الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پلیدگی ،گندگی ا ور نجاست سے حاصل کی جانے والی ایسی صفائی وستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو، اسے "طہارت کہتے ہیں"- نجاست خواہ حقیقی ہو، جیسے پیشاب اور پاخانہ، اسے [خبث] کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو، جیسے دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے [حدث] کہتے ہیں- دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے- رسول اللہ ۖ نے طہارت کی فضیلت بیان کرتے ہوءے فرمایا: «الطّھور شطر الایمان» (مسلم، طہارۃ، حدیث:223) "طہارت نصف ایمان ہے-' ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا: "وضو کرنے سے ہاتھ، منہ، اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہوجاتے ہیں-" (سنن النسائی، الطہارۃ، حدیث:103) طہارۃ اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ۖ کا ارشاد ہے: «لا تقبل صلاۃ بغیر طھور» (مسلم، الطہارۃ، حدیث:224) " اللہ تعالی طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا-" اور اسی کی بابت حضرت ابو سعید خدری رض فرماتے ہیں، نبی کریم ۖ نے فرمایا: «مفتاح الصلاۃ الطھور» (سنن ابن ماجہ، الطہارۃ، حدیث:275-276) "طہارت نماز کی کنجی ہے-" طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ۖ سے مروی ہے: " قبر میں زیادہ عذاب طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے-" (صحیح الترغیب و الترھیب، حدیث: 152)- ان تمام مذکورہ احایث کی روشنی میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے بدن، کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے- اللہ تعالی نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا : " اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندکی سے دور رہیے" (المدثر:5،4) مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراھیم اور اسماعیل علیہما السلام کو حکم دیا گیا: " میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں-" (البقرۃ:125) اللہ تعالی اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے- ارشاد باری تعالی ہے کہ: بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے-" (البقرۃ: 222)، نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا: "اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے-" (التوبہ:108) ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب
محدث فتوی
فتوی کمیٹی