سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے یہ واقعہ اگرچہ متعدد مفسرین نے نقل کیا ہے۔ جن میں سے امام بغوی، امام آلوسی ،امام بیضاوی، اور امام ثعلبی قابل ذکر ہیں۔ لیکن یہ واقعہ استنادی حیثیت سے ضعیف ہے۔ امام البانی رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’لا أصل له. أورده بعضهم من قول إبراهيم عليه الصلاة والسلام، وهو من الإسرائيليات ولا أصل له في المرفوع، وقد ذكره البغوي في تفسير سورة الأنبياء مشيراً لضعفه ‘‘ (سلسلة الأحاديث الضعيفة 1/28-29)
اس واقعہ کی کوئی اصل نہیں ہے، بعض مفسرین نے اس کو نقل کیا ہے، یہ واقعہ اسرائیلیات میں سے ہے، اور مرفوع میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ امام بغوی نے بھی اپنی تفسیر میں اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اسے بیان کیا ہے۔ اس کے برعکس صحیح روایت سے ثابت ہے کہ آپ نے اس موقع پر (حسبي الله ونعم الوكيل) کہا تھا۔ [مجموع الفتاوى 1/183] نیز یہ بات یاد رہے کہ توکل کرتے ہوئے اسباب کو ترک کر دینا جائز نہیں ہے۔ توکل تو یہ ہے کہ آپ اسباب کو اختیار کرتے ہوئے انجام کے حوالے سے اللہ پر توکل کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو توکل کا مفہوم بتاتے ہوئے فرمایا تھا کہ پہلے اپنے اونٹ کا گھٹنا باندھو، پھر اللہ پر توکل کرو۔