الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے،اور اس تمام طرق شدید ضعیف ہیں،اہل علم کی ایک جماعت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ حدیث کذب اور موضوع ہے۔ یہ باطل نظریات کے حامل لوگوں کی وضع کردہ ہے۔امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ الموضوعات ‘‘ میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ "لا يصح من جميع طرقه" (الموضوعات:2/126) اس کے جمیع طرق غیر صحیح ہیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ایک سے زائد مقامات پر موضوع اور باطل قرار دیا ہے۔ (ميزان الاعتدال:3/236) امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوع روایات میں ذکر کیا ہے۔ (الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة:ص/359) امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔: " موضوع .... – ثم توسع في تخريج الحديث ثم قال : - وجملة القول أن الحديث - مع هذه الطرق الكثيرة - لم تطمئن النفس لصحته ؛ لأن أكثرها من رواية الكذابين والوضاعين ، وسائرها من رواية المتروكين والمجهولين الذين لا يبعد أن يكونوا ممن يسرقون الحديث ، ويركبون له الأسانيد الصحيحة . ولذلك فما أبعد ابن الجوزي عن الصواب حين حكم عليه بالوضع " انتهى. (السلسلة الضعيفة:4702) یہ حدیث موضوع ہے ،کثرت طرق کے باوجود نفس اس کی صحت پر مطمئن نہیں ہوتا،کیونکہ اس کو روایت کرنے والے اکثر رواۃ کذاب ، وضاع متروک اور مجہول ہیں،جن کے لئے احادیث کی چوری کرنا اور ان کی اسناد کو خلط ملط کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے،اسی لئے امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس پر وضع کا حکم لگایا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ متعدد صحیح احادیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بے شمار مناقب و فضائل بیان ہوئے ہیں۔جن کو یہ ضعیف روایت کم نہیں کر سکتی۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