سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

لڑکی کا بیرون ملک تعلیم کے لیے جانا

  • 5545
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-18
  • مشاہدات : 34

سوال

میری ایک بہن ہے، جو کنواری ہے۔ اس کی عمر 26 سال ہے۔ نہایت پردے والی ہے۔ ہم اس کا رشتہ تلاش کر رہے ہیں مگر ابھی رشتہ مل نہیں رہا۔ وہ بیرون ملک اکیلی نوکری یا مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس پر والدین اور بھائی کی جانب سے شدید مخا لفت اور ناراضگی ہے، کہ ان حا لات میں بیرون ملک اکیلی اورغیرشادی شدہ لڑکی کا رہنا ٹھیک نہیں۔ والدین بھی بھیجنے پر راضی نہیں ہیں۔کیا میری بہن کا بیرون ملک جانے کا مطالبہ شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اگروہ والدین پر زبردستی اپنے باہر جانے کا مطالبہ منوائے تو کیا شرعا ناجائز ہے؟ وہ کیا گہنگار ہوگی؟ والدین اس کی رضامندی کے مطابق ہی رشتہ تلاش کررہے ہیں، مگر پھر بھی وہ بیرون ملک جانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ براۓ اکرم اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ تعلیم انسان کا حقیقی زیور ہے۔ اسلام میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر  پہلی وحی تعلیم ہی کے بارے میں نازل ہوئی۔  لہذا انسان کو علم حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن سعی کرنا چاہیے اور ان تعليمی اداروں میں داخل ہونا چاہیے جو اسلامی اقدار کو فروغ دیتے ہوں۔ آج کل تقریبا تمام اسلامی ممالک میں  دینی اور دنیاوی ہر طرح کی تعلیم کے بہترین مواقع میسر ہیں۔ غیر مسلم ممالک کا سفر کرنا کئی ایک خطرات کا باعث ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا. (النساء: 97-98).

بے شک وہ لوگ جنہیں فرشتے اس حال میں فوت کرتے ہیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، فرشتے ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں: ہم اس سرزمین میں انتہائی ناتواں اور کمزور تھے۔ فرشتے انہیں کہتے ہیں : کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم وہاں سے ہجرت کر جاتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہےاور وہ بہت بری جگہ ہے، مگر وہ نہایت کمزور مرد اورعورتیں، بچےجو نہ کسی تدبیر کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ کوئی راستہ پاتے ہیں۔

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی سرزمین جہاں انسان کا دین و ایمان محفوظ نہ ہو وہاں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

أنا بريء من كل مُسلم يقيم بين أظْهُرِ المشركين. (سنن أبي داود، الجهاد: 2645) (صحيح).

میں ہر اس مسلمان سے بیزار ہوں جو مشرکین میں رہائش رکھے ہوئے ہے۔

ایک دوسری حدیث میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْ مُشْرِكٍ أَشْرَكَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ، عَمَلًا حَتَّى يُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ. (سنن ابن ماجه، الحدود: 2536) (صحيح).

اللہ تعالیٰ اس مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا جو اسلام لانے کے بعد مشرک ہو جائے تا آنکہ وہ اہل شرک کو چھوڑ کر اہل اسلام سے نہ آ ملے۔

اگر کوئی ایسا علم ہو جس کو سیکھنا جائز ہے، لیکن اس کی تعلیم کسی اسلامی ملک میں میسر نہیں ہے، تو غیر مسلم ممالک میں اس علم كو  حاصل کرنے کی غرض سے جانا کچھ شروط کے ساتھ جائز ہے:

1. انسان کے پاس اتنا علم ہو کہ وہ کافروں کے شبہات کا جواب دے سکے، کیونکہ کافروں کے ممالک میں مسلمان طلبہ کو طرح طرح کے شبہات پیش کئے جاتے ہیں تا کہ وہ دین بیزار ہو جائیں، لا دینیت اختیار کر لیں یا پھر نام کے مسلمان رہ جائیں۔

2. انسان اتنا دین دار اور تقوی والا ہو کہ اپنی خواہشات اور جذبات کو کنٹرول کر سکے، شہوتوں سے دور رہ سکے، بصورت دیگر اس کے بھٹکنے کے قوی امکانات ہیں؛  کیونکہ وہاں کا معاشرہ مادر پدر آزادی والا معاشرہ ہے، جہاں ہر طرح کی بے حیائی شخصی آزادی  کی آڑ میں جائز تصور کی جاتی ہے، اوراسے قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

