہے او راپنے سینے کی طرف طرف اشارہ فرمایا۔ مسلمان کی عزت و آبرو کی اسلام میں بڑی قدر ہے اور اس کی تذلیل و تحقیر سے منع کیا گیا ہے۔ انبیاء کی اہانت کا مرتکب نا صرف مرتد ہوجاتا ہے بلکہ واجب القتل بھی ہے جبکہ امتی مسلمان کی تحقیر و تذلیل کرنے والا واجب القتل اور مرتدکے زمرے میں تو نہیں آتا لیکن وہ حرام کام کا مرتکب ہے۔ آئمہ اسلاف پر سب و شتم یا ان کی تذلیل یقیناً عام مسلمان سے زیادہ شناعت رکھتی ہے کیونکہ آئمہ کی تذلیل سے تمام امت کے لوگوں کے دل دُکھتے ہیں لہٰذا ایسا شخص جو آئمہ کی تذلیل کا مرتکب ہو اگر اسلامی ریاست قائم ہے تو اسے تعزیری سزا دی جاسکتی ہے تاکہ اس کی زبان کی تکلیف سے معاشرہ کو بچایا جاسکے۔
وبالله التوفيق
فتوی کمیٹی
محدث فتویٰ