وسیلہ کامطلب ہے ایسا ذریعہ استعمال کیا جو مقصود تک پہنچا دے۔ جائز وسیلہ کی تین صورتیں ہیں جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور وہ درج ذیل ہیں:
(1)اللہ تعالیٰ کے اسماء کا وسیلہ
قرآن میں ہے:
﴿ولله الأسماء الحسنیٰ فادعوه بها ﴾--الاعراف:180
’’اور اللہ کے نام سب نام اچھے ہی اچھے ہیں پس تم اس کے ناموں سے پکارو‘‘
اللہ تعالیٰ سے اس کے اسماء حسنیٰ کے وسیلہ سے دعا کرنا درست ہے جیسا کہ اوپر آیت میں ذکر ہے جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے نبیﷺ سے دعا کا پوچھا تو آپﷺ نے یہ دعا پڑھنے کا کہا:
«اللهم إنی ظلمت نفسی ظلما کثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفرلی مغفرة من عندک و ارحمني إنک أنت الغفور الرحيم»صحيح بخاری:834
’’اے اللہ ! یقیناً میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے علاوہ کوئی بخشنے والا نہیں ۔پس تو اپنی خصوصی بخشش کے ساتھ میرے سب گناہ معاف کردے او رمجھ پر رحم فرما، بے شک تو ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اس دعا میں اللہ تعالیٰ کے دو اسماء کو وسیلہ بنایا گیا۔
(2) اللہ کی صفات کے ساتھ وسیلہ
حدیث میں ہے:
«اللهم بعلمک الغيب وقدر تک علی الخلق أحينی ما علمت الحياة خبرا لی و توفی إذا علمت الوفاة خيرالی»سنن النسائی :1306
’’اے اللہ میں تیرے علم غیب او رمخلوق پر قدرت کے وسیلے سے یہ دعا کرتا ہوں کہ جب تک تیرے علم کے مطابق میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے مجھے حیات رکھا او رجب تیرے علم کے مطابق میرا مرنا بہتر ہو تو مجھے وفات دے دے۔‘‘
اس دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفات، علم او رقدرت کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔
3۔ نیک آدمی کا وسیلہ
ایسے آدمی کی دعا کو وسیلہ بنانا کہ جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو۔
احادیث میں ہےکہ صحابہ کرام بارش وغیرہ کی دعا آپؐ سے کرواتے۔صحيح بخاری :847
حضرت عمرؓ کے دور میں جب قحط سالی پیدا ہوئی تو لوگ حضرت عباسؓ کے پاس آئے اور کہا کہ وہ اللہ سے دعا کریں۔ حضرت عمر اس موقع پر فرماتے ہیں:
«اللهم إنا کنا نتوسل إليک بنبينا فتسفينا وإنا نتوسل إليک بعم نبينا فاسقنا»صحيح بخاری:1010
’’اے اللہ! پہلے ہم نبیﷺ کووسیلہ بناتے (بارش کی دعا کرواتے) تو تو ہمیں بارش عطا کردیتا تھا اب (نبیﷺ ہم میں موجود نہیں) تیرے نبیﷺ کے چچا کو ہم (دعا کے لیے) وسیلہ بنایا ہے پس تو ہمیں بارش عطا کردے۔
اس کے بعد حضرت عباسؓ کھڑے ہوئے اور دعا فرمائی۔
سائل کے سوال میں یہ پوچھا گیا ہے کہ نبیﷺ کے صدقے اللہ سے دعا کرنا کیسا ہے؟
اوپر پیش کی گئی عبارت میں میں ہم نے تین طرح کے وسیلے جو کہ مشروع ہیں ذکر کئے ہیں۔ اوّل الذکر اللہ کی صفات و اسماء کے ساتھ اور آخری الذكر اس کی مخلوق کا وسیلہ ہے، لیکن اس میں بھی اس سے دعا کروانا ہے اور حضرت عمرؓ کو آپؐ کے چچا عباس سے وسیلہ کے طور پر دعا کروانا اور یہ اقرار کرنا کہ ہم پہلے نبیؐ سے دعا کرواتے تھے او راب ا ن کے چچا سے کروا رہے ہیں یہ ثابت کرتا ہےکہ
(1) صحابہ فوت شدہ کو وسیلہ نہیں بناتے تھے۔
(2) وسیلہ اس نیک اور زندہ شخصیت سے محض دعا کروانا ہے۔
آپؐ کی وفات کے بعد سے یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کی دعا ردّ نہیں ہوتی او ران کا وسیلہ اور واسطہ دینا، شرعاً درست نہیں۔ کیونکہ فوت شدہ کا وسیلہ قرآن و حدیث اور صحابہ سے ثابت نہیں لہٰذا فوت شدگان کا وسیلہ بنانا حرام ہے او رناجائز ہے۔