3. وہ تعلیم کسی اسلامی ملک میں نہ دی جاتی ہو۔ اگر وہ علم کسی اسلامی ملک میں پڑھایا جاتا ہے اور آپ کا وہاں جانا ممکن ہے،  تو غیر مسلم ممالک میں اس علم کو حاصل کرنے کے لیے جانا جائز نہیں ہے۔

4. تعلیم حاصل کرنے بعد مسلم ممالک میں آ کر مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے، غیر مسلم ممالک کی نیشنلٹی حاصل کرنےکی کوشش نہ کرے۔

لہذا اگر مذکورہ بالا چار شرطیں پائی جائیں تو انسان تعلیم کی غرض سے  بیرون ملک جا سکتا ہے، جیسا کہ

ام المؤمنین سیدہ سلمہ رضی اللہ عنہا نے سر زمین حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، وہ فرماتی ہیں: ہم حبشہ کی سرزمین پر اترے اور نجاشی کو بہترین پڑوسی پایا، ہم اپنے دین کے بارے میں پرامن ہو گئے، ہم نے وہاں اللہ تعالی کی عبادت کی، ہمیں وہاں نہ کوئی تکلیف دی جاتی تھی اور نہ ہی ہم وہاں کوئی ناپسند بات سنتے تھے۔ (مسند أحمد: 1740، الصحيحة: 3190).

ان شرائط کی عدم موجودگی میں غیر مسلم ملک میں تعلیم کی غرض سے نہیں جانا چاہیے کیوں کہ دین اور ایمان کو بچانا ایسی تعلیم سے زیادہ ضروری ہے جس سے انسان کے ایمان کو خطرات لاحق ہو جائیں۔  

• اسلام نے عورت کے تحفظ  کے لیے بہت سے احکامات دیے ہیں۔ ان میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ چاہے وہ سفر تعلیم کی غرض سے ہو یا کسی اور مقصد کےلیے۔ تاكہ اس کی عزت محفوظ رہے اور وہ فتنوں سے بچ سکے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کوئی خاتون اپنے محرم کے بغیر سفر نہ کرے اور نہ اس کے پاس کوئی مرد ہی آئے جب تک اس کے ساتھ محرم موجو نہ ہو۔ یہ سن کر ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میں فلاں فلاں لشکر میں جانا چاہتا ہوں لیکن میری بیوی حج کا ارادہ رکھتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اس کے ساتھ حج کے لیے جاؤ۔ (صحيح البخاري، جزاء الصيد: 1862)

مندرجہ بالا کلام سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جو علم آپ حاصل کرنا چاہتی ہیں، اگر اس کا سیکھنا جائز ہے، اوراس کی تعلیم آپ کے ملک میں میسر نہیں ہے، اور آپ میں مذکورہ بالا چارشرطیں پائی جاتی ہیں تو آپ اس تعلیم کی غرض سے  بيرون ملك جا سكتی ہیں، لیکن سفر میں محرم کا ہونا ضروری ہے، ایسے ہی وہاں پہنچ کر رہائش محرم کے ساتھ یا  لڑکیوں کے ہاسٹل میں ہونا ضروری ہے، جہاں کسی قسم کے فتنے کا خدشہ نہ ہو۔

یہ بھی ضروری ہے کہ جس جگہ تعلیم حاصل کرنی ہیں، کالج یونیورسٹی وغیرہ میں ، وہاں مرد وزن كا اختلاط نہ ہو، کیونکہ مرد وزن کا اختلاط ہی بہت بڑے فتنوں کا باعث ہے۔

عام طور پر لوگوں میں مذکورہ بالا شرطیں نہیں پائی جاتیں، نہ اتنا علم ہوتا ہے اور نہ ہی اتنا نیکی وتقوی کہ ایمان بچایا جا سکے۔ اس لیے آپ کو چاہیے کہ کوئی متبادل حل نکالیں یا آن لائن تعلیم حاصل کرلیں۔

والله أعلم بالصواب.

محدث فتوی کمیٹی

تبصرے