الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں مذکور روایت سنن دارمی میں موجود ہے۔
ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں:
قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطًا شَدِيدًا، فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ: " انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لَا يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ. قَالَ: فَفَعَلُوا، فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْإِبِلُ حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ (سنن دارمي: 93)
اہل مدینہ کو شدید قحط سالی کا سامنا تھا، تو انہوں نے سیدہ عائشہ کے سامنے شکایت پیش کی، تو انہوں نے کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر دیکھو اور اس کی چھت میں ایک کھڑکی بنا دو کہ آسمان اور آپ کی قبر کے درمیان کوئی چھت نہ ہو، تو لوگوں نے ایسا ہی کیا، پھر اتنی بارش ہوئی کہ سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے تازے ہو گئے کہ چربی سے پھٹنے لگے، اور اس سال کو "عام فتق" [موٹاپے سے پھٹ جانے کا سال] کہا گیا۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے تین وجوہات کی بنا پر اس روايت کو ضعیف قرار دیا ہے:
1. ماد بن يزيد كے بھائی سعید بن زید ضعيف راوی ہیں۔
2. یہ روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر موقوف ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کاقول يا فعل نہیں ہے۔ چنانچہ اگر مذكوره روايت صحیح بھی ہوتی، پھر بھی دلیل نہیں بن سکتی؛ کیونکہ ممکن ہے یہ صحابہ کرام کے اجتہادی فیصلوں میں سے ہو جو صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی، اور صحابہ کرام کے اجتہادی فیصلوں پر ہمارے لیے عمل كرنا لازمی نہیں ہے۔
3. اس روایت کی سند میں امام دارمی کے استاد ابو نعمان جو عارم کے لقب سے معروف تھے۔ یہ اگرچہ ثقہ ہیں، لیکن انہیں آخری عمر میں اختلاط (حافظے کی کمزوری کا عارضہ) ہو گیا تھا۔ يہ معلوم نہیں ہے کہ امام دارمی نے یہ روایت ان سے اختلاط سے پہلے سنی تھی یا بعد میں، اس لیے یہ روایت قابل قبول نہیں ہے، اور اس کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
(ديكھیں: التوسل انواعہ واحکامہ از البانی، صفحہ نمبر 126)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی واقعہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
اس واقعہ کے جھوٹ ہونے کی دلیل میں یہی کافی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں چھت کی جانب کوئی کھڑکی تھی ہی نہیں۔ یعنی وہ ویسے ہی تھا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں تھا، گھر کا کچھ حصہ چھتا ہوا تھا اور کچھ کھلا تھا، اور کھلی جانب سے گھر میں سورج کی روشنی بھی آتی تھیں۔ جیسا کہ صحیح بخاری اور صحيح مسلم میں ہے : سیدہ عائشہ رضی الله عنها بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم عصر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب دھوپ آپ کے صحن میں ہوتی تھی، ابھی تک سایہ نہیں آیا ہوتا تھا۔ یہ گھر ولید بن عبد الملک کے دور تک اسی طرح رہا ، پھر جب ولید نے اپنے عہد میں مسجد کی توسیع کی تو ان گھروں کو بھی مسجد نبوی میں شامل کر لیا، تو اس وقت سے یہ حجرے مسجد نبوی میں شامل ہو گئے، اور پھر قبر مبارک والے سیدہ عائشہ کے حجرے کے اردگرد بلند دیوار بنائی، اور اس میں یہ کھڑکی رکھی گئی تا کہ صفائی ستھرائی کے لیے اگر کوئی آنا چاہیے تو یہاں سے نیچے اتر سکے، لہذا یہ کہنا کہ یہ طاقچہ سیدہ عائشہ کی زندگی میں موجود تھا سراسر جھوٹ ہے۔(الاستغاثة في الرد على البكري (بتصرف يسير): 105)
اس روايت كو صحيح بھی مان میں ليا جائے پھر بھی اس میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سےمدد مانگنا جائز ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس میں یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد بھی آپ کا مقام بہت بلند تھا، اور یہی بات امام دارمی کے اس حدیث پر قائم کردہ باب سے عیاں ہوتی ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسد اطہر کی برکت ، اور آپ کی اللہ تعالی کے ہاں عزت بہت بلند ہے۔ لیکن یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مسلمان آپ کی قبر پر آئیں اور حاجت روائی کا مطالبہ کریں۔ صحابہ کرام نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ یہ منقول گا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرے کی چھت کی جانب طاقچہ کھول دیا تھا، ليكن كسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بارش نازل کرنے کی دعا نہیں کی۔
صحابہ کرام نے کئی بار اپنی زندگيوں میں قحط سالی کا سامنا کیا۔ انہوں نے بے شمار مصائب اور پریشانیاں پیش آئیں، لیکن کبھی بھی بارش کے لیے یا پریشانیوں کے ازالے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پکارا۔ بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروا کر اللہ تعالی سے بارش مانگی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر آ کر بارش نہیں مانگی۔
والله أعلم بالصواب.
محدث فتوی کمیٹی