الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام توحید کو تمام اعمال کے لیے شرط قرار دیتا ہے او راللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والےکے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں¬۔ جب تک وہ توحید کا اقراری نہ ہوگا ایسی حالت میں موت کی صورت میں وہ جہنم میں جائے گا اور ایسے شخص کےلیے اس کی موت کے بعد دعائے مغفرت سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ کو فرماتے ہیں: ماکان للنبی والذین آمنوا أن یستغفرللمشرکین ولو کانوا أولی قربی من بعد ماتبین لھم أنھم أصحاب الجحیم(التوبہ:113) ’’پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔‘‘ اس کی تفسیر صحیح بخاری میں اس طرح ہے کہ جب نبیؐ کے چچا ابوطالب فوت ہونے لگے تو نبیؐ ان کے پاس آئے ان کے پاس ابوجہل اورعبداللہ بن ابی امیہ بیٹھے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: چچا جان لا إلہ الا اللہ کہہ دیں تاکہ اللہ کے ہاں میں آپ کے لیے حجت پیش کرسکوں۔ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : اے ابوطالب کیا عبدالمطلب کے مذہب سے انحراف کرو گے؟ نبیؐ نے فرمایا: جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے روک نہیں دیا جائے گا میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔(صحیح بخاری:1360) اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی کی موت شرک پر ہوئی ہو تو اس کے لیے دعائے مغفرت کرنا درست نہیں ہے۔ مزید یہ لنک وزٹ کریں۔ http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/750/0/